فواد چوہدری کی ’’چوہدراہٹ‘‘

وقار احمد شیخ  بدھ 6 اپريل 2022
فواد چوہدری اس سے قبل بھی صحافیوں سے بدتمیزی کرچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

فواد چوہدری اس سے قبل بھی صحافیوں سے بدتمیزی کرچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

فواد چوہدری کی سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے بدتمیزی کی ویڈیو خوب وائرل ہورہی ہے۔ اگر ٹویٹر ٹرینڈز دیکھیں تو ہمیشہ کی طرح پی ٹی آئی کے سپورٹر اس واقعے کو بھی ٹوئسٹ کرکے فواد چوہدری کے حق میں اور صحافی کو غلط قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ عمران حکومت کے مخالف فواد چوہدری کی ’’بے عزتی‘‘ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شرم دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اصل واقعہ کیا ہوا یہ تو وہاں موجود تمام صحافیوں کے علم میں ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر اسد عمر کی گفتگو کے بعد صحافی مطیع اللہ جان کی جانب سے فرح خان سے متعلق سوال کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ اسد عمر کوئی جواب دیتے فواد چوہدری نے مائیک سنبھال لیا اور سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے تحقیرانہ اور تکبرانہ انداز میں صحافی کو کرائے کا ٹٹو قرار دے دیا۔ فواد چوہدری کا اصرار یہی تھا کہ پہلے وہ بات کریں گے اور وہ صحافی کون ہوتا ہے سوال کرنے والا۔

موقع پر موجود صحافیوں نے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے احتجاج کیا اور فواد چوہدری سے اپنے الفاظ اور صحافی سے بدتمیزی کرنے پر معافی کا مطالبہ کیا۔ لیکن فواد چوہدری نہ صرف صحافی سے بحث کرتے ہوئے گالیوں پر اتر آئے بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے باوجود اس طرح پریس کانفرنس کرتے رہے جیسے ان کی نظر میں انھیں کوئی سنے یا نہ سنے، انھیں بس اپنی بات کہتے جانا ہے۔ بالآخر صحافیوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان اور مائیک ہٹا دینے کے بعد وہ واپس لوٹ گئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ چینل جس پر پی ٹی آئی کی بے جا سپورٹ کا الزام ہے، اس نے بھی اس واقعے کی خبر نشر کرتے ہوئے ٹکرز میں لکھا کہ صحافی مطیع اللہ جان، فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کے دوران مستقل بولتے رہے۔ جبکہ دیکھنے والوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ فواد چوہدری خود کسی کی سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔

یہ بلاگ بھی پڑھئے: فواد چودھری صاحب! سائنس میں چودھراہٹ نہیں چلتی

صرف فواد چوہدری ہی نہیں پی ٹی آئی کے اکثر وزرا بشمول سابق وزیراعظم عمران خان کا عمومی رویہ یہی ہے کہ اپنی مخالفت میں کوئی سوال یا تنقید برداشت نہیں کرپاتے اور لوگوں کے اعتراض پر سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں آمد کے بعد سے ہی عمران خان کی خود پرست شخصیت پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ جو لوگ عمران خان کو ان کے بطور کرکٹر کیریئر کے آغاز سے جانتے ہیں وہ بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ عمران خان اپنے سامنے کسی کی نہیں سنتے اور اپنی انا کی خاطر کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ عمران خان نے اپنے ساتھی بھی ایسے ہی چُنے جو خود ان کی طرح منہ پھٹ، بدتمیز اور اناپرست ہیں۔

فواد چوہدری والے واقعے سے قبل شیخ رشید بھی اپنی ہٹ دھرمی اور بدتہذیبی کے باعث اسی طرح صحافیوں کے بائیکاٹ کا سامنا کرچکے ہیں۔ شیخ رشید کی پریس کانفرنسز میں بھی ان کا جو کروفر اور فرعونیت ہوتی ہے، وہ ناظرین صاف محسوس کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیگر وزرا کا کردار بھی میڈیا کے ذریعے ہی ہمارے سامنے آچکا ہے۔ آج وہ دور نہیں رہا جب سیاستدانوں کا اصل کردار عوام کی نظروں سے اوجھل رہتا تھا اور وہ شخصیت پرستی کے باعث اپنے پسندیدہ سیاستدان کو فرشتہ سمجھتے رہتے تھے۔ آج میڈیا کی بے رحم آنکھ تمام سیاستدانوں کے اصل کردار عوام کے سامنے برہنہ کردیتی ہے۔ سیاستدان اور ان کے گُرگے جس قدر چاہے شرافت کا ملمع اوڑھنے کی کوشش کریں، عوام کو سب علم ہوجاتا ہے کہ کس کا دامن کتنا اُجلا ہے اور کون اپنے داغدار دامن کو شرافت کی چادر کے نیچے چھپانے کی کوشش میں ہے۔

اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اخلاقیات کا اب سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتیں بھی اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ لیکن سیاست میں بداخلاقی اور بدتہذیبی کو اس عروج پر پی ٹی آئی نے ہی پہنچایا ہے۔ پی ٹی آئی وزرا کے ساتھ تحریک انصاف کے سپورٹرز بھی جس رویے کا اظہار کرتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر عیاں ہے۔ یہ نصیحتیں کرنا لایعنی ہے کہ سیاستدانوں کو اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے کارکنوں کی بھی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے۔ کیونکہ جس قوم کا آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہو، ان کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ اللہ اس ملک پر رحم کرے اور کہیں سے کوئی مسیحا وارد کرے جو ہمیں ان حالات سے نکال سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔