بدلتے وقت

وجاہت علی عباسی  اتوار 2 مارچ 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کئی لوگوں کے حساب سے دنیا میں سب سے ضروری چیز پیسہ ہے، جن کے پاس ہے ان کو لگتا ہے کہ پیسہ نہیں زندگی میں کئی دوسری چیزوں کی اہمیت زیادہ ہے لیکن جن کے پاس وہی پیسہ نہیں ہوتا ان کے خیالات اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ پیسے سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتیں والی مثال صرف ان کے لیے سچ ہوتی ہے جن کے پاس اس کی کمی نہیں ہوتی، ورنہ عام حالات میں ہر خوشی پر کوئی نہ کوئی پرائس ٹیگ لگا ہوتا ہے جسے اسے چاہنے والا افورڈ نہیں کرپاتا۔

دنیا میں ہزاروں سال پہلے تقریباً بارہ ہزار سال قبل مسیح پیسے کا تصور پیدا ہوا۔ ہاں اس وقت ’’پیسہ‘‘ کرنسی کی صورت نہیں ہوتا تھا لیکن بھیڑ بکریوں اور اناج کو کرنسی کی طرح ہی استعمال کیا جاتا، یہ بات شاید آپ کے علم میں ہو کہ سکوں کی صورت میں کرنسی کا استعمال چائنا اور انڈیا سے شروع ہوا۔ کوئی ہزار سال قبل مسیح کے آس پاس سکے اور اسٹیمپ کی طرح دکھائی دینے والے نوٹ کی تاریخ چائنا اور انڈیا میں ملتی ہے، دریائے گنگا میں ملنے والے کچھ سکوں کو سات سو سال قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔پیسہ سکے کی صورت دنیا میں آگیا اور انسان نے بھیڑ بکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اب پیسے کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ چائنا میں کوئی گیارہویں صدی میں باقاعدہ پیپر منی یعنی نوٹ کا استعمال شروع ہوا اور یہی نوٹ یورپ میں مارکوپولو جیسے سیاحوں کی وجہ سے پہنچا، وہاں بھی اس کا استعمال عام ہوا۔ مارکوپولو اپنی کتاب ’’ٹریولز آف مارکوپولو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ پیپر منی لے کر یورپ پہنچے تو وہاں کے لوگ اس سے انجان تھے۔بینک اپنے بینک نوٹ جاری کرتے اور صرف بڑے بینکوں کے نوٹ ہی قبول کیے جاتے، مختلف جگہوں پر 1690 تک یہی سلسلہ جاری رہا جہاں امریکا میں 5ہزار مختلف بینکوں کے نوٹ استعمال کیے جاتے تھے، اسکاٹ لینڈ میں تو یہ سلسلہ 1850 تک جاری رہا جس کے بعد ہر جگہ حکومت کے جاری کردہ نوٹ استعمال ہونے لگے، جو آج تک جاری ہیں۔

1887 میں ایڈورڈ بیل آمی ایتھوپین مصنف نے اپنی کتاب Looking Backward میں کارڈ منی کا ذکر کیا تھا۔ گیارہ بار انھوں نے کریڈٹ کارڈ کی اصطلاح اپنی کتاب میں استعمال کی۔ ان کے مطابق حکومتیں کارڈ سے اپنی کرنسی کو بدل لیں گی لیکن ایسا حکومت نے نہیں پرائیویٹ کمپنیوں نے کیا۔اٹھارویں صدی کے اختتام پر مختلف کمپنیوں نے اپنے کسٹمرز کو کریڈٹ کارڈ دینے شروع کیے یعنی اگر آپ کسی اسٹور میں شاپنگ کرتے ہیں تو آپ کو اس کا کارڈ دے دیا جائے گا اور ہر مہینے آپ کو اس خریداری کا بل موصول ہوجائے گا ادائیگی کے لیے۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ کارڈ جس کمپنی کا ایشو کردہ تھا اسے صرف اسی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اگر آپ کے پاس مختلف اسٹورز، گیس کمپنیوں، ایئرلائنز کے کارڈ ہیں تو ہر کارڈ کو الگ الگ استعمال کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی کارڈ ایک اکاؤنٹ سے اٹیچ ہوتا، کسی انسان سے نہیں، اس وجہ سے کسی اور کے ہاتھ آجانے سے فراڈ کا خدشہ ہوتا۔

1921 میں ویسٹرن یونین وہ پہلی کمپنی تھی جس نے ماڈرن کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا شروع کیا۔ 1938 میں مختلف کمپنیوں نے ایک دوسرے کے کارڈ قبول کرنے شروع کردیے، 1958 میں بینک آف امریکا نے پہلا کامیاب ورلڈ وائڈ قبول کیا جانے والا کارڈ Bank Americard متعارف کرایا اور 1966 میں ویزا اور ماسٹر کارڈ جیسے کریڈٹ سسٹم کی شروعات ہوئیں۔جیسے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ٹی وی بہت دیر میں آیا اسی طرح کریڈٹ کارڈ کا رجحان بھی پاکستان میں تاخیر سے آیا۔ 80 کی دہائی تک تو کسی نے کریڈٹ کارڈ کا نام بھی نہیں سنا تھا نہ بینک کریڈٹ کارڈ ایشو کرتے نہ ہی دکاندار قبول کرتے اور نہ ہی کوئی اے ٹی ایم، 1990 کے آس پاس صرف حبیب بینک وہ واحد بینک تھا جو اپنے کلائنٹس کو گولڈ کارڈ ایشو کرتا جو کچھ کریڈٹ کارڈ جیسا ہی تھا لیکن 1993 کے بعد سٹی بینک نے ویزا کارڈ جاری کیا جس کے بعد پاکستان میں بھی کریڈٹ کارڈ کا سسٹم تیزی سے پھیلنے لگا۔آپ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں باآسانی کریڈٹ کارڈ استعمال کرسکتے ہیں۔ آج کریڈٹ کارڈ کے بغیر زندگی گزارنا عجیب سی بات لگتی ہے یہ موبائل فون کے بعد شاید دوسری ایسی چیز ہے جو نہیں تھی تو زندگی مکمل تھی لیکن آجانے کے بعد اب اس کے بغیر زندگی ادھوری لگے گی، تو اب آگے کیا؟ کیا بدلے گا دنیا میں اب کریڈٹ کارڈ کے بعد کرنسی کے لیے تو اس کا جواب ہے “Bit Coin” شاید آج آپ بٹ کوائن کے نام سے نہ واقف ہوں جس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ایک اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں بھی 78 فیصد لوگوں کو بٹ کوائن کے بارے میں نہیں پتہ۔ بٹ کوائن آنے والے کل کی کرنسی ہے جس پر اس وقت سیکڑوں امریکن کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

آسان الفاظ میں بٹ کوائن ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے آپ پیسوں سے خریدتے ہیں اور مختلف جگہوں پر اسے استعمال کرتے ہیں جیسے کوئی دوسری کرنسی یا کریڈٹ کارڈ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں نیا کیا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ بٹ کوائن دنیا سے کرنسی کی مختلف شناخت کو ختم کردے گی۔آج دنیا میں اپنی اپنی کرنسی کو استعمال کیا جا رہا ہے ہر کرنسی کا ریٹ اس ملک کی معیشت کے مطابق یعنی روز آپ کے روپے کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے ساتھ ہی جب آپ کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں تو دکاندار کو تین سے دس فیصد تک فیس دینی ہوتی ہے اور آپ کو بھی اگر آپ اپنا کریڈٹ کارڈ ملک سے باہر استعمال کریں۔

بٹ کوائن کی ویلیو ساری دنیا میں ایک ہی رہے گی اور اسے کوئی حکومت یا معیشت کنٹرول نہیں کرے گی اگر آپ کے پاس سو (100) بٹ کوائن ہیں تو ان کی قیمت ہر جگہ وہی رہے گی اس کا تعلق کسی ملک کی کرنسی سے نہیں ہوگا نہ اس کے استعمال پر کوئی ٹرانزکشن فیس دینی ہوگی جس سے دنیا بھر میں اکانومی یکساں ہوتی چلی جائے گی۔اس وقت دنیاکی بڑی بڑی کمپنیاں بٹ کوائن میں انویسٹ کر رہی ہیں۔ وقت بدل رہا ہے ہوسکتا ہے پاکستان تک بٹ کوائن پہنچنے میں وقت لگے لیکن اس کے آجانے سے ملک میں اکانومی کی Monopoly توڑنے میں بڑی مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔