یہ شہر جو کبھی پر امن تھا

عینی نیازی  منگل 4 مارچ 2014

شہر کراچی کا ہر فرد سہما ہوا ڈرا ہوا دکھائی دے رہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے گویا دشمن کے نرغے میں ہیں، قابض فوج فاتح کی طرح قتل عام کر رہی ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہم اپنے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کرلیتے کہ آخر دلی بھی تو سات بار لٹا تھا، نادر شاہ نے وہاں پر پانچ روز تک قتل عام کا حکم صادر کرایا تھا۔ لیکن یہاں تو اپنے ہی اپنے گھر کو آگ لگاتے، اپنے ہی ہم مذہب ہیں۔ کراچی میں آگ و خون کا کھیل پھر اپنے عروج پر ہے، ارباب اختیار اسے روکنے سے قاصر اور بے بس ہیں، وہی سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ کانفرنس، گفت و شنید اور باہمی مفاہمت اور تعاون کی یقین دہانیاں ہیں، تاجر برادری بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال ہے، سرمایہ دار، ڈاکٹرز، اساتذہ، انجینئرز جو اس ملک کی ترقی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، آخر سب کو اپنی اور گھر والوں کی جانیں عزیز ہیں۔ جب اس ملک کے قانون نافذکرنے والے ادارے انھیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو وہ کیوں یہاں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کا انتظار کریں۔ رہ گئے غریب عوام تو وہ نہ وطن چھوڑ سکتے ہیں نہ اس ملک میں محنت سے روزی روٹی کما سکتے ہیں، وہ بس بیرون ملک منتقل ہونے والوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں، کہ اب ہمارا کیا ہوگا، ہمارے روزگار کا کیا ہوگا، بس کسی روز انجانی گولی کا نشانہ بن جانا ان کے مقدر میں لکھا ہے۔

پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ’’تم میں ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتول کو خبر نہ ہوگی کہ اسے کیوں قتل کیا گیا‘‘، آج ایسے ہی زمانے میں ہم جی رہے ہیں۔ یہ سب ہم جیسے عام شہریوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں کہ جب انسان کے دلوں سے انسان کا احترام اٹھ جائے، ایک ہی مذہب کے پیروکار ایک ہی ملت کے امین ایک دوسرے کو خوفزدہ کریں یا ان سے خوف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب موسم اور کیا ہوسکتا ہے، اپنے ہم وطن، فرقہ واریت اور لسانی فرق کے سبب ایک دوسرے کو بری نگاہوں سے دیکھیں، کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو، انسان اپنے ہی دیس میں خود کو پردیسی محسوس کرنے لگے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ جب زمانہ امن کا ہو اور حالات جنگ جیسے ہوں تو سمجھو عذاب ہے، جنازے اٹھ رہے ہیں، کندھا دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آنکھیں نم ہیں، اردگرد جشن منانے والے درندے ہیں، آج ہم ایسے ہی عذاب میں مبتلا ہیں۔

کراچی بار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کہتے ہیں ’’یہ شہر جو کبھی پرامن تھا ہر شہری کو گھومنے پھرنے اور مسجد جانے کی آزادی تھی، آزادانہ اپنا کاروبار کرسکتا تھا، کوئی امیر غریب، فرقہ بندی کا جھگڑا نہ تھا، لیکن پھر کراچی میں وقت گزرنے کے ساتھ معاشی مسائل نے جنم لیا، اب بات ایک دوسرے کے مسلمان ہونے، نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور انڈر ورلڈ کی ذاتی دشمنیوں نے بے شمار انمول زندگیوں کے چراغ گل کر دیے ، صرف پچھلے سال دو ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہیں۔‘‘ کراچی کے بارے میں اب یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے مختلف لسانی اور قومیت کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے، ایک قومیت کے فرد کو دوسرے علاقے میں جانے کی اجازت نہیں، یا اس کے لیے خطرناک ہے۔ کراچی ایک آتش فشاں کا روپ دھار چکا ہے، جس میں وقفے وقفے سے لاوا ابل کر باہر آتا ہے، تباہی مچاتا ہے، جانوں کا نذرانہ و صول کرتا ہے اور خاموش ہوجاتا ہے۔ سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کیا یہ المیہ نہیں؟ کچھ دن امن رہتا ہے پھر وہی بگڑتی صورتحال، روزانہ گھروں سے کام پر نکلنے والوں کو کوئی امید نہیں ہوتی کہ واپس صحیح سلامت آئیں گے یا خدانخواستہ کسی انجانی گولی کا شکار ہوجائیں گے، کہیں سے کوئی انسان نما حیوان وارد ہو، کئی گھروں کے چشم و چراغ گل کرکے غائب ہوجائے، پھر لاکھ کوشش کریں، قاتلوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں لگتا۔ درجنوں لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد سرکاری مشنری حرکت میں آتی ہے، ایف آئی آر درج ہوتی ہے، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، خانہ پری کے لیے بے گناہ لوگ پکڑے جاتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے الگ بے بس ہیں، خود ان پر کڑا وقت ہے کہ ان کے درجنوں ساتھی دہشت گردی کی زد میں آچکے ہیں، گویا اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگے جارہے ہیں۔

کچھ عرصے قبل سپریم کورٹ نے کراچی دہشت گردی کا ازخود نوٹس لیا، عدالتی حکم کے مطابق کراچی کے حالات خراب کرنے والے تمام دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے، ان کو بھی جو گرفتار ہونے کے بعد پیرول پر رہا ہوگئے تھے۔

1996 سے کراچی میں رینجرز تعینات ہے،مگر اب تک کراچی کا امن بحال نہیں ہوسکا، اس لیے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی قابل ستائش تھا کہ رینجرز کے اختیارات بڑھائے جائیں، ان پر سے ہر قسم کے سیاسی دباؤ کو ختم کیا جائے، جب قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوں گے تو پھر امن و امان میں بہتری بھی آئے گی۔ اسی حوالے سے چند ہفتے قبل وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں بھی ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئی، جس میں تمام سیاسی رہنماؤں نے پولیس اور رینجرز پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا، ان دونوں اداروں نے کراچی میں آپریشن شروع کیا تو کچھ عرصے کے لیے امن کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے، مگر پھر اچانک پولیس افسران کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس پر رینجرز نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ اس معاملہ پر عدالت میں بھی سوال اٹھائے گئے، ان تبادلوں کے بعد آہستہ آہستہ کراچی کے حالات ایک بار پھر بگڑنا شروع ہوگئے، اب ہم دوبارہ اسی نہج پر آچکے ہیں، روزانہ نو، دس لوگوں کی ہلاکت عام بات ہے، مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنا کر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے، شہر میں خوف و دہشت گردی کا جو راج ہے، سپریم کورٹ اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی جدوجہد سے خدا کرے کہ اس کا خاتمہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔