- بھارت میں آندھی میں ہورڈنگ بورڈ پٹرول پمپ پر گرگیا؛ 14 افراد ہلاک اور 74 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
- نیب ترامیم کیس؛ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت
- کوئٹہ؛ لوڈشیڈنگ کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج 6 روز سے جاری
- حکومت کو نان فائلرز کی فون سمز بلاک کرنے سے روکنے کا حکم
- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
- کراچی یونیورسٹی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی؛ وائس چانسلر نے مہم کا آغاز کردیا
- کراچی میں شدید گرمی کے دوران 12، 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ، شہری بلبلا اٹھے
- کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم
- جنوبی وزیرستان؛ گھر میں دھماکے سے خواتین سمیت 5 افراد جاں بحق
- آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان
- جوسز پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس؛ خسارے کا سودا
- وزیراعظم کا اسٹریٹیجک اداروں کے سوا تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان
- طبی آلات کی چارجنگ، خطرات اور احتیاطی تدابیر
- 16 سال سے بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہنے والی خاتون
- واٹس ایپ صارفین کو نئی جعلسازی سے خبردار رہنے کی ہدایت
- ممبئی میں مٹی کا طوفان، 100 فٹ لمبا بل بورڈ گرنے سے 14 افراد ہلاک
- غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ، امریکا
- بولرز کی خراب فارم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
- محمد رضوان نے اپنی ’سادہ‘ فلاسفی بیان کردی
انسانی گردے ’’چھاپنے‘‘ والی جدید تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی
بوسٹن: ہارورڈ یونیورسٹی نے تھری ڈی پرنٹنگ سے انسانی گردے ’’چھاپنے‘‘ والی جدید ٹیکنالوجی ایک مقامی کمپنی کو لائسنس پر دے دی ہے تاکہ وہ اسے تجارتی پیمانے تک پہنچا سکے۔
2019 میں وضع کی گئی اس ٹیکنالوجی میں تھری ڈی پرنٹر سے انسانی گردے ساخت تیار کرتے دوران اس میں خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) بھی شامل کردیئے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک ایسا مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردہ تیار ہوجاتا ہے جو مریض کے اپنے جسمانی خلیوں سے بنا ہوتا ہے۔ اسے بہ آسانی خراب گردے کی جگہ لگا کر مریض کو ڈائیلیسس کے تکلیف دہ عمل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ تھری ڈی پرنٹر سے زندہ خلیوں والی کسی بھی چیز کی تیاری کو ’’تھری ڈی بایوپرنٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے جو بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول، بوسٹن کی پروفیسر ڈاکٹر جنیفر لیوس اور ان کے ساتھیوں نے انسانی گردے کی جیتی جاگتی نقل تیار کرنے کےلیے یہ ٹیکنالوجی 2019 میں وضع کرلی تھی۔
اس میں تھری ڈی بایوپرنٹنگ کی روایتی خامیاں دور کرتے ہوئے، تجرباتی طور پر ایسے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے گئے جن میں خون کی ویسی ہی فعال نالیاں موجود تھیں کہ جیسی قدرتی گردے میں ہوتی ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں یہی ٹیکنالوجی ’’ٹریسٹل بایوتھراپیوٹکس‘‘ نامی کمپنی کو لائسنس پر فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ اسے مزید ترقی دے کر اس قابل بنائے کہ تھری ڈی بایوپرنٹنگ سے پوری جسامت والے مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردے تیار کیے جاسکیں۔
امریکا کی ’’نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن‘‘ کے مطابق، اس وقت دنیا بھر میں اندازاً دو کروڑ افراد گردوں کی کسی نہ کسی سنگین بیماری کا شکار ہیں اور انہیں ڈائیلیسس کی ضرورت ہے۔ تاہم ان میں سے صرف دس فیصد، یعنی 20 لاکھ افراد ہی کو ڈائیلیسس کی سہولت میسر ہے۔
ڈائیلیسس میں مشینوں کے ذریعے خون سے فاسد مادّے صاف کیے جاتے ہیں لیکن یہ عمل بہت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے جس سے مریض کو بار بار گزرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈائیلیسس کروانے والے مریضوں کی اکثریت صرف چند سال مزید ہی زندہ رہ پاتی ہے۔
فی الحال گردوں کی ناقابلِ علاج بیماریوں سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ گردے کی تبدیلی یعنی کسی دوسرے کے دیئے ہوئے گردے کی پیوند کاری ہے۔
لیکن اس میں بھی گردے کا عطیہ دستیاب ہونے اور ٹشو میچنگ سے لے کر ساری زندگی دوائیں کھانے تک، کئی طرح کے مسائل ہیں۔
اس کے برعکس، اگر کسی شخص کو اس کے اپنے خلیوں سے بنا ہوا گردہ بطور عطیہ لگایا جائے تو ایسے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔
تھری ڈی بایوپرنٹنگ اور خلیاتِ ساق (stem cells) کے ملاپ سے وضع کی گئی یہ جدید ٹیکنالوجی بھی اسی جانب ایک قدم ہے۔
آنے والے برسوں میں اس ٹیکنالوجی نے اگر ہماری توقعات کے مطابق ترقی کرلی اور یہ پوری جسامت والے انسانی گردے ’’چھاپنے‘‘ کے قابل ہوگئی تو یہ دنیا میں گردوں کے لاکھوں مریضوں کےلیے زندگی کی ایک نئی امید سے کم نہیں ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔