چیف جسٹس کی درد انگیز تلقین اور حقائق

ایڈیٹوریل  منگل 7 اپريل 2020
چیف جسٹس نے ملکی صورتحال کے سیاق وسباق میں طرز حکمرانی پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ فوٹو:فائل

چیف جسٹس نے ملکی صورتحال کے سیاق وسباق میں طرز حکمرانی پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت کے معاملہ کی سماعت کی اور قرار دیا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت معاملات حل کرے ۔

چیف جسٹس نے کورونا کے تناظر میں طرز حکمرانی پر چشم کشا رائے دی اور کہا کہ ’’سب کاروبار بند کررہے ہیں، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا،‘‘ انھوں نے استفسار کیا کہ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام اسپتال بند ہیں، شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں، عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلیں، اور ہاتھ بیس بار دھوئیں، کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز مانگتے ہیں، تمام چیف منسٹرز گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گراؤنڈ پر کام نہیں ہورہا۔

حقیقت میں چیف جسٹس نے ملکی صورتحال کے سیاق وسباق میں طرز حکمرانی پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے، منصف اعلیٰ نے خلق خدا کو درپیش حالات کی درد انگیز تصویر کھینچی ہے، اس پر ہر دل نے غیر معمولی کسک محسوس کی ہوگی ۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں، حکمراں عوام کے دکھوں کا مداوا کریں۔

دریں اثنا وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملی ہے، پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کی رفتار سست ہے جو حوصلہ افزا بات ہے۔ یہاں پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں یہ نہیں بتا سکتے کہ 14اپریل کے بعد لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں کمی کی جائے گی یا ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ لاک ڈاؤن کے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں جن سے امیر اور غریب دونوں ہی متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستانی قوم نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہی اس وبا سے مقابلے کا واحد طریقہ ہے تاہم بعض علاقوں میں احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد نہیں ہورہا۔

حکومت ان کے رفقائے کار، مشیر و معاونین خصوصی ایک عجیب سی سنگدلانہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کورونا وائرس کو لاک ڈاؤن کرکے انھیں چین کی بنسری بجانے کی چھوٹ مل گئی ہے اور وہ کسی کوجوابدہ نہیں، ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ٹھیک چل رہی ہے، کورونا کے خلاف پاکستان کی مدد چین سمیت متعدد عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں نے جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے تو وہی وطن عزیز کو اس طوفان سے نکالنے میں بھی قوم کی مدد کریں گے، لیکن اس انداز فکر سے ’’گڈ گورننس‘‘ کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے، ادارہ جاتی سطح پر کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جس حقیقت پسندانہ، ماہرانہ اور زمینی حقائق سے جڑی پالیسیوں سے صورت حال کو بدلا اور وبا سے متاثرین کو جو سہولتیں دی جاسکتی تھیں، اس اسٹرٹیجی اور میکنزم کا سرے سے کہیں کوئی وجود نہیں، جنوری کے اوائل سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے گھوڑے مختلف سمت میں دیوانہ وار دوڑتے تو نظر آئے مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ ان کی منزل صرف کورونا کی لگام روکنا ہے یا ان کی ترجیحات میں اس ملک کے ہیلتھ سسٹم، متوسط طبقے کے معاشی حالات اور ملکی اقتصادیات کو بھی پیش نظر رکھنا ہے۔

ضرورت اسی نوعیت اور پیمانہ کی میڈیکل سائنس، علاج معالجہ اور سماجی ومعاشی حکمت وعملی کی تھی اور اب بھی ہے۔ اس بات سے اسد عمر سمیت ملک کا ہر با شعور شخص واقف ہوگا کہ کورونا کے دہشت انگیز تجربات کے حوالے سے ملک کا طبی عملہ ہمارے ہیروز ہیں، انھیں حفاظتی سامان کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ طبی عملے کو حفاظتی سامان کی براہ راست فراہمی پر غور کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ملک کی کورونا ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ وائرس پھیلنے سے صحت کے نظام پر بوجھ پڑ سکتا ہے۔ کوشش ہے صورت حال قابو سے باہر نہ ہو۔

بدقسمتی سے یہی باتیں قوم وزیر اعظم عمران خان اور مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے سننا چاہتی ہے، عوام مسلسل لاک ڈاؤن میں ہیں، ان کی معاشی حالت دگرگوں ہے، طبی سہولتیں ناپید ہیں، کسی کو کورونا سے ہٹ کر بھی کسی ہنگامی صورت حال کے تحت اسپتال جانا پڑ جائے تو راستے بند ہیں، ٹوٹل لاک ڈاؤن ہے، گزشتہ دنوں کرفیو جیسا لاک ڈاؤن بھی قوم نے دیکھا، ایک سے بڑھ کر ایک ہدایت اور تدبیر موجود ہے، ہاتھ دھونے، سماجی فاصلہ رکھنے، سانس لینے اور باتیں کرنے سے بھی احتیاط کی تلقین کسی تحقیق کے نتیجہ میں سامنے آئی، ارباب بست وکشاد کو شکایت ہے کہ عوام کورونا وائرس کو روکنے اور ملک کو اس وبا سے بچانے میں احکامات پر عمل نہیں کرتے۔

ان کی یہ شکایت بے جا ہے کیونکہ علاج کو ترسے ہوئے عوام کو تو کلوروکوئن دوا دستیاب نہیں، اس اہم دوا کی فراہمی کی درخواست صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کرچکے ہیں، ٹرمپ اپنے عوام کے لیے کلوروکوئن کی بلک کی صورت میں فراہمی کے لیے بے چین ہیں، جب کہ اس دوا کے ایکسپورٹر صرف چند ممالک ہیں، وہی اس دوا کی تیاری کا استحقاق رکھتے ہیں، کسی نے سوچا کہ عوام کے لیے کلوروکوئن کیوں دستیاب نہیں ہے؟

مسئلہ طرز حکمرانی کا ہے، کورونا کے بارے میں ہر قسم کی تحقیق سامنے لائی جارہی ہے، سائنسدان، معاشی مبصرین پوسٹ کورونا منظرنامہ پر ریسرچ کررہے ہیں، لیکن جب حکومت کی کارکردگی پر نظر پڑتی ہے تو آوے کا آوا بگڑا ہوا نظر آتا ہے، وزیراعظم نے جتنے اعلانات اور امدادی پیکیجز کی پیشکش کی ہے یا ان کے وزرا ، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ نے عوام سے راشن کی فراہمی اور نقد امداد کے جتنے وعدے کیے ہیں کوئی بتائے کہ اس کا ڈیٹا کہاں ہے، وہ فوری یا ماہانہ امداد، دہلیز پر پنچنے والا راشن کہاں غائب ہوگیا، ہر وزیر اور مشیر نے ٹی وی ٹاکس، ٹویٹ و واٹس ایپ کی سیاست کی دکان کھول رکھی ہے، ساری سیاست اور خدمت خلق میڈیا کے کندھے پر رکھ کر یا آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے گزرتی ہے۔

کہتے ہیں ایسی بحرانی کیفیت میں ہی قیادتوں کا امتحان ہوتا ہے، حکمرانوں کے جوہر کھلتے ہیں، غریبوں کی آہیں اثر کرتی ہیں، لیکن لگتا ہے کہ کورونا کے باعث وزرا نے لفظی جمع خرچ کا بازار سجالیا ہے، حکمرانوں کے ہوش گم ہیں، کاروبار، تجارت، معیشت پر کسی کی نظر نہیں، مڈل کلاس کی کمر دوہری ہوگئی، دیہاڑی دار بھیک مانگے پر مجبور ہے، خواتین بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کی طلبگار ہیں، وعدہ فراموشی کا ایسا زمانہ کسی نے نہیں دیکھا، حکمرانیgovernmentlessلگتی ہے، لوگوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے کہ کورونا بڑھ رہا ہے، ہلاکتیں 50 ہزار ہوسکتی ہیں، بار بار ہاتھ دھوئیں ماسک منہ سے نہ ہٹائیں، بعض تو سوتے وقت بھی ماسک پہنے رہتے ہیں۔ میڈیکل ٹیموں کو بھی ضروری سامان میسر نہیں۔ کس کس بات کا رونا روئیں۔

دوسری طرف چینی اور گندم سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک ہوئی ہے، اس پر شور مچا ہوا ہے، سرمایہ دار لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں، اجارہ دار اور سیاسی حواریوں کا گروپ سبسڈیز لے رہا ہے، اس کار خیر میں اسے برسوں سے قانونی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ وزیراعظم نے چینی، گندم بحران پر رپورٹ طلب کرلی ہے، ذمے داروں کے خلاف ایکشن کا عندیہ بھی دیا ہے، لیکن دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ اپوزیشن جماعتیں کہتی ہیں کہ کارروائی ہونی چاہیے، مبصرین کے مطابق رپورٹ حتمی نہیں، اس میں ابہام وتضاد کی فراوانی ہے۔

کورونا وائرس سے ملک بھر میں اموات45 جب کہ متاثرین کی تعداد 3124 ہوگئی ہے جب کہ صحتیاب ہونیوالوں کی تعداد 223 ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں 1380، سندھ881، خیبرپختونخوا374، بلوچستان191، گلگت بلتستان206، اسلام آباد78 اور آزاد کشمیر میں 14مریض ہیں، ان میں18کی حالت تشویشناک ہے۔ جاں بحق 15 مریضوں کا تعلق سندھ، 12کا پنجاب، 14 کا خیبر پختونخوا، تین کا گلگت بلتستان اور ایک کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

لاہور کے میو اسپتال میں زیر علاج کورونا کی 66 سالہ مریضہ جاں بحق ہوگئی، اسے ویلنشیا ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ کیمپ جیل لاہور کے مزید قیدیوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایران سے آئے77 زائرین کو ملتان قرنطینہ سے جھنگ قرنطینہ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد 69 ہوگئی۔ بارانی یونیورسٹی راولپنڈی کے قرنطینہ سینٹر میں موجود تمام 34 افراد کی رپورٹ منفی آ گئی، انھیں مزید چودہ دن نگرانی میں رکھا جائیگا۔

کراچی میں کورونا کا ایک اور مریض دم توڑ گیا جب کہ 58 مریض صحتیاب ہوئے، کراچی میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 37 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، صوبے بھر میں51 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد متاثرین کی مجموعی تعداد 881 جب کہ اموات 15ہوگئی ہیں۔ کراچی میں13 اور حیدرآباد میں 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ سندھ میں رابطہ کیسز کی مجموعی تعداد517 ہوگئی، صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 123 ہوگئی۔ صوبہ بھر میں 8931 افراد کے کورونا ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔

دنیا بھر میں اموات 67,851 ،جب کہ متاثرین کی تعداد12لاکھ 44ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ امریکا میں ایک دن میں ہلاکتیں697، اٹلی15887،جرمنی1523، اسپین12418 فرانس7560، برطانیہ میں4934ریکارڈ کی گئیں۔ دنیا کورونا سے تاحال لرزہ براندام ہے، متحدہ عرب امارات نے کورونا سے متاثرہ ممالک کی معیشت کے استحکام کے لیے امداد بڑھا کر 70 ارب ڈالر کردی ۔ ارباب اختیار غریبوں کا خیال کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔