- ٹی20 ورلڈکپ اور پاکستان کیخلاف سیریز کیلئے انگلینڈ کے اسکواڈ کا اعلان
- کراچی؛ جنریٹر مارکیٹ کی دکان میں گیس سلنڈر دھماکا، ایک شخص جاں بحق
- گندم خریداری کیس؛ حکومتی پالیسی میں مداخلت نہیں کرینگے، لاہور ہائی کورٹ
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت کم ہو گئی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ سابق کرکٹر نے محمد عامر کو اپنے اسکواڈ سے باہر کردیا
- فوڈ رائیڈر جلد ڈلیوری کے چکر میں 28 چالان کروا بیٹھا
- لاہور کے حلقہ پی پی 161 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ کالعدم قرار
- اسرائیلی کی غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری؛ بچوں سمیت 34 فلسطینی شہید
- بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل منتقلی کیس میں عدالت سے باہر تصفیے کا امکان
- لاپتہ افراد کیس؛ سندھ ہائیکورٹ نے جبری گمشدگی پر سوالات اٹھا دیے
- وزیرستان؛ مسلح ملزمان سرکاری اسکول میں داخل، آتشیں مواد سے دھماکا
- ججز خط کیس؛ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، چیف جسٹس
- عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد
- سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب ریفرنس ختم
- وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور کو بھیجا گیا الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل
- پاکستان کو کمزور طبقے کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے مالی اہداف پر عمل کرنا ہوگا، آئی ایم ایف
- 2023، آئی پی آر کی خلاف ورزیوں سے خزانے کو 800ارب کا نقصان
- تمباکو، چینی، سیمنٹ کھاد پر لاگو ٹریک سسٹم میں خامیوں کا انکشاف
- پاکستان کا چین سے مل کر سولر پینلز کی تیاری کا منصوبہ
- 2023، بینک صارفین کو ایک ارب 26 کروڑ روپے سے زائد کا ریلیف فراہم
میدان سج رہے ہیں
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دو ضلعے ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں اور ان دو اضلاع کے چند گھرانے بحیثیت حکمران طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے باوجود تاحال سیاست میں ہیں ۔ ان دو ضلعوں کے مذکورہ حکمران سیاست کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، وُہ ہیں ضیافت کے لیے مشہور ہیں اور دوسروں کی شامت لانے کی شہرت رکھتے ہیں۔
ظاہر ہے ضیافت بھی ملاقاتیوں کی ہوتی ہے اور شامت بھی ماتحتوں یا ملاقاتیوں کے حصے میں آتی ہے۔ کبھی وہ مسکراتے پائے جاتے اور کبھی غصیلے نظر آتے اور رعونت سے بھرے رہتے ہیں ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب ان سیاسی گھرانوں کا مقصد ِ ایک ہے تو طریقہ واردات مختلف کیوں ہے۔ اب ظاہر ہے افلاطون حیات ہوتے تو یہ مشکل سوال ان کے سامنے پیش کیا جاتا۔ ایک صاحب سے یہ سوال کیا گیا تو اس نے یاس یگانہ چنگیری کا یہ شعر پڑھ دیا:۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
اختیارات سے تجاوز ہمارے لوگوں کی فطرت ِ ثانیہ بن گئی ہے۔ بڑے اور با اختیار لوگوں کو چھوڑیے یہاں شاپنگ مال سے لے کر کھوکھے والے تک اور جھگی نشین سے بنگلے کے رہائشی سڑک پر چھابڑی لگانے والے سے فٹ پاتھ مکان کے سامنے گزرگاہ تک پر تجاوز ہر کوئی اپنا حق سمجھتا ہے، اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ جس کے ذمے تجاوز کو ہٹانا، گرانا ہے وہ خود قبضہ غاصبانہ میں ملوث ہے بلکہ وہ اختیارات سے تجاوز پیدائشی حق سمجھ کر بِلا خوف و خطر کرتا ہے۔
بے شمار مزار قسم کے تجاوزات موجود ہیں جن کو با اختیار ملازم سرکار خوف ِ خدا کی وجہ سے درگزر کرتے ہیں حالانکہ خدا تو خود اسے برائی سمجھتا ہو گا ۔ یہاں اختیارات سے تجاوز کرنے والے کو بہادر اور طاقتور سمجھ کر گرفت میں نہیں لیا جاتا جب کہ کمزور کو معاف نہیں کیا جاتا۔ آپ ہتھکڑیاں پہنے لوگوں کو یا کسی جیل خانے میں لوگوں کو دیکھ کر تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر کسی طاقتور یا امیر شخص کو جیل کی ہوا کھانی ہی پڑ جائے تو وہ فوراً بیمار ہو کر اسپتال منتقل ہو جاتا ہے جہاںاس کو اسی روز ائیر کنڈیشنر، فریج، ٹیلیوژن، فروٹ، موبائل فون کی سہولت اپنے گھر سے دستیا ب ہو جاتی ہے۔
مجھے ایک جیل انسپکشن کے دوران ایسے ہی VIP قیدی کے لیے جیل خانے میں کئی قسم کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارا عام مشاہدہ بتاتا ہے کہ کوئی کسی کو بد یا برا نہیں کہتا جب تک اس کی بدعنوانی یا بری شہرت عام یا مشہور نہ ہو۔ اسی طرح کوئی آپ کی کرسی نہیں چھین سکتا جب تک آپ کا انداز حکمرانی خراب نہ ہو۔ ملک پر اس وقت تک آمریت مسلط نہیں ہو سکتی جب تک سویلین حکمران ایسی غلطیاں نہ کرے کہ ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔
با اصول قابل اچھے کردار کے مالک ترقی کی طرف گامزن حکمران سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کی حکومت ملک کو ترقی کے راستے پر لیجانے کے بجائے تنزل کی راہ پر لے جا رہی ہو اور حکمران ایک طرح سے خود دعوت دے کہ میں نا اہل ہوں یا پھر اپنی کرپشن بچانے کے لیے Deal کے تحت اقتدار سے دستبردار ہونے پر رضامند ہو جائے تو الگ بات ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کئی بار ہوا ہے۔
اقتدار یا امارت ہر کسی کو پسند ہے لیکن اقتدار ِ اعلیٰ تو ایک الگ بات ہے جس میں خوشی اور مزہ بے شمار ہے لیکن حکمرانی کی سیڑھی کی بلندی پر بیٹھا شخص بھول جاتا ہے کہ کئی لوگوں نے مل کر اُسے سیڑھی کے Top Step پر پہنچایا ہی نہیں سیڑھی کو نیچے سے پکڑ کر کندھے سے سہارا دے رکھا ہے۔ لہٰذا اُسے بہت زیادہ با خبر ہی نہیں رہنا ہوتا، فرعونیت، لالچ سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ اگر حکمران خطرات کا ادراک نہ کرسکے اور ملک کو غلط سمت کی طرف لے جارہا ہو تو پھر اُسے اچانک زمین پر پٹخ بھی دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں لوگوں نے یہ تماشہ دیکھا ہے اور ہم تو دیکھ رہے ہیں۔
ایک پرانی ہندی کہاوت ہے ــ ’’راجہ بیوپاری پرجا بھکاری‘‘ یعنی جس ملک کا حکمران کاروبار بھی کرتا ہو اس کی اوّل ترجیح اپنے بیوپار کو وسعت دینا ہوتی ہے، نہ کہ رعایا کے جان و مال کا تحفظ اور خوشحالی ۔ یوں وہ اپنے اختیارات دولت کمانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے اصل فرائض سے غافل ہو کر عوام کو منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور پھر پرجا غربت و افلاس میں مبتلا ہو کر بھکاری ہو جاتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کی دولت کو دیکھ کر ان کی اولاد اور ساتھی بھی اسی نقش ِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت حکمرانی کی جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں زوروں پر ہے۔سب سیاست کے میدان میں موجود ہیں اور میدان در میدان سجنا شروع ہو چکے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔