امریکا میں 28 سال بعد ایک بار پھر تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے پر غور

ویب ڈیسک  اتوار 24 مئ 2020
ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ ان ایٹمی دھماکوں کے ذریعے روس اور چین کو ’’مؤثر تنبیہ‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ ان ایٹمی دھماکوں کے ذریعے روس اور چین کو ’’مؤثر تنبیہ‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن: امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ میں ایک حالیہ اجلاس میں ایک بار پھر سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے پر غور کیا گیا ہے تاکہ روس اور چین کو مؤثر تنبیہ کی جاسکے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، 15 مئی کے روز ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ’’جلد ہی‘‘ تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے پر بھی غور کیا گیا۔

واضح رہے کہ امریکا نے 1992 میں اپنا آخری تجرباتی ایٹمی دھماکہ کیا تھا لیکن تب تک وہ 1,032 ایٹمی دھماکے کرچکا تھا جن میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران 1945 میں جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کرنے والے دو ایٹم بموں کے دھماکے بھی شامل تھے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے آنے والے دنوں یا مہینوں میں ایک بار پھر سے تجرباتی ایٹمی دھماکے شروع کردیئے تو اس سے دنیا میں ایک نئی اور پہلے سے زیادہ شدید ایٹمی دوڑ شروع ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف سوویت یونین اور چین بلکہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دیگر ممالک بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ممکنہ طور پر وہ بھی اپنے ایٹم بموں کے تجرباتی دھماکے ایک بار پھر شروع کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔