پس پردہ

وجاہت علی عباسی  پير 10 فروری 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

دنیا بھر میں آج لوگ ملالہ یوسف زئی کا نام جانتے ہیں، بیسٹ سیلرکتاب، نوبل پرائز، صدر کے ساتھ ڈنر۔ جہاں دیکھو ملالہ کا چرچا ہے لیکن ان سب کے پیچھے ایک ایسی لڑکی کی محنت ہے جس کا نام زیادہ تر پاکستانی نہیں جانتے تھے۔مگر آج وہ نام زبان زد خاص و عام ہے۔

ملالہ سوات کی وادی سے انٹرنیٹ پر بلاگ لکھا کرتی تھی، پاکستان میں پچیس ہزار سے زیادہ بلاگرز موجود ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دنیا کے ٹاپ ہنڈریڈ میں نہیں آتا، کئی بلاگرز پاکستان میں ملالہ کی طرح حقوق نسواں اور تعلیم کی اہمیت پر لکھتے ہیں اور جو ملالہ کے ساتھ ہوا وہ کسی اورکے ساتھ ہوتا تو خبر تو بنتی لیکن پھرکچھ ہفتوں میں وہ خبر پرانی ہوجاتی لوگ اسے بھول جاتے لیکن ایسا کیا ہوا کہ ملالہ آج تک خبروں میں ویسے ہی بنی ہوئی ہیں؟ اس کا جواب ہے شازیہ شاہد۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ٹین ایجر شازیہ شاہد ویمنز رائٹس کے لیے آواز اٹھانے پر یقین رکھتی تھیں، اسٹینفورڈ میں پڑھ رہی تھیں شازیہ جب کچھ سال پہلے گرمیوں کی چھٹیوں میں پاکستان آئیں تو انھوں نے ایک سمر کیمپ کا اہتمام کیا جس میں تیس (30)ایسی بچیوں کو بلایا جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں اور وہاں اسکول کھلوانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان تیس بچیوں میں ایک ملالہ بھی تھیں۔

شازیہ کی ملالہ سے دوستی ہوگئی اور فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے مستقل رابطہ رہا، 2011 میں شازیہ تعلیم مکمل کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں دبئی میں کام کرنے لگیں وہ کسی اسائنمنٹ کے سلسلے میں قاہرہ گئی ہوئی تھیں۔ جب انھیں پتہ چلا کہ ملالہ پر حملہ ہوا ہے کچھ ہی دن میں عید کی ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں جس میں شازیہ ملالہ کے پاس انگلینڈ چلی گئیں۔ ملالہ کو دیکھ کر شازیہ کو لگا کہ شاید ملالہ کے پاس زیادہ وقت نہیں۔

شازیہ اس وقت وہاں موجود تھیں جب برطانیہ کے وزیر اعظم اور یو این کے گولڈن براؤن ملالہ سے ملنے آئے، جب ملالہ کے والد سے انھوں نے سوال کیا کہ آپ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ شازیہ کو ملالہ کے ساتھ رہنے دیں جس کے بعد گولڈن براؤن نے شازیہ کے آفس فون کیا اور انھیں ملالہ کے ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی، یہ وہ فون کال تھی جس کی وجہ سے چیزیں بدلنی شروع ہوگئیں۔

میکینی نامی اس ملٹی نیشنل کمپنی کے صدر نے خود شازیہ سے آکر ملاقات کی اور کہا کہ بتاؤ ہم کیا کرسکتے ہیں جس کے بعد اور بھی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مدد کی پیش کش کی، شازیہ کو تین مہینے کی چھٹی مل گئی تھی اور ان کا لڑکپن کا خواب یعنی حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنا۔ اب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔

شازیہ سے جب لوگوں نے فون اور ای میل کے ذریعے رابطہ کیا تو انھوں نے ان مواقعوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا، ہر شخص سے انھوں نے پوچھا کہ اس مشن میں وہ ان کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں؟ انھوں نے باقاعدہ پلان کیا جس میں وہ ملالہ کو ایک سانحے کی طرح نہیں گزر جانے دیں گی بلکہ انھیں وہ ایک مثالی پلیٹ فارم بنائیں گی۔

ملالہ بہتر ہونے لگیں۔ ان میں اب بھی وہی عزم تھا جو انھوں نے ملالہ میں پاکستان میں دیکھا تھا اور جو بنیاد بنا ملالہ فنڈ کا، ابھی آرگنائزیشن رجسٹر بھی نہیں ہوئی تھی لیکن شازیہ نے ملالہ فنڈ آرگنائزیشن کے ساتھ کام شروع کردیا، شازیہ نے دنیا کے ہر بڑے ادارے سے رابطہ کیا وہ چاہتی تھیں ملالہ دنیا بھر کی کمزور خواتین کی آواز بنیں، شازیہ کئی بڑی کمپنیوں جیسے گوگل اور وائٹل وائس کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ملالہ فنڈ کا ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ ملالہ کو سپورٹ دیں گی تاکہ ان کا نام اور کام دنیا بھر میں مزید پھیلے، شازیہ کا اس بات پر زور تھا کہ ان کے آس پاس اسمارٹ لوگ موجود ہوں جو ان کو اور ان کے کام کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں اور اس چیز میں شازیہ کامیاب ہو رہی تھیں تین مہینے بعد ملالہ کو انگلینڈ کے اسکول میں داخلہ مل گیا اور شازیہ واپس اپنی جاب پر چلی گئیں اس عہد کے ساتھ کہ انھیں ملالہ فنڈ کو آگے بڑھانا ہے صرف اپنے یا ملالہ کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کی ان لاکھوں بچیوں کے لیے جو اپنے حقوق اور تعلیم سے محروم ہیں۔

آج شازیہ نیویارک سے ملالہ فنڈ کے لیے کام کر رہی ہیں، اس وقت بڑے ادارے جیسے ورلڈ بینک سے لے کر ایکٹر انجلینا جولی اور بریڈ پٹ تک ملالہ فنڈ میں باقاعدگی سے پیسے دے رہے ہیں، ملالہ کا مختلف جگہوں پر جانا وہاں ان کا کلیدی تقرر ہونا، مستقل خبروں میں رہنا، ایوارڈز ملنا ساتھ ہی بائیوگرافی اور جلد ان کی زندگی پر بننے والی فلم کا سہرا شازیہ کے سرجاتا ہے، شازیہ نے ملالہ کو گزری ہوئی خبر کے بجائے آنے والے کل کا سورج بنا دیا ہے جو دنیا بھر میں روشنی پھیلائے گا۔

امریکا کے بڑے بڑے میگزین شازیہ کے بارے میں مضمون چھاپ رہے ہیں، ’’فاربس‘‘ نے شازیہ پر پورا آرٹیکل لکھا اور ٹائمز میگزین نے انھیں 2013 میں ’’30 انڈر 30‘‘ سب سے زیادہ بااثر شخصیت کا خطاب بھی دیا، درجنوں امریکن میگزین انھیں وہ نوجوان مانتے ہیں جس نے 2013 میں سوسائٹی کو بہتر کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے۔

پاکستان میں کئی لوگ ملالہ کو دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ ملالہ کا سانحہ مغرب کی بنائی من گھڑت کہانی ہے اصل میں کوئی حملہ ہوا ہی نہیں تھا اور اس کے بعد علاج کے لیے انگلینڈ لے جانا سب محض ڈرامہ تھا، حملے کی کہانی انھیں صرف دنیا بھر میں متعارف کروانے کے لیے بنائی گئی تھی جب کہ سچ یہ ہے کہ ملالہ کو اگر شازیہ کا ساتھ اور ملالہ فنڈ جیسا پلیٹ فارم نہ ملتا تو ان کے لیے یہ سب کرنا ممکن نہیں تھا۔

شازیہ شاہد نے ٹائمز میگزین کے مطابق ایسا کام کیا ہے جو کئی آرگنائزیشن مل کر نہیں کر پاتیں آج امریکا انگلینڈ میں شازیہ شاہد کی ہر کوئی بات کر رہا ہے ان کی اچھی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

شازیہ شاہد کا ذکر پاکستان میں کوئی نہیں کرتا نہ ان پر کوئی ٹی وی پروگرام نہ کوئی کالم نہ خبر نہ ہی عوام ان سے واقف نہ ہی میڈیا نے ان کی طرف کوئی توجہ کی جب کہ انھوں نے پاکستان کا نام بہت روشن کیا ہے ہمیں چاہیے کہ انھیں سراہیں اور آج کی نوجوان نسل کے سامنے انھیں ماڈل بناکر پیش کریں۔ ہمیں ایسے پاکستانیوں پر ناز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔