فنکاروں کا ماہ ستمبر یا ستم گر

م ش خ  جمعـء 23 ستمبر 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

ہالی وڈ ، بالی وڈ میں آج بھی عمر رسیدہ اداکاروں کے فنی نچوڑ کو دیکھتے ہوئے ان کے تجربات کی بنا پر ان شخصیات پر کردار تخلیق کیے جاتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں سینئر فنکاروں کی بے قدری کا یہ عالم ہے کہ نوجوان نسل کو معلوم ہی نہیں کہ ہمارے ہاں کیسے کیسے ہیرے تراشے گئے ، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ شوبزنس ایک وسیع میدان کی حیثیت سے برقرار رہا مگر نوجوان نسل تو درپن، سنتوش، سدھیر، اکمل، کمار جو آج گمنامی کا شکار ہیں جن کی ذمے داری تھی انھوں نے کبھی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

یہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ کیسے کیسے انمول لوگ اس انڈسٹری سے چلے گئے۔ ماہ ستمبر نے ستم گر کی حیثیت اختیار کی۔ ستمبر کے مہینے میں ہدایت کار خلیل قیصر، گلوکارہ نسیم بیگم، اداکار ساقی، کمال ایرانی، یوسف خان، گلوکار حبیب ولی محمد، اسد جعفری اور لہری قابل ذکر ہیں۔ گلوکارہ نسیم بیگم اپنے وقت کی عظیم گلوکارہ تھیں یہ وہ زمانہ تھا جب گلوکارہ نور جہاں شہرت کی سیڑھی پر رواں دواں تھیں پھر نسیم بیگم بہار لیے انڈسٹری میں آگئیں اور انڈسٹری میں چھا گئیں۔ 1965 میں ان کے اس قومی گیت نے انھیں وجہ شہرت دی اور وہ پاکستانیوں کے دل میں رچ بس گئیں:

اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویروں

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

ان کا خاندانی پس منظر بہت اعلیٰ تھا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ امرتسر سے ہجرت کرکے پاکستان آئی تھیں، مگر تاریخ میں کچھ جگہ ان کی ہجرت لکھنو بتائی گئی۔ نسیم بیگم پاکستان کے معروف پبلشرز دین محمد کی اہلیہ تھیں جو اس زمانے میں اشاعت کی دنیا کا بڑا معتبر نام تھا۔

زچگی کے دوران دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث وہ شہید ہوئیں۔ مرحومہ نے شوہر دین محمد کے علاوہ 3 بیٹیاں اور 3 بیٹوں کو سوگوار چھوڑا۔ فلم ’’بے گناہ‘‘ جس کے موسیقار شہریار تھے، نے نسیم بیگم کو روشناس کرایا اور ان کو شہرت کی بلندیوں پر لے جانے والے یہ گیت تھے ’’مکھڑے پہ سہرا ڈالے‘ آ جا او آنے والے‘‘ یہ گیت آج بھی شادی بیاہ کی جان ہے۔ پھر سلیم رضا آنجہانی کے ساتھ یہ گیت:

کہیں دو دل جو مل جاتے

بگڑتا کیا زمانے کا

فلم ’’اولاد‘‘ کا یہ گیت ’’نام لے لے کر ہم تو جئے جائیں گے‘‘ سلیم رضا کے ساتھ یہ گیت ’’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘ اداکار آزاد بھارت کے شہر دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، 1968 میں ناظم آباد نمبر 4 ہادی مارکیٹ کے قریب رہا کرتے تھے۔ اداکار آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور تھے انسگو عربیا اسکول دہلی سے میٹرک کیا، اسی اسکول سے سابق صدر پرویز مشرف اور ضیا الحق نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ پہلی فلم ’’پنا‘‘ تھی۔ پاکستان آ کر کندن میں کام کیا، اسلام آباد کے ایک مقامی بڑے ہوٹل میں آزار اور اداکار محمد علی ٹھہرے ہوئے تھے۔

راقم بھی صحافتی ذمے داری کے باعث وہیں ٹھہرا ہوا تھا۔ روز رات کو ملاقات ہوتی تھی۔ وہ کسی فلم کے سنسر کے حوالے سے آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے محمد علی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بتایا کہ م۔ش۔خ نوٹ کرلو علی میاں کی شادی زیبا کے ساتھ میرے 4 نمبر کے کمرے میں ہوئی تھی اور نکاح قاضی احتشام نے پڑھایا تھا اور مہر کی رقم 37,500 تھی۔

اس پر ہم تینوں بہت ہنسے اور ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ فلم ’’تم ملے پیار ملا‘‘ کی شوٹنگ چھوڑ کر دونوں میرے گھر آگئے کہ ہماری شادی کرا دو۔ ہدایت کار خلیل قیصر مرحوم کو 21 ستمبر 1966 میں چند نامعلوم افراد نے انھیں گھر میں گھس کر قتل کردیا تھا، ان کی سپر ہٹ فلموں میں شہید، فرنگی، ناگن، حکومت قابل ذکر تھیں۔ فلم ’’پورٹ سعید‘‘ کی شوٹنگ کے دوران انھیں شہید کردیا گیا اور پھر قاتل ہمیشہ کی طرح نہ مل سکے۔

جیسے سلطان راہی مرحوم کے نہ ملے۔ معروف صحافی اور سپرہٹ اداکار اسد جعفری مرحوم (جو میرے استاد تھے) آرمی میں کمیشنڈ افسر رہے تھے اور شوبزنس کی دنیا میں بڑا معتبر نام تھا، تقریباً سو فلموں میں اداکاری کی وحید مراد، محمد علی کے گہرے دوستوں میں شمار ہوتے تھے مجھ خاکسار پر بحیثیت استاد کے بہت احسانات تھے اور مجھے محمد شاہد خان کے علاوہ م۔ ش۔ خ کا نام انھوں نے تجویز کیا تھا ۔

گلوکار حبیب ولی محمد کا تعلق میمن فیملی سے تھا ان کے والد کا نام ولی محمد تابانی تھا۔ ولی محمد نے امریکا سے مارکیٹنگ میں MBA کیا تھا، ان کی وجہ شہرت بہادر شاہ کی غزل ’’لگتا نہیں ہے دل میرا‘‘ تھی ان کے مشہور گیتوں میں آج جانے کی ضد نہ کرو، اے نگار وطن تو سلامت رہے، راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار ۔ ان کے بڑے بھائی اشرف تابانی سندھ کے گورنر بھی رہے۔ گلوکار حبیب ولی محمد 4 ستمبر 2014 میں رب کی طرف لوٹ گئے۔

اداکار یوسف خان کی پہلی فلم پرواز تھی جو 1956 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اکثر ایورنیو اسٹوڈیو میں ان سے ملاقات ہوتی تھی، بہت رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے اور ہندو کلچر کے سخت مخالف تھے۔

انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ پاکستان میں انڈین فلمیں ریلیز نہیں ہونی چاہئیں جب ان کی فلم ’’ضدی‘‘ سپرہٹ ہوئی تو بھارتی پروڈیوسر انت سنگھ نے انھیں اپنی پنجابی فلم ’’دل نہ توڑیں‘‘ میں ہیرو کے لیے کہا تو انھوں نے صاف انکار کردیا کہ ’’ میں پاکستانی ہوں اور صرف پاکستان میری پہچان ہے۔‘‘ انھیں اپنی فلم ’’ضدی‘‘ بہت پسند تھی۔ اداکار یوسف خان 19 ستمبر 2009 میں اپنے پرستاروں کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔

اداکار ساقی کا پورا نام عبداللطیف بلوچ تھا۔ پی ٹی وی کے سابق جی ایم عبدالکریم بلوچ مرحوم کے بڑے بھائی تھے ، مگر جی ایم کے بھائی ہونے کے ناتے کبھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں زبردستی کام کرنے کی کوشش نہیں کی ان کے والد گوار بچایا نے ایک عراقی عورت سے شادی کی تھی ان کے ہاں 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ساقی کی انگریزی بہت عمدہ تھی، اس بنا پر امریکی ہدایت کار رابرٹ نے جب فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کا آغاز کیا تو ساقی کو اپنے ہاں ملازمت دی اور یہی ان کی پہلی فلم تھی۔ ان کی پہلی شادی گھریلو خاتون سے ہوئی دوسری شادی پشتو فلموں کی سپر اسٹار یاسمین خان سے کی جو چند سال پہلے قتل کردی گئیں۔ یاسمین خان سے ان کی ایک بیٹی ہے۔ بڑے خوددار اور زندہ دل انسان تھے۔

اداکار لہری (سفیر) کی یادیں تو بہت ستاتی ہیں وہ کمال کے کامیڈین تھے۔ ہمارے ان سے بہت اچھے تعلقات تھے، ان کی فلم ’’انوکھی‘‘ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ جب وہ شوگر کی وجہ سے معذور ہوئے تو گلشن اقبال میں ایک بڑے اسٹورکے اوپر فرسٹ فلور پر رہتے تھے۔

وہاں اکثر جانا ہوتا تھا، صحبت کا ان کی یہ عالم تھا کہ اگر پندرہ دن نہ جانا ہوتا تو ہمارے گھر فون کردیتے کہ میاں کیا شادی کرلی ہے جو پرانی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے اور یوں ہم شرمندہ ہو جاتے۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ کراچی جم خانہ میں ایک تقریب تھی، میں بھی مدعو تھا، سابق صدر ضیا الحق مہمان خصوصی تھے، کھانے کے موقع پر مجھ پر نگاہ پڑی، سادگی کا یہ عالم تھا ان کا کہ اپنی حیثیت کو بالائے طاق رکھ کر میرے پاس چلے آئے۔

پوچھا ’’ کیسے ہو؟ ‘‘ میں نے کہا ’’ آپ کی دعا ہے‘‘ کہنے لگے کہ ’’ آپ اتنا ہنساتے کیوں ہیں؟‘‘ میں نے برجستہ کہا کہ ’’ میں قسم کھانے کو تیار ہوں، محترم میں نے کبھی کسی سے التجا نہیں کی کہ آپ ہنسیں، اب اگر وہ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو محترم جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ اس جملے پر بہت ہنسے میں نے برجستہ کہا کہ ’’ میں نے آپ سے کہا ہے کہ آپ ہنسیں‘‘ آخری ایام میں شوگر کی وجہ سے بہت تکلیفیں اٹھائیں اور پھر 13 ستمبر 2012 میں اپنے پرستاروں کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔