سب ڈرامہ ہے

وجاہت علی عباسی  پير 3 فروری 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں پچھلے دس پندرہ سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر چیزیں بد سے بدتر ہوئی ہیں، معیشت، روزگار کی عدم فراہمی، مہنگائی، لا اینڈ آرڈر ہر چیز کے ذکر کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دس پندرہ سال پہلے حالات کتنے بہتر تھے، پہلے بھی معاملات پرفیکٹ نہیں تھے لیکن آج ہم کئی چیزوں میں امید تک کھو چکے ہیں لیکن پاکستان کی ایک انڈسٹری ایسی ہے جس نے پچھلے دس سال میں ترقی کی ہے اور وہ ہے پاکستانی ٹی وی ڈرامے۔

ہماری والدہ نیلوفر عباسی بتاتی ہیں کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے آغاز میں ریکارڈنگ کی سہولت نہیں تھی ڈرامے ٹی وی پر لائیو آتے تھے یعنی آرٹسٹ اسٹیج ڈرامے کی طرح لائیو پرفارم کرتے اور وہ براہ راست نشر ہوتے، ٹیکنالوجی بہتر ہوئی اور پھر ریکارڈنگ کی سہولت آگئی شہزوری، خدا کی بستی، وارث جیسے ڈرامہ سیریل آتے آتے اب ٹی وی پاکستانی عوام کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، ٹیپ مہنگے ہونے کی وجہ سے پی ٹی وی کے بیشتر ڈرامے نشر ہونے کے بعد erase کردیے جاتے تھے تاکہ ٹیپ پھر استعمال کیے جاسکیں جہاں دو سو سے چار سو روپے کے ٹیپ کے لیے پی ٹی وی تاریخ مٹا دیتا تھا وہیں ہر ہفتے نئی تاریخ بھی رقم کرتا۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی اور پھر اسی (80) تک یہ سلسلہ جاری رہا، ہفتے میں دو چار گنے چنے ڈرامے ٹی وی پر آتے اور سڑکیں سنسان ہوجاتیں، تنہائیاں، انکل عرفی، کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، شمع وغیرہ وہ ڈرامہ سیریلز ہیں جو آج سے کئی دہائیوں قبل بھی اتنے ہی مقبول تھے۔

نوے (90) کی دہائی میں پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کا آغاز ہوا، این ٹی ایم کے آجانے سے اب لوگوں کے پاس دو چینلز کی چوائس تھی، پروڈکشن کا معیار بڑھا، حکومت کے دیے بجٹ سے پی ٹی وی میں بننے والے ڈراموں کے علاوہ اب پرائیویٹ پارٹیاں بھی ڈراموں میں پیسہ لگانے لگیں، چاند گرہن، ننگے پاؤں، دشت، کشکول، ستارہ اور مہرالنسا وغیرہ ان کچھ ڈرامہ سیریلز میں ہیں جو کسی پرائیویٹ چینل سے نشر ہوکر ہٹ ہوئے۔

’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ ایسا اب سابق صدر پرویز مشرف کو لگتا ہوگا، گدی سنبھالنے کے بعد انھوں نے میڈیا کو چھوٹ دے دی اب ٹی وی چینلزکھولنا آسان اور سنسر شپ بہت ہلکی کردی گئی، ہندوستان سے مشرف ضرور ناراض ہوکر لوٹ آئے تھے لیکن پاکستان ٹی وی پر ہندوستانی چیزیں دکھا کر اپنے گھروں میں ان کا کلچر پھیلانے کی پوری چھوٹ دے دی۔

2002 سے تقریباً 2006 تک پاکستانی ڈراموں کو انڈین بخار چڑھا رہا بس خواتین سیندور نہیں لگاتیں اور منگل سوتر نہیں پہنتیں ورنہ سب اسٹار پلس جیسا ہی نظر آتا پاکستانی پرائیویٹ چینلز پر لیکن پاکستانی ٹی وی ڈرامے بنانے والوں نے بہت جلد سمجھ لیا کہ ہماری اپنی پہچان ہے اور آہستہ آہستہ پاکستانی ڈراموں سے ہندوستانی کلچر رخصت ہونے لگا۔

ملکی حالات بگڑتے گئے لیکن ٹی وی ڈراموں میں بہتری آتی گئی۔ پاکستانی ڈراموں کی کامیابی کا زبردست دور واپس آگیا۔ ہمسفر، زندگی گلزار ہے، کنکر وغیرہ کے نشر ہونے پر لوگوں کو پھر وہ وقت یاد آگیا جب ڈرامے نشر ہونے کے وقت سڑکیں سونی ہوجاتی تھیں۔

لوگ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کی سچائی پر شک کریں یا پھر مارننگ شوز پر اعتراض لیکن ڈراموں کی پسندیدگی اور معیار پر سب اتفاق کرتے ہیں، آج پاکستانی ڈرامے دنیا بھر میں مقبول ہیں صرف پاکستانی نہیں ہندوستانی، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ماریشیس اور سب ٹائیٹلز کے ساتھ درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں یہ ڈرامے باقاعدگی سے دیکھے جا رہے ہیں۔

پچھلے ہفتے ہندوستانی چینل این ڈی ٹی وی نے دلی میں ایک مذاکراہ منعقد کیا جس میں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، وحیدہ رحمان اور اے ۔آر۔ رحمن چینل پر یہ بات چیت کر رہے تھے کہ ہندوستانی فلموں کی دنیا بھر میں مقبولیت کے ذریعے اپنے ملک کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اس کی معیشت کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں۔ وہ مذاکرہ جسے دیکھ کر ہمیں پاکستانی ڈراموں کی دنیا بھر میں مقبولیت کا خیال آیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو سوسائٹی مشکل میں ہوتی ہے وہ ان وسائل کو استعمال کرتی ہے جو ان کے پاس موجود ہوتے ہیں، ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم پاکستانی ٹی وی انڈسٹری کے اچھے وقت کے ذریعے ملک کوکیسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن پاکستان میں ہم ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری کے ساتھ بھی وہی کر رہے ہیں جو دوسری چیزوں کے ساتھ کرتے ہیں یعنی ان کی خامیاں نکالنا۔ ان کو دبانا۔

پچھلے چار سال میں ٹیکس بھرنے کے زمانے میں ایسی خبریں آتی ہیں جن سے لگتا ہے کہ پاکستانی ٹی وی آرٹسٹ بہت زیادہ پیسہ کماتے ہیں لیکن ٹیکس کی چوری کرتے ہیں۔

فیڈرل بیورو آف ریونیو نے 2011 سے اب تک ہر سال پاکستانی ٹی وی آرٹسٹوں پر انکوائری کی ہے جس میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ مشہور ایکٹرز ٹیکس کی چوری کرتے ہیں، فیصل قریشی، ہمایوں سعید، فواد خان، میکائیل ذوالفقار، سجل علی، صبا قمر وہ آرٹسٹ ہیں جو سب سے زیادہ کماتے ہیں اور رپورٹ میں ان کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے، رپورٹ کے مطابق یہ آرٹسٹ ڈراموں سے سال کے چالیس سے پچاس لاکھ کما رہے ہیں لیکن اپنی سالانہ آمدنی بیس سے پچیس لاکھ دکھاتے ہیں اور اس طرح ٹیکس میں چوری کرتے ہیں، اگر غور کیا جائے تو ٹی وی آرٹسٹوں میں سے 80 فیصد ایسے ہیں جو ٹیکس بھر رہے ہیں ہوسکتا ہے ٹیکس میں کچھ بھول چوک ہوگئی ہو پھر بھی پاکستان کی یہ وہ واحد پرائیویٹ انڈسٹری ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں ٹیکس بھرا جاتا ہے، اگر ایف بی آر کو تحقیقات کرنی ہی ہے تو ان ممبران پارلیمنٹ کی کریں جن میں سے آدھے سرے سے ٹیکس بھرتے ہی نہیں اور جو بھر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر ہزار روپے سے کم ٹیکس دیتے ہیں۔

ٹی وی پر نظر آنے والے آرٹسٹوں کو اچھے کپڑے، بہترگاڑیاں اور گلیمرس انداز زندگی گزارتے دیکھ کر ان کی آمدنی کا حساب کرنے کے بجائے ہمارے سسٹم کو چاہیے کہ انھیں سپورٹ کرے تاکہ ہماری معیشت اور ملک کو فائدہ ہو۔

شاہ رخ خان، سلمان خان جیسے ایکٹرز بھی اپنی پے منٹ کی آدھی رقم فارن بینکوں میں ڈپازٹ کرتے ہیں تاکہ انھیں ہندوستان میں اس رقم پر ٹیکس نہ بھرنا پڑے لیکن ہندوستان ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ وہ ان سے نہیں پوچھتا کہ پچاس کروڑ پر ٹیکس کیوں نہیں بھرا؟ وہ انھیں اسٹیج پر بٹھاکر پوچھتا ہے کہ بتاؤ ملک تم سے پانچ سوکروڑ کیسے کماسکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔