- وزیراعلیٰ پنجاب کی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کو یقینی بنانے کی ہدایت
- کراچی میں کال سینٹر کے فائرنگ سے میٹرک کا طالب علم جاں بحق
- پی آئی اے کی نجکاری میں اہم پیش رفت، 8 کاروباری گروپس کا اظہار دلچسپی
- ممبئی کے کالج میں حجاب اور برقع پر پابندی عائد
- بانی پی ٹی آئی کیخلاف ٹیریان کیس ایک سال بعد سماعت کیلیے مقرر
- حکومت سندھ کا صوبے بھر میں مزید بسیں لانے کا فیصلہ
- ٓآرمی چیف کی ہاکی ٹیم سے ملاقات، تعاون کی یقین دہانی
- کینیڈین شہری نے کم وقت میں اسٹار وارز کی اسپیس شپ بنا ڈالی
- پاکستان نے سینٹرل ایشین والی بال چیمپئن شپ جیت لی
- مہنگائی کی شرح میں کمی کے باوجود 20 اشیا کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں
- فرانس میں نفرت آمیز سلوک؛ مسلمان دوسرے ممالک منتقل ہونے پر مجبور
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ
- اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح 75 ہزار 342 پوائنٹس پربند
- کاربن کشید کر کے توانائی ذخیرہ کرنے والی بیٹریاں ایجاد
- موسمیاتی تغیر سے انسانی دماغ پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں
- رواں مالی سال کے 10 ماہ میں جاری کھاتہ 20 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا
- آرمی چیف سے کہوں گا فوج اور لوگوں کو آمنے سامنے نہیں کیا جاتا، عمران خان
- 4 دن قبل دفنائے گئے آدمی کو زندہ باہر نکال لیا گیا؛ ملزم گرفتار
- وزیراعلیٰ کے پی کی وفاق کو پھر دھمکی، واجبات اور لوڈشیڈنگ مسائل حل کرنے کیلیے 15 دن کا الٹی میٹم
- پنجاب میں رواں ماہ ہیٹ ویو، بارشوں اور طوفان کا الرٹ جاری
حق آزادی
کسی انسان کا، کسی انسان پر یا سماج پر یا ملک و قوم پر کتنا حق ہے، اس کے لیے کوئی قانون نہ بھی ہو تب بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس شے کی جتنی افادیت ہوگی اتنی ہی قیمت ہوگی، اتنا ہی حق ہوگا۔ حقوق کا تعین، حقوق کا احترام اور حقوق کی ادائیگی کو توازن کہتے ہیں۔ حقوق کی حفاظت میزان ہے۔ حقوق کا لحاظ کرنے والا معاشرہ ایک متوازن اور فلاحی معاشرہ کہلاتا ہے۔
زندگی حقوق کے دائرے سے باہر نکل جائے تو سرکش و باغی ہو جاتی ہے۔ اس کی تمام قدریں پامال ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس کا تمام جمال ختم ہو جاتا ہے ، اگر زندگی کو حقوق سے محروم کردیا جائے تو وہ ایک بے بس اور محروم شے بن کے رہ جاتی ہے۔ کامیاب معاشرہ وہی کہلاتا ہے جہاں انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر فرائض ادا ہوتے رہیں۔
بعینہ حقوق کی ادائیگی کا سلسلہ بھی جاری رہے، جس دور میں لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے شبانہ روز جدوجہد کرنی پڑے ، سختیاں جھیلنی پڑیں اور پابندیاں برداشت کرنی پڑیں اسے مہذب ، باوقار اور حقوق و فرائض کا نقیب دور نہیں کہہ سکتے بلکہ جبر و استبداد کا دورکہا جاتا ہے ، اگر حقوق کے حصول کے تمام راستے بند کر دیے جائیں اور صرف دعا ہی واحد سہارا باقی رہ جائے تو اسے ظلم و ستم کا زمانہ کہتے ہیں۔
اسی طرح وہ زمانہ کہ جس میں کچھ لوگوں کو تو حقوق سے محروم رکھا جائے اور کچھ لوگوں کو ان کے استحقاق سے زیادہ دے دیا جائے، نوازشات کی بارش ان منظور نظر لوگوں پر برسا دی جائے، تو اسے افراتفری کا زمانہ کہتے ہیں۔ کیوں ایسی صورت میں محروم طبقہ اپنے جائز آئینی و قانونی اور معاشرتی و سماجی حقوق کے لیے مجبور ہوکر احتجاج کرنے لگتا ہے۔ جہاں ہر شے، ہر چیز اور ہر جنس بلا تخصیص ایک ہی دام میں فروخت ہونے لگے اسے اندھیر نگری کہا جائے گا اور ایسے راج کو چوپٹ راج کہا جائے گا۔
حقوق اور اہمیت کا لحاظ ہی معاشروں کو ترقی کی منازل عطا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق کے احترام سے ہی سماج اور معاشرے میں توازن اور حسن ترتیب نظر آتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا احترام کیے بغیر اگر ان پر اختیار جتایا جائے تو ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد جتانے کے لیے اختیار ہی نہ رہے۔
حقوق کی ادائیگی آپس میں ربط و محبت پیدا کرتی ہے، تعلق کو مضبوط اور دیرپا کرتی ہے جب کہ حقوق کی پامالی نفرت ، بغض، عداوت اور بغاوت پیدا کرتی ہے ، اگر طاقت ور صاحب اختیار حقوق ادا کرتا رہے تو وہ طاقت ور ہی رہے گا۔ حقوق ادا نہ کرنے والا ظالم کہلائے گا اور ظالم سے ایک نہ ایک دن طاقت چھن جائے گی۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔
تین قسم کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں اول سماج کے حقوق ، دوم اپنی ذات کے حقوق ، سوم اپنے خالق و مالک کے حقوق۔ ہم پہلے سماج کے حقوق کی بات کرتے ہیں جن میں قوم کے حقوق، ملک کے حقوق، حکومت کے حقوق، پاس رہنے والوں کے حقوق اور ان لوگوں کے حقوق جہاں انسان با اختیار ہوتا ہے ہم پر اس ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔
ہم وطن پرست رہیں، ملک کے مفاد پرکوئی سمجھوتہ نہ کریں، اسے ذاتی مفاد سے مقدم رکھیں، ملک کی وحدت و سلامتی کا خیال رکھیں ، ہم سب انفرادی و اجتماعی ہر دو حوالوں سے ملک کے محافظ ہیں، ہم ہی ملک کا سرمایہ ہیں اور اس کی وحدت کی علامت ہیں۔ اس وطن کے حصول کے لیے بڑا خون بہایا اور عزتیں گنوائی گئیں۔ اس قوم پر بڑے مشکل دور آئے اور ایک بڑا دل خراش سانحہ ’’سقوط بنگال‘‘ وہ گہرا زخم دے گیا کہ آج تک اس سے لہو رس رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے، صاحبان اختیار کے پاس کہ وہ ہر فرد اور ادارے کے حقوق کا خیال رکھیں ، ان کے آئینی و قانونی حقوق چھیننے سے گریز کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جبر و ستم کرنے کی ان کی اپنی طاقت ہی چھن جائے۔
اپنی رائے کا اظہار ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اسی طرح خبرکی اشاعت میڈیا کا بنیادی حق ہے۔ اپنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد میڈیا نے آج کے جدید دورکے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرکے ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل کرلیا ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی صاحبان اقتدار کو میڈیا کی آزادی کا یہ درجہ پسند نہیں آ رہا ہے اور وہ طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے میڈیا کو اس کے حقوق دینے پر آمادہ نہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ایسی غیر مرئی پابندیاں عائد ہیں کہ جو بیان سے باہر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کے بعد ایوان اقتدار میں آمد میڈیا ہی کی مرہون منت ہے جس کا وہ برملا اعتراف کرتے ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کا ایسا قانون نافذ کرنے پر بضد ہیں کہ جسے ملک بھر کی میڈیا تنظیمیں قبول کرنے پر تیار نہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر ملک بھر کی میڈیا تنظیموں کے نمایندوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا اور پی ایم ڈی اے کی عدم منظوری کے نعرے لگائے۔ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں میڈیا کی آزادی کے حق کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی اپوزیشن جماعتوں نے صدر مملکت کے خطاب کے دوران اسپیکر ڈائس کے سامنے بھرپور احتجاج کیا، حکومت کے خلاف اور میڈیا کے حق میں نعرے لگائے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کی میڈیا گیلری کو تالا لگا کر بند کردیا گیا اور صحافی صدر مملکت کے خطاب کی رپورٹنگ نہ کرسکے۔
یہ میڈیا کے حق آزادی پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ صدر مملکت بھی دوران خطاب میڈیا گیلری خالی دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے منشور کے مطابق میڈیا کی آزادی کے حقوق کو سلب کرنے کے بجائے اس کے جائز قانونی و آئینی حقوق دینے اور اس کے تحفظ کے اقدامات کریں۔
صدر مملکت عارف علوی نے اپنے پیش رو صدور کی طرح دوران خطاب اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی کو خوب سراہا اور دنیا کو مشورہ دیا کہ وہ ان کے لیڈر عمران خان کی مریدی اور شاگردی اختیار کرے کہ افغانستان پر ان کا موقف درست ثابت ہوا۔ پارلیمانی نظام حکومت میں صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کا صدر اپنی سیاسی وابستگی کے باعث صدر بن کر بھی وفاق کے بجائے اپنی جماعت ہی کی علامت بن کر رہتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔