موبائل فون آپریٹرز کا آئندہ بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس کو واپس لینے کا مطالبہ

ارشاد انصاری  منگل 19 اپريل 2022
یکم جولائی 2022 سے اسے مزید کم کر کے 8 فیصد تک لانا تھا۔ فوٹو: فائل

یکم جولائی 2022 سے اسے مزید کم کر کے 8 فیصد تک لانا تھا۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: موبائل فون آپریٹرز نے آئندہ مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ میں موبائل فون سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

پاکستان میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے والے موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے ٹیلی کام سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کو واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیکس میں اضافہ سے کمپنیوں پر سالانہ 18ارب روپے کا بھاری بوجھ پڑ رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل فون انڈسٹری ودہولڈنگ ٹیکس میں کیے گئے اضافہ کو حکومت کی معاشی اور ڈیجیٹلائزیشن پالیسی کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے کیونکہ اس سے حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان وژن کی مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نو منتخب حکومت سے ود ہولڈنگ ٹیکس کم کرنے کی درخواست کی جائے گی کیونکہ ٹیلی کام سیکٹر پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

فون کمپنیوں کے ذرائع کے مطابق نئی حکومتی کابینہ تشکیل ہونے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت خزانہ کے نئے وزراء کے چارج سنبھالنے کے بعد تفصیلی بجٹ تجاویز پیش کی جائیں گی جن کی روشنی میں حکومت کو آنے والے بجٹ کے دوران آئی ٹی انڈسٹری کے حوالے سے فیصلہ سازی میں مدد ملے گی۔

سابق حکومت نے گزشتہ سال کے بجٹ میں ٹیلی کام سیکٹر کے لیے ایک روڈ میپ کے مطابق ود ہولڈنگ ٹیکس کو 12.5 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا تھا اور یکم جولائی 2022 سے اسے مزید کم کر کے 8 فیصد تک لانا تھا۔ تاہم، بعد ازاں حکومت نے جنوری 2022 میں اپنے ان فیصلوں کو واپس لے لیا۔

پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے صرف 29لاکھ (2.9 ملین) لوگ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں جو کہ کل آبادی کا ایک فیصد بنتا ہے۔ آبادی کی اکثریت کی آمدن ناقابل ٹیکس ہونے کے باوجود یہ لوگ ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اس کی واپسی کا کبھی کلیم بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نئی حکومت کو چاہیے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے پالیسیوں میں مستقل مزاجی کو یقینی بنائے، اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (او آئی سی سی آئی) نے پنجاب ریونیو اتھارٹی کے لیے اپنی ٹیکس سفارشات میں تجویز کیا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرح کو دیگر سروسز کے برابر لانا چاہیے اور بجٹ 2022-23 میں ٹیلی کام سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 19.5 فیصد سے کم کر کے 13 فیصد کی جائے۔

او آئی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ مطابقت پذیر پالیسیوں، معیاری قابل ٹیکس خدمات، محصولات کی تقسیم کی بنیاد اور مختلف ریونیو بورڈز کے قوانین کے درمیان تمام بے ضابطگیوں یا تنازعات کو دور کرنے کے لیے پالیسی بورڈ تشکیل دیا جائے۔

دوہرے ٹیکس سے بچنے کے لیے ’’ٹول مینوفیکچرنگ‘‘ کو سروسز کی فہرست سے نکال دینا چاہیے کیونکہ یہ فیڈرل سیلز ٹیکس کے تحت قابل ٹیکس شعبہ ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کے قوانین میں ترمیم کی جائے، رجسٹرڈ سروس پرووائیڈرز اور رجسٹرڈ سروس وصول کنندگان کے درمیان ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایف بی آر کے مطابق ہونی چاہیے۔

سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرح سندھ سیلز ٹیکس کی شرح کے ساتھ منسلک کی جائے جو کہ 13 فیصد ہے اور یہ شرح تمام سروسز کے لیے یکساں ہونی چاہیے, سوائے ان سروسز کے جو فی الحال کم شرحوں سے مشروط ہیں۔ پنجاب سیلز ٹیکس آن سروسز ایکٹ 2012 کے سیکشن 70 میں ضروری ترامیم کی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔