مشتری ہوشیار باش

نصرت جاوید  بدھ 12 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں مذاکرات اور ان کے لیے بنائی کمیٹیوں کے معاملات میں اتنا الجھا رہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی ایماء پر برپا سندھ فیسٹیول پر توجہ ہی نہ دے سکا۔ ہمارے ملک میں اس وقت خوف اور مایوسی کی جو لہر پھیلی ہوئی ہے اس کے موثر تدارک کے ذرایع دریافت نہ ہو جانے تک کوئی شخص یا ادارہ فن و ثقافت کے نام پر جو بھی کرے اس کا خیر مقدم کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں۔ بلاول بھٹو زرداری مگر پاکستان کی ایک قدیم اور بڑی جماعت کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں۔ وہ کوئی بھی قدم اٹھائیں تو میرے جیسے غیر دانشور صحافی اس کے پیچھے چھپے کسی ’’سیاسی پیغام‘‘ کو ڈھونڈ کر اس کے بارے میں کوئی ’’تجزیاتی کالم‘‘ لکھ کر اپنا ڈنگ ٹپانا چاہتے ہیں۔ میں نے تھوڑی بہت کوشش کی تو سندھ فیسٹیول کے پیچھے کوئی واضح ’’سیاسی پیغام‘‘ نظر نہ آیا۔ اداسی کے ماحول میں میلے ٹھیلے کے رنگ اُجاگر کرنے کی کوشش ضرور نظر آئی۔ یہ رنگ شاید زیادہ نکھرے ہوئے نظر آتے اگر اس فیسٹیول کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے رچائے Events کی طرح پیشہ ور Managers کے حوالے نہ کر دیا جاتا۔

اس فیسٹیول کی سب سے زیادہ مخالفت انٹرنیٹ کے ذریعے ماحول و ثقافت کا تحفظ کرنے کے دعوے داروں کی طرف سے ہوئی۔ انھیں بنیادی طور پر یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اس Event کی افتتاحی تقریب کے لیے موئن جودڑو پر ایک اسٹیج بنایا گیا جسے جدید ترین Laser روشنیوں کے ذریعے جگ مگایا گیا۔ چونکہ اس تقریب کے لیے مدعو ہوئے 500 افراد ہمارے VVIPs پر مشتمل تھے۔ اس لیے ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پولیس والوں کی ایک بڑی نفری کی ضرورت بھی تھی۔ پولیس والے آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے کسی نوعیت کی کوئی تربیت حاصل نہیں کرتے۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد کی موئن جودڑو میں موجودگی بھی محبانِ آثارقدیمہ کو بہت پریشان کر رہی تھی۔انٹرنیٹ پر بڑی شدت اور تواتر کے ساتھ ان کے خدشات پڑھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ ہرگز یہ اندازہ نہ تھا کہ پاکستان میں لوگ اپنے ’’ثقافتی ورثے‘‘کی اتنی قدر کرتے ہیں۔ پریشانی مگر یہ بھی ہوئی کہ اپنی ثقافت کے موئن جودڑو جیسے آثار کے ساتھ ایسی بھرپور وابستگی کے باوجود میں جب بھی کبھی ٹیکسلا گیا تو وہاں کسی زمانے کے ایک عظیم ترین یونیورسٹی کے کھنڈرات میں ناقابلِ برداشت گندگی کے ڈھیر کیوں نظر آئے۔

دو برس پہلے اپنی بچیوں کو ساہی وال سے ہڑپہ دکھانے لے گیا تھا۔ انھوں نے میری اپنے ملک کی ’’پانچ ہزار سالہ تہذیب‘‘ پر ایک فخریہ تقریر کو روک کر ساہی وال واپس لوٹنے کی ضد شروع کر دی اور وجہ وہاں پھیلے ’’گند‘‘کو ٹھہرائی۔ سوات میںجب حالات سیاسی حوالوں سے کافی خراب تھے تو اس وادی میں تقریباََ ایک ماہ تک روزانہ ہی جانا پڑتا۔ سیدو شریف تک جاتے ہوئے کئی مقامات پر آپ کے دائیں اور بائیں Stupas بھی نظر آتے ہیں۔ میں نے انھیں ہمیشہ بہت ویران اور خستہ حال میں دیکھا۔ Stupas کیا ہوتے ہیں؟ میں آپ کو پوری طرح سمجھا نہیں سکتا۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ان کا بدھ مت سے گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔ مگر ہم اس مذہب کی تاریخ کنگھالنے میں اپنا وقت کیوں ضایع کریں جس کے پیروکار ہم میں موجود ہی نہیں۔ فی الحال تو ویسے بھی ہم میڈیا والوں کو پوری توجہ اس بات پر دینا ہے کہ ہمارا آئین اسلام کے بھرپور نفاذ کا تقاضہ کرتا ہے یا اس میں محض چند شقیں ہمارے سیاستدانوں نے ’’عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے‘‘ دین پر عمل داری کی ’’سہولت‘‘ کے نام پر ڈال رکھی ہیں۔

جب انٹرنیٹ پر آثار قدیمہ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھنے والے انتہائی پڑھے لکھے لوگوں نے موئن جودڑو کے کھنڈرات کو بچانے کی خاطر بڑا شور مچایا تو بہت دفعہ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ بلاول بھٹو زرداری کی ایماء پر سندھ فیسٹیول رچانے پر ہمارے چند نامی گرامی پارسا لکھاری کیوں خاموش ہیں۔ وہ کیوں یہ بات فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اس نظریے کا اصل آغاز وادی سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد سے ہوا۔ اسی لیے تو سندھ کو ’’باب السلام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم نے موئن جودڑو کا باب بند کرنے کے بعد ہی یہ نیا دروازہ کھولا ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری اس بند ہوئے باب کو کھول کر دراصل کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ میں اس سوال کے بلند ہونے کا انتظار ہی کرتا رہا مگر ہمارے نامی گرامی پارسا لکھاری اس معاملے میں خاموش رہے۔ چند روز پہلے مگر کنور دلشاد صاحب کی لکھی ایک تحریر کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔

کنور صاحب جنہوں نے اپنی سرکاری نوکری کا سب سے زیادہ عرصہ پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے نیک مقصد پر صرف کیا ہے بالآخر بول ہی اٹھے۔ بڑے غور و فکرکے بعد بالآخر انھوں نے دریافت کر لیا کہ سندھ فیسٹیول مناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اورپرنانا کا حقیقی وارث بناہے۔ بقول کنور صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے والد نے بطور وزیر اعظم جونا گڑھ اس ریاست کے بھارت میں مدغم کرنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ بعدازاں ان کے فرزند نے بھی 1970 کے انتخابات کے بعد ’’سقوط ڈھاکہ‘‘کو یقینی بنانے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ غالباً جگہ کی قلت کی وجہ سے وہ تفصیلاً یہ بیان نہ کرپائے کہ ’’سندھ فیسٹیول‘‘مناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری درحقیقت کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی آیندہ تحریروں میں وہ اس بات کی وضاحت بھی فرما دیں تا کہ ہمارے جیسے مشتری خود کو ہوشیار باش محسوس کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔