خواب کی سائنس؛ زیادہ تر خوابوں کی نوعیت بے معنی ہوتی ہے

ڈاکٹر خالد جمیل اختر  اتوار 26 جون 2022
اس سوال کا جواب سائنس دان ایک طویل عرصے سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

اس سوال کا جواب سائنس دان ایک طویل عرصے سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

ہم اوسطاً آٹھ گھنٹے سوتے ہیں۔ دورانِ نیند تقریباً دو گھنٹے کا دورانیہ ایسا ہوتا ہے جس میں ہم خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

نیند کے اس دورانیے کو ’’ریم خواب‘‘ کہتے ہیں۔ بیس، بیس منٹ کے وقفہ کے لئے تین چار مرتبہ یہ دورانیہ ہماری حالت نیند میں آتا ہے۔ ہم خواب صرف اسی دورانیے میں دیکھتے ہیں۔ گویا ہم رات بھر دورانِ نیند ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیس منٹ کے لئے یہ خواب دیکھتے ہیں اور پھر ڈیڑھ گھنٹے کے لئے گہری نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا ہے۔ اگر ہماری آنکھ خواب دیکھتے ہوئے کھل جائے تو وہ خواب ہمیں یاد رہ جاتے ہیں ورنہ رات بھر دکھائی دینے والے خواب صبح تک بھول چکے ہوتے ہیں۔

انسان خواب کیوں دیکھتا ہے؟

اس سوال کا جواب سائنس دان ایک طویل عرصے سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب انسان سو جائے تو اس کا شعور بھی سو جاتا ہے اور چونکہ اس وقت لاشعور جاگ رہا ہوتا ہے اس لئے لاشعور میں موجود خیالات، جذبات یا ایسی خواہشات جو زورآور ہوں، شعوری زندگی میں پوری نہ ہو سکتی ہوں وہ سر اٹھاتی ہیں اور دماغ کی سکرین پر لاشعوری زاویوں سے نظر آنے لگتی ہیں۔ شاید اسی لئے خواب میں ہونے والے اکثر واقعات بے ربط اور الجھاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ لاشعور میں اسی طرح ایک کارنر لینز بھی لگا ہوا ہوتا ہے جو بہت زیادہ خوفناک یا بے ہودہ مناظر کو دکھانے سے روک دیتا ہے۔ خواب میں ایسے واقعات اشاروں میں دکھائے جاتے ہیں، کبھی کبھی خواب اس سنسرشپ سے آزاد ہو جائیں تو ہیجان آمیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خواب مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں لیکن فرائڈ کا خیال ہے کہ ان کا تعلق مستقبل سے نہیں بلکہ ہمارے ماضی کے تجربات، یادیں اور واقعات کی گود سے خواب جنم لیتے ہیں۔ مذہبی اور فلسفی خیالات وعقائد کے تناظر میں خوابوں کی اہمیت ہمارے معاشرے میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔

دو سو قبل مسیح سے پانچ سو عیسوی تک یونان میں باقاعدہ خواب دیکھنے کے اثرات سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یونان میں تقریباً دو سو کے قریب ایسی مذہبی عمارات تھیں جن کے ساتھ کچھ کمرے ایسے بنا دیئے جاتے تھے جہاں لوگ عبادت کرنے کے بعد رات کو اسی انتظار اور امید کے ساتھ سو جایا کرتے تھے کہ رات کو دورانِ نیند جو خواب آئے گا اس کی تعبیر کی روشنی میں ان کی بیماری کا علاج دریافت ہو جائے گا یا پھر انہیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کب تک شفایاب ہونا ہے۔

لوگ اس اعتماد اور عقیدے کے ساتھ باقاعدہ خواب کے ذریعے ٹھیک ہونے کے متمنی ہوتے تھے لہٰذا شدتِ جذبات کے پیش نظر ان کو خواب آ جاتے تھے۔ اچھی سوچ رکھنے والوں کو اچھے اور بری سوچ رکھنے والوں کو برے خواب اور اسی طرح لوگ دماغ کی ان پوشیدہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر روحانی طور پر بیماریوں سے آزاد ہو جاتے تھے۔

اس قسم کے خواب چین میں بھی نظر آتے ہیں بلکہ 350 قبل مسیح میں چین کا مشہور فلسفی چوونگ ترنو زندگی کو بھی ایک خواب ہی سمجھتا تھا۔ اسی طرح افریقہ میں بسنے والے کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو روح اس کے جسم سے عارضی طور پر نکل جاتی ہے اور سیر وتفریح کرتی رہتی ہے، پھر جسم میں علی الصبح واپس آ جاتی ہے۔ ان کے مطابق روح کے جسم کی قید سے نکل کر گھومنے پھرنے کے دوران جو واقعات پیش آتے ہیں اصل میں یہ خواب ہیں۔ بھارت میں یوگی لوگ اپنے خوابوں کو کنٹرول کرنے کی دسترس رکھتے ہیں۔ وہ جب چاہیں اور جس قسم کا خواب دیکھنا پسند کریں، دیکھ سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ لاشعور کے ذریعے شعوری کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔

خواب کی کیفیت میں انسان نے بہت بڑے بڑے غیرفطری معرکے سر کئے ہیں کیونکہ خواب ہمارے لاشعور کی گود سے جنم لیتے ہیں۔ لاشعور علم کے تجربے کا ایک بیکراں سمندر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار خواب انبیاء علیہم السلام کو آنے والے حالات سے آگاہ کردیا کرتے تھے کہ سات سال بعد قحط آئے گا اور سات سال تک محیط رہے گا۔ کبھی کبھی خواب زندگی کے بہت سے رازوں سے پردہ ہٹا دیتے ہیں۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ جرمن کیمیا دان فریڈک گزشتہ کئی سالوں سے مالیکیول کی ساخت پر کام کر رہا تھا لیکن ہر بار ناکام ہو جاتا تھا۔ ایک دن اس نے خواب میں کسی چیز کو سانپ کی طرح رینگ رنگ کر چلتے ہوئے دیکھا اور پھر اسی سانپ نما چیز نے اپنی دم اپنے منہ میں ڈال لی پھر یوں محسوس ہوا جیسے آناً فاناً حجاب الٹ گیا ہو، بجلی چمکی اور وہ بیدار ہو گیا۔ یوں فریڈک کو علم ہوا: Structure of benjene is enclose carbon ring ، اوراس کے بعد کیمسٹری کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔

اسی طرح ایک زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انسانی دماغ سے پٹھوں تک جانے والے پیغامات برقی لہروں کے ذریعے ترسیل ہوتے ہیں لیکن 1930ء میں ایک جرمن فزیالوجسٹ نے ثابت کیا کہ یہ کام برقی لہروں سے نہیں بلکہ کیمیائی طریقے سے ہوتا ہے۔ سائنس دان کا کہنا ہے کہ میں رات کو سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا، تھوڑی دیر بعد بیدار ہونے کے بعد اپنی کتاب میں کچھ نوٹس لکھے اور ایک نقشہ بنایا اور دوبارہ سو گیا۔ اگلے دن میں کچھ سمجھ نہ سکا لیکن دوسرے دن پھر اسی طرح خواب آیا اور مجھے ایک نئے انداز سے اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے ایک تجربے کا نقشہ مل گیا۔ اس کے بعد لیوگی نے اپنا مؤقف ثابت کر دیا اور 1936ء کا نوبل انعام اُسے دیا گیا۔

بہت سے اعلیٰ پائے کے فنکاروں نے بھی خواب کی بستی سے موتی یکجا کئے اور ہماری غیرخوابی زندگیوں میں ان موتیوں کی روشنی بکھیر دی۔ لوہیلم بلیک بھی خواب کی کیفیت میں رہ کر کینوس پر رنگ بھرا کرتا تھا۔ بھارت کے مشہور میوزک ماسٹر نوشاد نے ایک رات خواب میں ایک ٹیون سنی اور دوسرے دن صبح اُس پر اپنا ایک گیت ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ بنایا جو شہرہ آفاق ثابت ہوا۔ کیا ہماری دن بھر کی سوچ کا اثر ہمارے خوابوں پر اثرانداز ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ صرف سوچ ہی اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ وہ سوچ جس میں فکر و پریشانی شامل ہو۔

اس کے اثرات ضرور نمایاں ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا جن لوگوں کو سرجری کروانی ہوتی ہے انہیں سرجری سے کچھ دن قبل قدرے مختلف خواب آنا شروع ہو جاتے ہیں اور کامیاب سرجری کے بعد پھر نارمل حالت کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ چونکہ انسان خواب ریم قسم کی نیند میں دیکھتا ہے اور نیند کا یہ دورانیہ ہمارے خیالات، افکار اور سوچوں کو آپس میں منظم و مربوط کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس حصے میں یاد رکھنے والی باتیں اور ذہانت وغیرہ دماغ میں اپنی جگہ بناتی ہیں کیونکہ اس وقت دماغ جس رِدھم پر کام کر رہا ہوتا ہے، وہ مؤثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اپنے اولین دو سال تک زیادہ دیر تک سوتا رہتا ہے۔ اس کی نیند میں NREM کی بجائے ریم کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکے اور تقریباً ایک سال کے بعد پھر یہ وقفہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔

میرے خیال میں خواب چار اقسام کے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر خوابوں کی نوعیت بے معنی ہوتی ہے بلکہ آپ کے لاشعور میں چلنے والی لہریں اپنا راستہ خود تراشتی و تلاشتی ہوئی کچھ شعوری حصوں کی حدود سے گزرتی ہیں اور ہماری پلکوں پر خواب سجتے چلے جاتے ہیں۔ جن میں بامعنی واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔

ہماری پوشیدہ خواہشات کی تشنگی مٹانے کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات ہماری زندگی کی خوف زدگی سے لبریز اور پراسرار کہانیاں ہمیں نیند کے کینوس پر نظر آتی ہیں۔ دوسری قسم ان خوابوں کی ہے جو intruccional ہوتے ہیں۔ ایسے خواب بامعنی ہوتے ہیں۔ ہمارا شعور جن باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور کسی وجہ سے ہم ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو رہے ہوں تو شعور ہمیں لاشعور کے ذریعے ہمارے خواب میں آ کر ہمیں مشورہ دیتا ہے، متنبہ کرتا ہے اور درست راہ میںہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ان خوابوں میں ہمیں اشارتاً کوئی ایسا پیغام مل سکتا ہے کہ ہمیں فلاں کام کرنا چاہئے یا اسے کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

تیسرے درجے کے خواب ’’تخلیقی‘‘ قسم کے کہلاتے ہیں۔ خوابوں کی اس قسم میں دماغ کے لاشعور کا حصہ اپنے شعور والے حصے کی مدد کرنے کے لئے بڑا پرسکون ہو کر کسی خاص مسئلہ کا حل دریافت کرتا ہے۔ وجود میں نہ آنے والی تصویر کو وجود بخشتا ہے، صفحہ قرطاس پر رقم نہ ہونے والی نظم ترتیب دیتا ہے۔

سائنسی مسئلہ کا جواب بن کر زندگی کے پیچ وخم سے الجھن سے محفوظ رکھتا ہے اورکبھی بھید سے پردہ اٹھا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو آپ کو ایسے بے شمار واقعات ملیں گے جن میں لوگوں نے اپنے خوابوں کے ذریعے زندگی کی حقیقت میں رنگ بھرے ہیں۔ میں آپ کو اس کی مثالیں پہلے دے چکا ہوں۔ اسی طرح انسولین اور پنسلین ایجاد ہوئی۔ چوتھی قسم کے خواب مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق آگاہی دیتے ہیں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے قرآن پاک میں خواب کا ذکر کیا گیا ہے کہ آنے والے سات سالوں میں عرب کے اس علاقہ میں قحط سالی ہو گی وغیرہ وغیرہ… ایسے خواب عام لوگوں کی چشم سے اوجھل رہتے ہیں بلکہ جو لوگ روحانی طور پر قدرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہ ایسے خواب دیکھنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

خوابوں کی ایک ایسی قسم بھی ہے جسے Lucid Dream کہتے ہیں۔ خواب کی یہ شاخ بذاتِ خود بہت طویل اور بحث طلب ہے لیکن میں اختصار سے کام لیتے ہوئے بتانا چاہوں گا کہ یہ ایسے خواب ہیں جو ہم اپنی مرضی سے اپنی پلکوں تک لے آتے ہیں یعنی ہم جیسا خواب دیکھنا چاہیں ہم اسی طرح دیکھ لینے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، بھارت میں کئی یوگی دن رات محنت کر کے ایسے خواب دیکھنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں۔ آج کل سائنس کوشش میں مصروفِ کار ہے کہ ہم کچھ اس طرح سے دماغ کو سوتے ہوئے متحرک کریں کہ ہماری منشاء کے عین مطابق فلم چلنے لگے۔ سوچئے کس قدر دلچسپ امر ہو گا کہ جو کام ہم حقیقی زندگی میں انجام دینے سے معذور ہوں گے۔

انہیں خواب میں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنا لیں گے۔ دیکھئے خیال وخواب میں بنیادی امتیاز یہ ہے کہ خیال میں آپ خواب جیسا تصور حاصل کر لیتے ہیں لیکن جسمانی طور پر اسے محسوس کرنے کی صلاحیت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ مثلاً سمندر کے پانی کا گیلاپن ہم چھو نہیں سکیں گے لیکن خواب میں دکھائی دینے والے سمندری کھارے پانی کو آپ اپنے ہاتھ کی پوروں میں محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ کو آگ کی تپش سے لے کر برف کی یخ بستگی تک سب کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حقیقی ہو۔ اس لئے Lucid Dream کے بہت سے فوائد ہو سکتے ہیں۔

خواب میں دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہاں واقعات کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب تر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وقت ساکت ہو جاتا ہے یعنی آپ پانچ منٹ کے خواب میں برسوں کے یارانے گزار دیتے ہیں۔ بچے سے جوان ہو کر بڑھاپے کو اپنی کھال کی تہہ در تہہ سلوٹوں میں اترتا محسوس کرتے ہیں اور یہ سب جسمانی طور پر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیالی لہریں دماغ میں خواب بننے کا سبب بنتی ہیں۔ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔

گویا رات بھر کے چند خوابوں میں ہم کتنے جیون بتا دیتے ہیں۔ لیوسڈ ڈریم دیکھنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب تک  آپ نیند کی آغوش میں چلے نہیں جاتے، آپ کسی خیال کو لے کر دماغ میں اس قدر شدت پیدا کریں، خیال کی چاشنی کو گاڑھا کریں اور اس کیفیت کو خود پر طاری کر لیں، اور سو جانے کی بھی یہ شرط ہے کہ سوتے ہی نیند کے ریم والے حصے میں داخل ہو جائیں۔

اگر ایسا ہو جائے تو ہمارا خیال (نیند کے اس حصے میں جو خواب بننے کا حصہ ہوتا ہے) خواب میں تبدیل ہو جائے گا اور ہماری خواہشات، خوف یا کسی جذباتی کیفیت کے نتیجے میں اپنی ایک واضح شکل کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا۔ شاید اس لئے نیند بھی انسان کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ وہ حالت نیند میں ہی خواب بن سکتا ہے۔ خواب کی اس کیفیت میں اس کے دماغ میں بہت سے تخلیقی اور نادر ونایاب خیالات جنم لیتے ہیں جنہیں بعدازاں وہ عملی جامہ پہنا کر کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔