جنوبی کوریا میں بھی اصل جیسی ’’کمپیوٹرائزڈ‘‘ نیوز کاسٹر خبریں پڑھنے لگی

ویب ڈیسک  جمعرات 19 نومبر 2020
یہ ایک حقیقی نیوز کاسٹر کی کمپیوٹرائزڈ نقل ہے جو ہر اعتبار سے اصل نیوز کاسٹر جیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

یہ ایک حقیقی نیوز کاسٹر کی کمپیوٹرائزڈ نقل ہے جو ہر اعتبار سے اصل نیوز کاسٹر جیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

سیئول: جنوبی کوریا کے ایک مقامی ٹی وی چینل نے گزشتہ دنوں ایک ایسی نیوز کاسٹر متعارف کروائی ہے جو اپنے چہرے، آواز، تاثرات، حرکات و سکنات اور لب و لہجے تک سے بالکل اصلی اور جیتی جاگتی نیوز کاسٹر لگتی ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں بلکہ اسے کمپیوٹر کی مدد سے بنایا گیا ہے۔

اس کمپیوٹرائزڈ نیوز کاسٹر کو جنوبی کوریا کے ٹی وی چینل ’’ایم بی این‘‘ نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی کمپنی ’’منی برین‘‘ کے تعاون سے تیار کروایا ہے۔

یہ ورچوئل نیوز کاسٹر ایک حقیقی ٹی وی میزبان ’’کِم جُو ہا‘‘ کی کمپیوٹرائزڈ نقل ہے جو نہ صرف دیکھنے میں اس جیسی ہے بلکہ ہونٹ ہلانے سے لے کر چھوٹی بڑی تمام حرکات (مثلاً بے دھیانی میں خاص انداز سے قلم ہلانے) تک، ہر اعتبار سے یہ اصل نیوز کاسٹر ہی کی ہوبہو نقل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا نام بھی ’’اے آئی کِم‘‘ رکھا گیا ہے۔

اے آئی کِم کی تیاری میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے ایک جدید ترین شعبے ’’ڈِیپ فیک‘‘ (Deep Fake) سے استفادہ کیا گیا ہے، جس کے تحت بالکل اصل جیسی دکھائی دینے والی جعلی تصویروں کے علاوہ منظر میں ایک انسان کا چہرہ دوسرے انسان کے چہرے پر اس طرح چپکایا جاسکتا ہے کہ وہ بالکل اصل دکھائی دیتا ہے۔

منی برین کے ماہرین نے ’’کِم جُو ہا‘‘ کی دس گھنٹے طویل ریکارڈنگ استعمال کرتے ہوئے، ڈیپ فیک کی مدد سے ’’اے آئی کِم‘‘ تیار کی، جس نے پہلی بار 6 نومبر کو ٹی وی پر خبریں پڑھیں۔ جب ناظرین کو معلوم ہوا کہ ان کے سامنے اصل خاتون کی جگہ ’’اے آئی کیریکٹر‘‘ نے خبریں پڑھی ہیں تو ان کا ردِ عمل بے یقینی اور تعریف پر مبنی تھا۔

بعد ازاں اے آئی کِم نے اصل کِم جُو ہا سے گفتگو میں اپنے متعلق تفصیل سے بتایا کہ اسے کیسے تیار کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ’’اے آئی کِم‘‘ دنیا کی پہلی ورچوئل نیوز کاسٹر ہر گز نہیں۔ گزشتہ برس چین میں ڈِیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلی ورچوئل نیوز کاسٹر متعارف کروائی گئی تھی جسے دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔