منو بھائی! قیامت آگئی اے

سعید پرویز  ہفتہ 11 اپريل 2020

گھر میں بیٹھا ہوں، زندگی کے معمولات بند ہوگئے ہیں۔ فجر کی نماز سے دن کا آغاز ہوتا ہے، پھر 40 منٹ کی واک۔ سب کچھ ختم۔ پورا شہر لاک ڈاؤن ہے، بازار بند ہیں، دفاتر، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں بند ہیں، اور سڑکوں پر سناٹا ہے۔

حکومت نے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے غریب بستیوں کے لوگ گھروں سے باہر آتے جاتے رہتے ہیں اور بستیوں کے نوجوان موٹر سائیکلوں پر سوار پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ’’ہولے ہتھ‘‘ کی وجہ سے پولیس پکڑتی نہیں ہے، اورکان پکڑوا کر چھوڑ دیتی ہے۔ لوگوں میں شدید خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ یہ جو میں نے ابھی ابھی لکھا ہے نا! ’’شدید خوف وہراس‘‘  یہ معمولی سی بات ہے مجھے لکھنا چاہیے ’’ پوری دنیا قیامت کے مناظر دیکھ رہی ہے۔

ایٹم بم کے ڈھیر پڑے ہیں دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، آسمان کو چھوتی دلکش عمارتیں کھڑی ہیں۔ اہرام مصر بھی دیکھ رہے ہیں۔ اہرام میں صدیوں سے پڑی ممیاں، سارے فرعون سب دیکھ رہے ہیں،گویا صدیاں دیکھ رہی ہیں۔

اس کورونا نے قدرت کے بڑے بڑے رنگ دکھائے ہیں۔ پورا برصغیر اب تک (کہ جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں) اس وبا کی ہولناکیوں سے بچا ہوا ہے۔ ایک ارب سے اوپرکا ہندوستان، 30کروڑ سے اوپرکا بنگلہ دیش، 22 کروڑ کا پاکستان، سری لنکا، نیپال، ان ممالک میں پہلے تین ملک غربت کے مارے، بے گھر، فٹ پاتھوں پر سونے والے، گندگی سے لبریز جھونپڑیوں میں رہنے والے، طرح طرح کی بیماریوں میں گھرے ہوئے، مگر پھر بھی کورونا کی یورپ، امریکا جیسی ہولناکیوں سے دور۔ یہ سب کیا ہے؟

میں نے اوپر لکھا ہے ’’ قدرت کے رنگ‘‘۔ کہنا نہیں چاہیے مگر پھر سوچتا ہوں کہ اور کب کہوں گا! ان کامن ویلتھ والوں نے اپنی انجمن ’’اقوام متحدہ‘‘ کا سہارا لے کر جو کچھ کرہ ارض پر ادھم مچایا ہے ذرا اس پر بھی غور کرلو۔ یہ جو دنیا کے منصف بنے بیٹھے ہیں انھوں نے کب انصاف کیا ہے! انھوں نے ترازو ہاتھ میں لے کر ’’جھوک‘‘ (ترازوکو ایک جانب جھکانا) ہی ماری ہے۔

پینٹاگون بھی بے بس ہے، ہتھیاروں بلکہ مہلک ہتھیاروں کے انبار، ملکوں ملکوں ڈھیر لگے پڑے ہیں، مگر سب بے کار، بڑی دیر سے جالب کے مصرعے کلبلا رہے ہیں، لکھے دیتا ہوں:

ہوئے ہیں جھونپڑے ہی نذر طوفاں

مگر قائم ہیں اب تک قصر و ایواں

خدایا کوئی آندھی اس طرف بھی

اُلٹ دے ان کلہ داروں کی صف بھی

زمانے کو جلال اپنا دکھا دے

جلا دے تخت و تاج ان کے جلا دے

امریکا سے یہاں تک یہ کلہ دار باز نہیں آئیں گے۔ کورونا حملہ آور ہے اور آٹے اور چینی پرکروڑوں کما رہے ہیں۔ یہ سمندر پیے ہوئے ہیں اور لب پھر بھی خشک ہیں۔ جہانگیر ترین، خسرو بختیار، انس چوہدری، ان کا کیا ہوگا ’’اے قدرت کی لاٹھی چل۔‘‘

میں تو سمجھا تھا کہ قیامت آگئی، اور میں منو بھائی کو بتانا چاہتا تھا، جو زندگی بھر مفلوک الحال لوگوں کے لیے لڑتے رہے، اور قدرت سے گلا گزار رہے اور کہتے رہے ’’پر اجے قیامت نہیں آئی۔‘‘

یارو! میں کیا کروں، کدھر چلا جاؤں۔ یہ میرے اپنے جن کے ساتھ میں آسودہ رہتا ہوں۔ دو ماہ پہلے اداس نسلیں ختم کیا، عبداللہ حسین مجھے لیے لیے پھرے، کئی غیر ملے، کئی اپنے ملے۔ اب آگ کے دریا سے گزر رہا ہوں۔ قرۃ العین حیدر صدیوں کی کھوجی، اسے تلاش ہے، اس تلاش کی پاداش میں اسے پاکستان سے واپس ہندوستان جانا پڑا۔ پاکستان میں حق یعنی سچ کے کھوجیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔  قرۃ العین حیدر تو چلی گئی مگر اس کی ’’کھوج‘‘ پاکستان میں ہے۔ اس کی کھوج صدیوں بہت صدیوں پہلے سے شروع ہوئی ہے۔ مذہب کے سہارے تب بھی تھے، ہندو مت اور بدھ مت صدیوں پرانے مذہب ہیں، پھر یہودی، عیسائی مذہب آئے اور آخر میں اسلام آیا۔

تمام مذاہب حضورؐ کے سامنے تھے، آخری نبی نے نبوت کا آخری نچوڑ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ حضورؐ نے بھی بتادیا کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ مگرکیا کریں کہ ’’برائی‘‘ غالب ہے اور ’’سارے‘‘ بروں کے ساتھ ہیں، بروں کے ہمنوا ہیں۔ اور’’انسانیت‘‘ قدم قدم پر دم توڑتی نظر آتی ہے۔ اور’’کتنا سکون ہے رسن وداری کی طرف/آتا ہے کون جرأت اظہارکی طرف/ دشت وفا میں آبلا پا کوئی بھی نہیں/سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف۔(جالب)

’’منو بھائی! قیامت آگئی اے‘‘ پر یہ جو لوٹ کھسوٹ والے ہیں نا! انھوں نے آخری سانس تک باز نہیں آنا۔ منو بھائی! تم نے اپنی نظم میں لکھا ہے۔

تاریخ تماشا بُھکھاں دا ، تہذیب کھڈونا رجاں دا

تنقید جگالی لفظاں دی، تشہیر سیاپا لجاں دا

موسیقی راتب کُتیاں دا تے ادب گتاوا مجھاں دا

پر اجے قیامت نئیں آئی

منوبھائی! کورونا آگیاہے، ہور قیامت کی ہو وے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔