آبی وسائل کا تحفظ…

عینی نیازی  اتوار 23 مارچ 2014

مجھے ہمیشہ سے پانی کی یہ خاصیت بہت بھلی لگتی ہے کہ یہ ہر میلی اور گندی شے کو صاف اور پاک کر دیتا ہے۔ قدرت نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ اسے جس رنگ میں ملایا جائے وہ اسی میں رنگ جاتا ہے، اس میں کوئی انا نہیں، کوئی تکبر نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت انسان اسے بھی اپنے اختیار میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پانی جیسی اہم ضرورت پر قبضے کی کہانی بہت پرانی ہے۔ جو لوگ دنیا کے تمام وسائل اپنے قبضے میں رکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، وہ اس بات سے ضرور آگاہ ہیں کہ پانی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں تو اوائل اسلام کے زمانے میں بھی مسلمان و دیگر قبائل کے لوگ کس طرح پانی کے حصول میں سرگرداں رہتے تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت بیحد مشہور ہے، جس میں انھوں نے مکہ کا سب سے بڑا (آبی ذخیرہ) کنواں ایک یہودی سے منہ مانگے داموں خرید کر اسے بلا تفریق مذہب تمام مکہ والوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بابرکت شہر مکہ کو آب زم زم کا معجزہ عطا فرمایا، جس کے شفا بخش پانی سے سیکڑوں انسان تا قیامت مستفید ہوتے رہیں گے۔ حضرت انسان نے بھی ہمیشہ پانی کے قریب نئی بستیاں بسائیں کہ آب اور حیات کا سلسلہ دنیا کی بقا کے لیے لازم و ملزوم ہے۔

22 مارچ کو پوری دنیا میں آبی وسائل کا دن منایا گیا، اس دن پانی کے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کے لیے ورلڈ فورم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کو صاف پانی مہیا کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا اجتماع ’’ورلڈ واٹر فورم‘‘ کا اجلاس ہر تین سال بعد ہوتا ہے۔ اس فورم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں   180ممالک کے  20,000ہزار افراد حصہ لیتے ہیں، جن میں 90 وزراء، 250 ارکان پارلیمنٹ، سائنس دان اور پانی فروخت کرنے والے پیشہ ور شامل ہوتے ہیں۔ 2009ء میں اس کا اجلاس ترکی کے شہر مارسیلی میں ہوا، جب کہ 2012ء میں ہونے والے آخری اجلاس کی میزبانی فرانس کے حصے میں آئی تھی۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آیندہ آنے والی دہائیوں میں ملکوں کے درمیان جنگیں آبی وسائل کے حصول کے لیے ہوں گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر گمبھیر مسئلہ ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، جہاں خون پانی سے بھی ارزاں ہو گیا ہو، وہاں عوام مستقبل کی منصوبہ بندی پر کس طرح نظر رکھ سکتے ہیں۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک آنے والے دنوں کی جامع حکمت عملی میں مصروف عمل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ترقی پذیر ممالک کے آبی ذخائر پر قبضے کی کوششیں بھی جاری ہیں، جس طرح اسرائیل نے فلسطین اور اردن کا پانی روک رکھا ہے، اسی طرح ہر سال بھارت پاکستان کے آبی حصے پر ڈاکا ڈالتا رہا ہے۔

آج کی دنیا میں پانی کے حوالے سے بہت گرما گرمی پائی جاتی ہے، خصوصاً وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں پانی کے مسائل نہیں وہ بھی دوسرے ترقی پذیر ممالک کے آبی ذخائر پر حریصانہ نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ یہ ترقی یافتہ ممالک ورلڈ بینک کے مضبوط رکن کی حیثیت رکھتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضے کی کڑی شرائط میں سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ غریب ممالک کی بقا کا دارومدار اسی قرضے اور غیر ملکی امداد پر ہوتا ہے، لہٰذا یہ کسی دبائو اور شرائط کو نہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ورلڈ بینک نے پانی کی نجکاری کی پالیسی متعارف کرائی ہے، جس کے تحت پانی کی پوری پوری قیمت وصول کی جائے گی۔ اس کی ایک مثال ورلڈ بینک نے  2005ء میں اپنے مقروض ملک بولیویا (جنوبی امریکا) میں ورلڈ بینک کے حکام نے حکومتی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی اور بولیویا کے تیسرے بڑے شہر ’’کوچاباما‘‘ میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے  25 ملین امریکی ڈالر قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔

شرط یہ رکھی گئی کہ حکومت جب تک پہلے پانی کے نظام کو نجی ملکیت میں نہیں دے دیتی اور اس کے اخراجات صارفین پر نہیں ڈالے جاتے یہ قرضہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ہونے والی نیلامی میں صرف ایک ٹینڈر کو منظور کیا گیا جس کی سربراہی بدنام زمانہ ایک بڑی انجینئر کمپنی کے پاس تھی، جس نے چین میں تین بڑے ڈیموں کی تعمیر میں بڑی کرپشن کی تھی لیکن ورلڈ بینک کے دبائو میں آ کر اس کمپنی کو کام سونپ دیا گیا۔ اس کمپنی نے ابھی کام شروع بھی نہیں کیا تھا کہ پانی کی قیمتیں دگنی کر دی گئیں، بولیویا کے عوام کے لیے اب پانی کا حصول غذا سے بھی مہنگا ہو گیا تھا، ان لوگوں کے لیے جو کم آمدنی رکھتے تھے یا جن کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ان کے لیے اس طرح زندگی گزارنا ناقابل برداشت ہو گیا، پانی کا بل ان کے گھریلو بجٹ کی آدھی رقم بہا لے جاتا۔

عوام کی زندگی مزید اجیرن بنانے کے لیے ورلڈ بینک نے مراعات یافتہ طبقے کو پانی کے نرخ مقرر کرنے کا مکمل اختیار دے دیا، نیز حکومت کو تنبیہہ کی گئی کہ اس کو قرض دی گئی رقم پانی کے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی، کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والے پانی کو خواہ وہ کمیونٹی کنویں سے ہی کیوں نہ نکالا گیا ہو، اس کے حصول پر پابندی لگا دی گئی۔ ان تمام شرائط کی ورلڈ بینک یہ دلیل دیتا ہے کہ غریب حکومتیں اکثر بدعنوانی کا شکار رہتی ہیں، لہٰذا غریب عوام کو پانی کے نظام کو بہتر طور پر چلانے کے موثر انتظام اور آلات سے قاصر رہتی ہیں، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک سرمایہ کاری اور ہنر کے نئے راستے کھولتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پانی کی قیمت میں اضافے سے غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پانی کے حوالے سے ورلڈ بینک نے جو کڑی شرائط رکھ کر ترقی پذیر ممالک کو اپنے بس میں کیا ہوا ہے، اس میں ارجنٹائن، کولمبیا، چلی، ایکواڈور، مراکش اور فلپائن شامل ہے۔

اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو ہم بھی اس وقت ورلڈ بینک کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ ورلڈ بینک ہمارے آبی وسائل کی بابت فیصلے کرنے کا مجاز ہو۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی بھی ہے کہ پاکستان اپنے بیش بہا وسائل کے باوجود مشکلات کا شکار ہے، جب بارش نہ ہو تو ہم قحط سالی کا شکار ہو جا تے ہیں اور اگر باران رحمت برس پڑے تو ہم اس ذخیرے کو محفوظ کرنے کے بجائے سیلاب کے ہاتھوں ہلاکتوں سے پریشان ہوتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت کو موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بھارت ہمارے آبی وسائل پر قابض ہونے کے لیے درجنوں ڈیمز بنا رہا ہے تا کہ ہماری زرعی زمینوں کو بنجر کر سکے۔ ہمارا ملک جو سات دریائوں کی سر زمین ہے، اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی جانب ہمیں خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے با عث آیندہ آنے والے برسوں میں آبی مسائل کی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔