یومِ والدین

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 31 مئ 2020
ماں باپ کے ساتھ اظہارِتشکر کا دن ۔  فوٹو : فائل

ماں باپ کے ساتھ اظہارِتشکر کا دن ۔ فوٹو : فائل

محمد احسان کی عمر اس وقت 64 سال ہے، یہ کسی زمانے میں ملک کے مایہ ناز سرکاری انجنیئر ہوا کرتے تھے، ساری زندگی انہوں خوب عیش و عشرت میں گزاری جس چیز کی تمنا کی، وہ ان کے سامنے دوڑتی ہوئی حاضر ہوگئی۔

اپنی بیوی سے انہیں شدید محبت بلکہ عشق تھا اس لیے ساری زندگی وہ اُس کے لبوں کے متحرک ہونے کے انتظار میں رہے کہ کب اُس کی زبان سے کوئی فرمائش کی جائے اور وہ اُسے پورا کردیں اور محمد احسان کا اکلوتا بیٹا کامران جس کے لیے انہوں نے جائز و ناجائز دولت کے انبار پوری لگن سے جمع کیے تھے۔

اُسے تو انہوں نے دنیا کی ہر آسائش وقت اور عمر سے بھی بہت پہلے ہی لاکر دینا شروع کردی تھی ، کامران کی جب سائیکل چلانے کی عمر ہوئی تو موٹر بائیک لاکر دے دی، جب موٹر مائیک چلانے کی عمر آئی تو گاڑی خرید کر دے دی اور جب اُس کی ملازمت ڈھونڈنے کا وقت آیا تو اپنی برسوں کی جمع پونچی اور تمام جائیداد اُس کے ہاتھوں میں تھماکر خود سکون سے ایک بھرپور ریٹائر زندگی گزارنے کے زعم میں آرام دہ بستر پر دراز ہوگئے اور آنکھیں بند کرکے دن میں خواب دیکھنے لگے کہ جس جاں سے پیارے بیٹے کی وہ ساری زندگی ’’چیزوں سے خدمت‘‘ کرتے رہے اب وہ اکلوتا بیٹا اپنی چاند سی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ان کی پورے ’’اخلاص سے خدمت‘‘ کرے گا۔

یہ خواب چونکہ دن کو دیکھا گیا تھا اس لیے جلد ہی ٹوٹ گیا۔ ابھی محمد احسان کو بستر سے لگے پورے چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ انہیں رات میں باربار اُٹھنے کی بیماری لاحق ہوگئی، جس سے ان کے بیٹے اور اُس کی نئی نویلی دلہن کو سخت کوفت ہونے لگی۔ بڑے ارمان اور چاؤ سے لائی گئی بہو نے اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ انہیں شہر کے کسی اچھے سے ’’اولڈ ہوم‘‘ میں داخل کرادیں اور ان کی زوجہ محترمہ کو ملازمہ کا روزمرہ کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے گھر میں ہی رکھ چھوڑیں۔ محمد احسان نے اپنی رفیقِ زندگی کے بغیر ’’اولڈ ہوم‘‘ جانے سے لاکھ انکار کیا لیکن اُن کی ایک نہ چلی اور اب حالت یہ ہے کہ ہر چھ ماہ میں ایک بار ملاقات کرنے کے لیے اُن کا بیٹا اور بہو ’’اولڈ ہوم‘‘ اُن سے ملنے آجاتے ہیں۔

محمد احسان اپنے پیارے ملاقاتیوں کے چلے جانے کے بعد ساری دنیا کو چیخ چیخ کر کہنا چاہتا ہے کہ ’’جب تک وہ تن درست تھا، کماتا تھا، اس وقت تک ان کے گھر والوں کا برتاؤ ان کے ساتھ مناسب رہا لیکن اب وہ ساری زندگی اُن کی ضرورتوں کا بوجھ اُٹھانے والے کو ہی خود پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ’’اپنے‘‘ گھر میں رکھنا نہیں چاہتے۔ سب کا خون سفید ہوگیا ہے لیکن پھر وہ یہ سوچ کر چُپ ہوجاتا ہے کہ بھلے ہی وہ اپنے وقت کا ایک کام یاب انجنیئر رہا ہو مگر اُس نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے خود کو ٹھیک سے’’ انجنیئرڈ‘‘ نہیں کیا، ورنہ اُس کی بیوی اور بیٹا اُس کے ساتھ ایسی ’’بے رحمانہ حرکت‘‘ آخر کرتے ہی کیوں۔‘‘

زمانہ جتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے انسانی اقدار اسی تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہیں جہاں پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ہم دردی باقی نہیں رہی۔ خصوصی طور پر ناخلف اولاد اپنے والدین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے۔ اسے ضبط تحریر میں لانا بے حد مشکل ہے۔ ویسے تو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے شعور کی کمی کسی نہ کسی صورت ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ دورِ جدید میں جس تواتر اور کثرت کے ساتھ والدین کے ساتھ بدسلوکی کے دل دہلا دینے والے لرزہ خیز واقعات دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں، یقیناً اس کی مثال تو ماضی کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

والدین کے ساتھ زیادتی و بدسلوکی کے واقعات دنیا کے ہر ملک، ہر معاشرہ، ہر فرقہ اور ہر قوم میں اس تواتر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہی اقوام ِ متحدہ نے 17 ستمبر 2012 ؁ء کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے اپنے تمام رکن ممالک کو پابند کیا کہ وہ ہر سال یکم جون کو بطورِ یوم والدین منانے کے پابند ہوں گے۔

اُس وقت سے ہر سال یکم جون کو دنیا بھر میں ’’یوم والدین ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یکم جون کو والدین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ والدین کی عزت و توقیر معاشرہ کی نشوونما کا سب سے اہم جز ہے۔ اس کے بغیر معاشرے کو جس افراط و تفریط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُس کا آخری نتیجہ انسانیت کی موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ اپنے تمام رُکن ممالک کو اس دن کے ذریعے سے یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں ایسے قوانین اور پالیسیاں بھی بنائیں جن سے والدین کو معاشرہ میں عزت، وقار، ستائش اور تحفظ حاصل ہوسکے۔

گو کہ دنیا بھر میں ’’والدین‘‘ اپنی اولاد کے ہاتھوں جس قسم کے الم ناک رویوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اُن کے مقابلے میں پاکستان میں حالات فی الحال قدرے بہتر ہیں لیکن اتنے بھی بہتر نہیں ہیں کہ جنہیں ہم اطمینان بخش قرار دے کر صرفِ نظر کر سکیں، کیوںکہ روز بہ روز ہمارے ہاں بھی والدین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

آج سے 25 سے 30 سال پہلے ہمارے والدین انفرادی اور اجتماعی طور پر جس اہمیت، احترام اور تحفظ کا احساس رکھتے تھے آج اُس کا عشر عشیر بھی معاشرے میں باقی نہیں رہا۔ اُس وقت یہ تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا کہ پاکستان میں کبھی ’’اولڈ ہوم‘‘ بھی کھلیں گے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ’’اولڈ ہوم‘‘ کھل چکے ہیں اور مزید کھل رہے۔

اولڈ ہوم چاہے کتنے ہی خوب صورت اور آرام دہ کیوں نہ ہوں مگر معاشرہ کے لیے ان کا وجود ایک المیہ کی علامت ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ وقتی طور پر والدین کی مادی ضروریات کی تکلیف تو کچھ کم کر سکتے ہیں مگر کسی بھی صورت اُن کے اُن نفسیاتی و ذہنی دکھ درد کا مداوا نہیں بن سکتے، جس کا شکار اولڈ ہوم میں آنے والے اکثر و بیشتر والدین ہوتے ہیں۔ اولڈ ہوم ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیرفطری رویوں کا مظہر ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان عوامل کا نہ صرف سراغ لگائیں جن کی وجہ سے ہمارے مضبوط خاندانی معاشرے میں ’’والدین‘‘ ادب و احترام کے حوالے سے شکست و ریخت کا شکارہو رہے ہیں بلکہ اُن کے تدارک کے لیے ہر ممکن عملی قدم بھی اُٹھائیں۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں سالانہ عالمی ٹیچر ایوارڈ کا انعقاد کرنے والی تنظیم ’’ورکی فاؤنڈیشن‘‘ نے والدین کے ترجیحات اور رویوں کو جاننے کے لیے 29 ممالک کے 83,027 والدین کا سروے کیا تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کس مقام پر ’’سنگین غلطی‘‘ کے مرتکب ہورہے ہیں کہ بچے بڑے ہوکر اپنے آپ کو والدین سے وابستہ ہونے میں عدم دل چسپی سے کام لے رہے ہیں۔

سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر ماں باپ کے رویوں میں اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کے روزگار کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دنیا کے اکثر والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے گھریلو جھگڑوں، کیریئر یا کاروباری ترقی، ملکی سیاست اور دیگر تنازعات پر زیادہ غور کرتے ہیں، اوربچوں کو اُن کی ذہنی صلاحیت، کارکردگی اور فیصلہ سازی میں معاون اشیاء مثلاً غیرنصابی کتابیں، کیلکولیٹر، برقی ڈکشنری یا اس نوعیت کی دیگر سائنسی آلات فراہم کرنے کی بہ نسبت اسکول کی فیس، آمدورفت کے اخراجات اور ٹیوٹر کو تنخواہ دینے میں زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں، جب کہ دنیا کے صرف گیارہ فی صد والدین ہی اپنے بچوں کے ساتھ چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ گزار پاتے ہیں۔ رپورٹ سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق والدین کے یہی غیردانش مندانہ رویے بچوں کو ذہنی و قلبی طور پر والدین سے دور کر رہے ہیں۔

یکم جون ’’یوم والدین ‘‘ کے صورت میں جہاں ہماری نئی نسل سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی محبتوں، قربانیوں اور شفقتوں کا احساس کریں اور اُنہیں وہی عزت، احترام اور مقام دیں جس کا ہم سے ہمارا مذہب، ہمارا معاشرہ، ہماری اقدار اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہم سے تقاضا کرتی ہے۔ وہیں والدین پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور اولاد کے درمیان مزاج آشنائی کا ایک مناسب ماحول تخلیق کریں۔

اس کے لیے فریقین کا ایک دوسرے کے مزاج اور رویوں سے ہم آہنگی حاصل کرنا ازحد ضروری ہے اور ہم آہنگی تب ہی حاصل ہوگی جب دونوں فریق ایک دوسرے کی ذہنی و نفسیاتی ضروریات سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ اولاد کو یہ سوچنا ہو گا کہ زمانہ چاہے کتنا بھی جدید ہوجائے بہرحال کچھ روایات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی پابندی والدین کا دل جیتنے کے لیے ضروری ہوتی ہے، جب کہ والدین کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا کہ وہ اولاد سے متعلق تمام فیصلے صرف اپنے ماضی کے محدود مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں نہیں کر سکتے۔ اُنہیں بھی جدید اطلاعات کے سمندر سے اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور مستفید کرنا ہوگا۔

جیسا کہ امامِ علم و حکمت حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! کبھی بھی اپنی اولاد کو اپنے جیسا بننے پر مجبور نہ کرو کیوںکہ یہ اپنے زمانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اگر انہیں بھی تمہارے جیسا بنانا ہی قدرت کا منشا ہوتا تو پھر وہ انہیں پیدا ہی کیوں کرتا، اس کے لیے تو تم لوگ ہی کافی تھے۔‘‘ آج کا دور کیوںکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے اور ہم میں سے ہر شخص کا زیادہ تروقت انٹرنیٹ پر ہی صرف ہوتا ہے اس لیے یہاں ہم والدین کی تربیت، اولاد کی آگاہی کے حوالے سے دنیا کی چند بہترین ویب سائیٹس دے رہے جو ہماری رائے میں ہر کسی کے لیے معلومات افزا ثابت ہوں گی:

1 ۔www.understood.org

تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہترین اور سازگار ماحول فراہم کریں جو ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔ یہ ویب سائیٹ اُن تمام امور کا احاطہ کرتی ہے جو آپ کو بچوں کے مسائل کو سمجھنے یا اُن کو حل کرنے کے سلسلے میںآپ کو کبھی بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔

2 ۔www.parentmap.com

یہ ویب سائیٹ جہاں دنیا بھر کے کام یاب والدین کے تجربے، مشاہدے اور معلومات کا نچوڑ آپ کے سامنے پیش کرتی ہے، وہیں ایسے مقابلے بھی کرواتی ہے جن میں آپ کو ایک اچھا والد یا والدہ بننے کا چیلینج دیا جاتا ہے، اگر آپ اس چیلینج کو پورا کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو یہ ویب سائیٹ آپ کو انتہائی قیمتی انعامات سے بھی نوازتی ہے۔

3 ۔www.freeprintablebehaviorcharts.com

اس ویب سائیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہر بات، رویہ اور کام کو لمبے چوڑے مضامین یا لیکچرز کے بجائے مختلف چارٹس کی شکل میں سمجھا یا جاتا تاکہ آپ کو اس ویب سائیٹ میں دیے گئے مشورے عملی طور پر اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے میں آسانی ہو۔ آپ ان چارٹس کو مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے ساتھ، ساتھ پرنٹ بھی کر سکتے ہیں۔

4 ۔https://www.fathers.com

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ ویب سائیٹ اچھا باپ بننے کے لیے آپ کو وہ تمام آزمودہ نسخے اور حل فراہم کرتی ہے جو آپ کے اور بچوں کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے معاون ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ، ساتھ یہاں آپ اچھا والدین بننے کے لیے خصوصی کورسز بھی کرسکتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت! تو کیا پھر تیار ہیں آپ کوالیفائیڈ والد بننے کے لیے؟

5 ۔www.workingmother.com

اگر آپ ورکنگ مدر ہیں اور آپ پریشان رہتی ہیں کہ کم سے کم وقت میں کس طرح اپنے بچوں کے لیے ایک مہربان ماں کا درجہ حاصل کر یں تو یہ ویب سائیٹ آپ ہی کے لیے ہے۔ یہاں آپ کے لیے وہ سب معلومات موجود ہیں جس کے ذریعے آپ اپنے کام یا ملازمت کو متاثر کیے بغیر اپنے بچوں کی درست سمت میں تربیت و راہ نمائی بالکل کسی گھریلو خاتون خانہ کی طرح کر سکتی ہیں۔

آج کے جدید دور میں فلم بھی ایک ایسا میڈیم ہے جو ہر ذہن کو بہت کم وقت میں متاثر کر کے اُس کے رویوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو معاشرے کی شکست و ریخت کا ذمہ دار بھی اسے ہی قرار دیا جاتا ہے۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ آپ کلیتاً اس میڈیم پر پابندی بھی نہیں لگا سکتے لیکن اگر آپ چاہیں تو ایک کام ضرور کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ ایسی فلمیں بھی دیکھیں جو آپ کے لیے والدین کے مسائل اجاگر کرنے بلکہ ان کے حل کے لیے بھی آپ کو کوئی راہ سجھاسکیں۔ یقین مانیے دنیا بھر میں ہر سال بے شمار فلمیں والدین کے مسائل، شعور اور تربیت کے لیے بھی بنائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں تو یہاں ہم چند فلموں کے نام دے رہے آپ انہیں دیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی دکھائیں اُمید ہے کہ پھر آپ ہماری رائے سے متفق ہوجائیں گے۔

1 ۔پیرنٹل گائیڈنس (Parental Guidance)

2012 ء میں اینڈی فک مین کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم ایک ایسی کہانی پر مشتمل ہے جس میں ہنسی مذاق میں والدین کے عزت و احترم کی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس فلم نے 119.8 ملین ڈالر کا بزنس کیا جس سے آپ اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

2 ۔ لائم لائف (Lymelife)

دو بھائیوں ڈیرک مارٹینی اور اسٹیون مارٹینی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں والدین کی بڑھتی عمر کے مسائل اور پریشانیوں کو انتہائی موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم 2008ء میں پردہ اسکرین پیش کی گئی تھی۔

3 ۔ باغبان

2003 ء میں بننے والی اس بھارتی فلم میں ایسے والدین کو بطور مرکزی کردار پیش کیا گیا ہے، جو اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کی عمر کے بعد اپنے بچوں کی طرف سے ناقدری اور توہین آمیز سلوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مگر بجائے ہمت ہارنے یا رونے دھونے کہ وہ کیسے ان نامساعد حالات سے واپس نکلتے ہیں۔ یہی اس فلم کی خاص بات ہے، جس میں والدین اور بچوں کے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔

4 ۔ مسز ڈاؤٹ فائر(Mrs. Doutfire)

والدین کی محبت اور خاندانی رویوں کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتی یہ فلم 1993ء میں پردۂ سیمیں پر پیش کی گئی ۔ اس فلم میں اولاد کی تربیت کے کئی پوشیدہ زاویے منکشف کیے گئے ہیں۔

5 ۔ پیرنٹ ہڈ(Parenthood)

126 ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کرنے والی یہ کامیڈی، ڈراما فلم ایسے والد کے گر د گھومتی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کیریئر میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے، اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے اسے کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس فلم میں ہی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔