فواد چودھری صاحب! سائنس میں چودھراہٹ نہیں چلتی

علیم احمد  جمعـء 26 جولائی 2019
بہتر ہے کہ ٹویٹس کے بجائے پاکستان میں سائنسی تحقیق و فروغ جیسے معاملات پر حقیقی اور سنجیدہ توجہ دیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بہتر ہے کہ ٹویٹس کے بجائے پاکستان میں سائنسی تحقیق و فروغ جیسے معاملات پر حقیقی اور سنجیدہ توجہ دیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس بلاگ کے ذریعے میں آپ سے براہِ راست مخاطب ہوں… جی ہاں! آپ سے فواد چودھری صاحب، جو موجودہ وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔ موہوم سی توقع تھی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہم قومی وزارت پر آپ کی آمد سے کچھ بہتری آئے گی، لیکن یہ توقع اب تک کم و بیش اٹھ چکی ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ آپ کے مسخاکوں (memes) کی بدولت پاکستانی ذرائع ابلاغ میں لفظ ’’سائنس‘‘ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ سنجیدگی سے زیادہ مضحکہ خیزی کا عنصر وابستہ ہے جو بجائے خود پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حقیقی فروغ و ترقی کےلیے ہلاکت خیز حد تک مضر ہے۔

کبھی آپ سائنس سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانی نوجوانوں کو کمر کسنے کے بجائے ’’بیلٹ پہن لیجئے‘‘ جیسا نادر و نایاب مشورہ دے ڈالتے ہیں:

کبھی ٹی وی پروگرام میں فرما دیتے ہیں کہ ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ، سپارکو نے خلاء میں بھیجی تھی:

جب اس اظہارِ خیال پر سبکی کا سامنا ہوتا ہے تو ان خیالات پر معذرت کرنے کے بجائے اپنے غصے کا سارا ملبہ رویتِ ہلال کمیٹی پر گرا دیتے ہیں:

باوجودیکہ رویتِ ہلال کے معاملے پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے علماء اور ماہرینِ فلکیات کے مابین عشروں سے بحث جاری ہے، آپ جس انداز سے رویتِ ہلال کے بارے میں تبصرے فرماتے ہیں، انہیں عامی اور عامیانہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن سلجھا ہوا اور سنجیدہ ہر گز نہیں۔ پھر آپ پانچ سالہ قمری کیلنڈر بنانے کےلیے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دے دیتے ہیں:

لیکن یہیں پر نہیں رکتے بلکہ بڑی عجلت میں ’’رویتِ ہلال ایپ‘‘ بھی بنوا لیتے ہیں، حالانکہ اس قسم کی درجنوں ایپس ’’گوگل پلے اسٹور‘‘ پر پہلے سے موجود ہیں۔ صرف صحیح کی ورڈ استعمال کرکے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ رویتِ ہلال پر مختلف عالمی ویب سائٹس بھی برسوں سے کام کررہی ہیں جنہیں دیکھنا آپ کو بالکل بھی گوارا نہیں… شاید آپ اُمتِ مسلمہ کے نئے ’’سائنسی ہیرو‘‘ بننا چاہتے ہیں۔

کبھی لیب کوٹ پہن کر سائنسدان بننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے، ایک عجیب و غریب قسم کی ویڈیو کلپ شیئر کرا دیتے ہیں:

دریں اثناء آپ کراچی تشریف لاتے ہیں اور جامعہ کراچی کے عالمی مرکز برائے کیمیائی و حیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) میں پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ اس پریس کانفرنس کا مقصد، سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں حکومتی وژن سے متعلق میڈیا کو آگاہی دینا ہے لیکن پوری پریس کانفرنس پر ایک غیر سنجیدہ ماحول طاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان کو آپ بولنے ہی نہیں دیتے اور وہ کسی کلرک کی طرح بار بار آپ کو کاغذ پر لکھی ہوئی عبارت دکھاتے جاتے ہیں… کیا پاکستان کے معزز ترین سائنسدان کے ساتھ اس طرح کا رویہ آپ کو زیب دیتا ہے؟ (راقم اس پریس کانفرنس کا عینی شاہد ہے۔)

پوری پریس کانفرنس میں واحد قابلِ ذکر اعلان یہ کرتے ہیں کہ اگست 2019 کو پاکستان میں ’’سائنس کے مہینے‘‘ کے طور پر منایا جائے گا، اور بس۔

جب آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن (پی ایس ایف) جیسے اہم قومی ادارے میں اب تک نئے چیئرمین کی تقرری کیوں نہیں کی گئی؟ تو آپ ’’شکر ہے پہلا سائنسی سوال تو آیا،‘‘ کہہ کر اس سوال کا گول مول جواب دے دیتے ہیں؛ اور چند منٹ بعد ہی وہاں سے چل دیتے ہیں۔ (نتیجہ یہ ہے کہ آج تک، اس بات کو دو ماہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کو ’’قائم مقام چیئرمین‘‘ ہی کی ماتحتی میں چلایا جارہا ہے۔)

سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں آپ کو تین ماہ پورے ہونے والے ہیں لیکن اس پورے عرصے میں آپ شاید پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس کا ایک بار بھی دورہ نہیں کرتے؛ اور نہ ہی یہ جاننے میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں کہ اسی ادارے میں ’’سائنس پاپولرائزیشن وِنگ‘‘ کا مینڈیٹ تبدیل کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں سائنس کو اسکول کی سطح پر مقبولِ عام بنانے کے جتنے منصوبوں کا تذکرہ آپ کرتے رہتے ہیں، ان میں سے بیشتر پر اسی سائنس پاپولرائزیشن وِنگ میں برسوں (بلکہ عشروں) سے کام ہورہا ہے۔ (اگر کبھی فرصت ملے تو وزیراعظم سیکریٹریٹ کے عین سامنے واقع، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے صدر دفتر چلے جائیے گا اور ان کے ’’سائنس کاروان‘‘ کی بسیں بھی دیکھ لیجیے گا۔)

پاکستان میں سائنس کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن آپ اپنی ٹویٹس سے بار بار یہ تاثر دیتے ہیں جیسے آپ کے وزیرِ سائنس بننے سے پہلے اس ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ خدارا! اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر وطنِ عزیز کی سائنسی تاریخ چھپانے اور مسخ کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔

جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر فرید ملک، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے چیئرمین تھے جنہوں نے ’’ٹیکنالوجی بیسڈ ڈیویلپمنٹ‘‘ (ٹی بی ڈی) کے نام سے ایک اہم منصوبے اور وژن پر کام شروع کیا تھا۔ اگر زحمت نہ ہو تو ذرا اس کا مطالعہ بھی کرلیجیے گا، آپ کے کام آئے گا۔

پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال میں 800 کے لگ بھگ پیٹنٹس حاصل کیے ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان پیٹنٹس سے ہماری مقامی صنعت میں کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ پیٹنٹس صرف کاغذات کا پیٹ بھرنے کےلیے حاصل کیے گئے ورنہ صنعتی نقطہ نگاہ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں؟ ان سنجیدہ سوالوں کے جوابات تلاش کرنے اور پی سی ایس آئی آر کو پاکستان کی صنعتی ترقی کے ساتھ بہتر طور پر مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نکات اب تک آپ کی نگاہِ التفات کے منتظر ہیں۔

کبھی فرصت ملے تو فیصل آباد میں زرعی یونیورسٹی، ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، نیاب اور نبجی وغیرہ جیسے زرعی تحقیقی اداروں کا دورہ بھی کرلیجیے گا کیونکہ یہی وجہ مقامات ہیں جہاں سے آپ کو پائیدار زرعی ترقی کے حوالے سے بہترین مشورے مل سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ کو فرصت ملے گی؟

اور ہاں، یاد آیا! نبجی (NIBGE) فیصل آباد ہی میں برسوں پہلے کوئلے میں موجود سلفر اور راکھ کی مقدار کم کرنے کا ایک تحقیقی منصوبہ بہت کامیابی سے مکمل کیا گیا، لیکن وہ بھی وقت کی گرد تلے کہیں دب گیا۔ ذرا جھاڑ پونچھ کر اسے بھی کہیں سے نکلوا لیجیے گا، پاکستان کے کام آسکتا ہے۔

پاکستان میں سائنسی تحقیق ہو تو رہی ہے لیکن بہت بکھرے ہوئے، غیر منظم اور غیر سائنسی انداز میں۔ حال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے میں کوئی تحقیقی کام ہورہا ہے، تو اس کی خبر دوسرے سائنسی اداروں تک کو نہیں… بھلا ہمہ شمہ کو اس بارے میں کیا پتا چلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق میں مصروف پاکستانی اداروں اور تحقیق کاروں کا ایک جامع ڈیٹابیس مرتب کیا جائے، بلکہ وطنِ عزیز میں جاری سائنسی تحقیقی سرگرمیوں کو بھی اس انداز سے منظم و مربوط کیا جائے کہ ان کے بہتر معاشی و معاشرتی ثمرات (socioeconomic benefits) جلد از جلد اور بہتر سے بہتر طور پر حاصل کیے جاسکیں۔ لیکن وہی مرغے کی ایک ٹانگ: کیا آپ ان سب چیزوں کو قابلِ توجہ سمجھتے ہیں؟

وزارتِ سائنس میں آنے سے پہلے آپ کا تعلق اطلاعات و نشریات کی وزارت سے تھا، جبکہ آپ خود بھی میڈیا کے پس منظر ہی سے سیاست میں آئے ہیں۔ پاکستانی صحافیوں کی میڈیا سے واقفیت کا کیا حال ہے؟ یہ آپ بخوبی جانتے ہوں گے۔ اسی بناء پر امید تھی کہ وزیرِ سائنس بننے کے بعد آپ کچھ نہ کچھ ایسے اقدامات ضرور کریں گے جن کے ذریعے میڈیا میں سائنس رپورٹنگ کو بہتر بنایا جائے گا، اور وہ افراد/ ادارے جو پاکستان میں سائنس کے عوامی ابلاغ کا کام کررہے ہیں، ان کےلیے سہولیات پیدا کی جائیں گی۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے آپ کو نہ تو سائنسی صحافت (سائنس جرنلزم)، عوامی سائنسی ابلاغ (پبلک کمیونی کیشن آف سائنس) اور فروغِ سائنس (سائنس پاپولرائزیشن) جیسے الفاظ کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں جاننے کی کوئی فکر۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں اگر ایک طرف ان کے تحقیقی ادارے سنجیدہ تحقیق میں مصروف ہوتے ہیں تو دوسری جانب وہاں کا میڈیا بھی اپنے یہاں ہونے والی ان سائنسی تحقیقات اور دوسری متعلقہ سرگرمیوں کو عوام الناس کے سامنے پیش کرتا ہے، سائنسی تصورات کو ان کےلیے عام فہم بناتا ہے، سائنس کے بارے میں عوام کی اجنبیت دور کرتا ہے اور اپنے معاشرے میں ’’سائنس کلچر‘‘ پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ توقع تھی کہ آپ کے وزیرِ سائنس بننے کے بعد میڈیا اور سائنس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا… افسوس کہ اس بارے میں آپ کا اب تک کا رویہ مایوس کن حد تک سرد مہری پر ہی مبنی رہا ہے۔

مجھے آپ سے کوئی دشمنی نہیں۔ میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میرا ذاتی نقطہ نگاہ ہے۔ تبدیلی سرکار کا یہ چلن میری سمجھ سے باہر ہے کہ دوسرے ملکوں میں ہونے والی سائنسی ترقی کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن جب پاکستان میں سائنسی ترقی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو فوراً غربت کا رونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کو میں منافقت نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟

یقین کیجیے کہ آپ کی تمام باتوں پر صبر (اور دل پر جبر) کرکے خاموش بیٹھا تھا کہ آپ کی ایک تازہ ٹویٹ نے جیسے تن بدن میں آگ لگا دی:

اب یا تو آپ مذاق کررہے ہیں یا پھر دسمبر 2017 میں پاک فضائیہ کے سربراہ، ایئر مارشل سہیل امان مذاق کررہے تھے جب انہوں نے ’’ایئرٹیک 17‘‘ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان، چین کے تعاون سے، اگلے دو سال میں اپنے خلا نوردوں کو خلاء میں بھیجنے کےلیے تیار ہوگا۔

خلائی سیاحت کا معاملہ الگ ہے، لیکن جہاں تک خلا نوردوں کو خلا میں بھیجنے کی بات ہے تو یاد رہنا چاہیے کہ اس مقصد کےلیے انتہائی سخت جسمانی اور پیشہ ورانہ تربیت درکار ہوتی ہے جو اس وقت پاکستان میں صرف پاک فضائیہ کے ماہر ترین ’’ٹیسٹ پائلٹس‘‘ ہی نے حاصل کر رکھی ہے۔ ایئر مارشل سہیل امان نے تقریباً دو سال پہلے جب پاکستانی خلا نوردوں کو خلا میں بھیجنے کی بات کی تھی، تو اس کے پیچھے پاک فضائیہ کی یہی پیشہ ورانہ مہارت پہلے سے موجود تھی۔ شاید آپ نے ٹویٹ کرنے سے پہلے اس بارے میں گوگل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

خبروں میں رہنے کا شوق کسے نہیں ہوتا؟ لیکن اپنے اس شوق کی تکمیل کےلیے پاک فضائیہ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے خود کو ’’پاکستانی خلائی پروگرام کا نیا مسیحا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی قابلِ تعریف عمل نہیں۔

معذرت کے ساتھ، اگر آپ کو پاکستان کے خلائی پروگرام کو حقیقی معنوں میں کوئی ترقی دینی ہے تو گزشتہ تیس پینتیس سال سے التوا میں پڑے ہوئے ’’اسپیس لانچ وہیکل‘‘ (ایس ایل وی) کے منصوبے پر کام کروائیے۔ اپنے لڑکپن سے مختلف نمائشوں میں سپارکو کے اسٹال پر اس بے چارے ’’ایس ایل وی‘‘ کا صرف ننھا منا سا ماڈل ہی دیکھتا آرہا ہوں۔

بات بہت طویل ہوچکی ہے، مزید طویل ہوسکتی ہے۔ لیکن ایک مخلصانہ مشورے کے ساتھ اپنی تحریر ختم کروں گا: برائے مہربانی اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے خوشامدیوں سے نجات حاصل کیجیے کیونکہ ان کی چاپلوسی آپ کو سائنس کے معاملے میں بھی چودھراہٹ کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کررہی ہے… لیکن جناب! سائنس ایک سنجیدہ شعبہ ہے جس میں چودھراہٹ نہیں چلتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔