بلوچستان، لفظوں کی سولی پر…

عینی نیازی  منگل 28 جنوری 2014

چند سال پیشترشہر کی گہما گہمی سے دور اپنی فیملی کے ہمراہ بلوچستان کے ایک فارم ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا مگر افسوس کہ ہمارا وہ سفر انتہائی دکھ اور تکلیف بھرا ثابت ہوا ۔ فارم ہائوس کی حد تک تو زندگی بڑی سرسبزو پربہار دکھائی دیتی تھی لیکن اس کے باہر چٹختی سنگلاخ سرزمین بلوچستان اپنی بھوک،غربت، بے چارگی اور مجبوری کی داستان سناتی ایک ایسی کہانی تھی جو بیان سے باہر ہے بڑوں کی تو چھوڑیے ان کی آنے والی نسلوں کی بات کریں توخوشیوں سے آزاد  لڑکپن کی عمرکے معصوم بچے محسوس ہوتا تھا کہ اپنی زندگی کے تمام ماہ وسال گزارچکے ان بچوں کی صحت، حلیے،ناخن، چہرے، بال ان کی زندگی کی کئی دھائیاں طے کر چکے تھے اگر یہ کہا جائے کہ یہ بچے بچپن میں بوڑھے ہوچکے تھے تو بالکل غلط نہ ہوگا انھیں زندگی کی کوئی بنیادی سہولتیں حاصل نہ تھیں وہ زندہ تو تھے لیکن زندوں سے بدتر ! وہ یقینا آگے زندگی کا سفر حیات طے کریں گے لیکن ایک بدتر زندگی ! لیکن وہ کیوں ایسی بدتر زندگی گزارئیں ؟ان کا قصور کیا ہے؟ کیوں ڈر ڈر کر سہم سہم کر جئیں ؟ روٹی ،کپڑے، پانی ،صحت اور تعلیم سے محروم رہیں ان کے حصے کی تمام خوشیاں کیوں دوسرے لوٹ کر لے جائیں ہمارے تمام سیاستدان کب تک وعدے تسلی اور دلاسوں سے بلوچ عوام کو بہلاتے رہیں گے ؟کب تک بلوچستان کو خوبصورت لفظوں کی سولی پر لٹکائے رکھیںگے ؟

قدرت کے عطا کردہ معدنی خزانوں سے لبریزصوبہ بلوچستان آج سماجی معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ بلوچستان کی داستان الم بہت پرانی ہے جس میں ٹوٹے ہوئے وعدوں کی کہانی، بلند وبانگ دعوئوں کی کہانی شامل ہے ، جس کی سنگلاخ چٹانوں کے نیچے چھپے خزانوں پرتو سب نے اپنا حق سمجھا لیکن! فرض پر کسی کا دھیان نہیں گیا ۔بلوچستان جو صوبے اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تقریبا دس فی صد ہے اس کی سر زمین کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ یہاں تیل،گیس،کوئلہ، سونے چاندی ، قیمتی ماربل اور دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن !کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہو ئی نعمتیں بھی زحمت بن جاتی ہیں جس طرح ماضی میں اور آج بھی تیل کی دولت جن اسلا می ممالک کو حاصل ہے وہ مغربی ممالک کے سازشوں کے جال میں جکڑے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں بالکل یہی حالات برسوں سے صوبہ بلوچستان کو در پیش ہے۔

قیام پاکستان کے بعد اگر درست زاویے سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو شائد اس صوبے کا ہر باسی خوشحال آسودہ ہوتا اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے آزاد ہو تا مگر اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ بھوک، غربت ، تعلیم اوربیماری کے علاج سے محروم یہ صوبہ ہی نظر آتا ہے زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر پورا ملک ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں نے بھی اپنی حریص نظریں جمائی ہوئی ہیں ۔ ہما رے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان جو ہمارا اندرونی معاملہ تھا اب بیرونی دنیا اس پر کھلے عام مداخلت پر آمادہ ہے۔ بلوچی عوام جو حکومتی رویے سے بہت دل برداشتہ اور شاکی ہو چکے ہیں ان کو ورغلانے اور علیحدہ کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں اس کے کئی ثبوت بھی ملے ہیں۔ ہمارے دشمن ممالک جو پاکستان کو ایک مضبوط ملک کی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے انھیں ہماری کمزوری بلوچ عوام کی صورت میں ہاتھ آگئی ہے یہ صورت حال افسوس ناک تو ہے ہی لیکن اس میں قصور بھی ہماری غلط پالیسیوں کا ہے۔

مشرف دور حکومت  سے لا پتہ بلوچ نوجوانوں کو جس انداز سے اغوا اور قتل کیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا اس نے نفرت کی آگ پر جلتی کا کام کیا۔ پیپلز پارٹی دور حکومت میں بھی امن وامان اور خوشحالی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ کوئٹہ شہر جب بھی ٹار گٹ کلنگ اور دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا آج بھی ہے یوں لگتا ہے تاریخ محض دہشت گردی کے واقعات کو دھرا رہی ہے۔ آپ صرف پچھلے سال کے اخبارات دیکھ لیں اسی انداز سے دہشت گردی کے واقعات پورے ملک میں پیش آ رہے ہیں جو ایک سال قبل پیش آئے تھے وہی دہشت گردی زائرین کی بس پر حملہ ان کے لواحقین کا خون جما دینے والی سخت سردی میں لاشوں کے ساتھ احتجاج و دھرنا حکومت کا دو دن بعد قاتلوں کی کیفر کردار تک پہنچانے کی بات سب کچھ تو ایسا ہی ہے کیا بدلا سوائے کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگوں کے۔وزیر داخلہ کا دہشت گردوںکے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کے بعد کوئٹہ کا دھرنا ختم ہو گیا مگر عوام دل برداشتہ ہیں ۔

نئی حکومت قائم ہوئے ایک سال ہونے کو ہے بلوچستان کے عوام ایک بار پھر وفاق کی جانب پرامید نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کی اکثریتی حمایت سے آنے والے وزیراعظم نواز شریف نے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد فرمایا تھا کہ’’ بلوچوں کے زخموںپر مرہم رکھنے کا وقت آگیا ہے بلوچستان میں ایک پر امن اورکرپشن سے پاک حکومت ہو گی۔‘‘بلوچستان میں حکومت سازی  کے حوالے سے بلوچ رہنمائوں سے ایک مشاورتی اجلاس کے بعد انھوں نے عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ نامزد کیا۔وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس عزم کو بھی دھرایا تھاکہ اب تک جو کھیل بلوچستان میں کھیلا گیا جس طرح بلوچوں کی ان کے اپنے ہی علاقوں میںدل آزاری کی گئی مستقبل میںایسا کبھی نہیں ہو گا۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا وعدہ کیا گیا ،خدا کرے جوکچھ کہا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہو سکے کیونکہ اگر صرف نئی منتخب قیادت اپنی نگرانی میں اپنے بل بوتے پر دیانت داری سے ان ذخائر کا استعمال کر ے تو بلوچ عوام کے مسائل ان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ان کے صوبے میں بھی زندگی کی بنیادی سہولتیں پانی ، خوراک ، صحت ،تعلیم اور روزگار جیسی اہم ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

آخر ان کے وسائل پر ان کا پورا حق ہے ا س وقت صوبہ بلوچستان میں جو لا قانونیت ، شدت پسند ی ،معاشی اور سیاسی بحران نظر آتا ہے اس کا وا حد حل یہی ہے اسے طاقت کے بل پر ختم کرنے کے بجائے ان کے مسائل پر ہمدردانہ توجہ دی جائے اب عملی اقدامات کا وقت ہے اپنی غلطیوں کی اصلا ح کا وقت! ایسے عمل کا وقت کہ جس سے بلوچ عوام کے زخموں کی داد رسی ہوسکے آخر کب تک ہم بلوچ عوام کو دلفریب وعدوں اور خوبصورت لفظوں کی سولی پر لٹکاتیں رہیں گے کہ بات اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔