مرزا غالب کا کراچی

حامد ولی  بدھ 19 اکتوبر 2022
کراچی میں ماضی کے ہندوستان کے تمام رنگ موجود ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی میں ماضی کے ہندوستان کے تمام رنگ موجود ہیں۔ (فوٹو: فائل)

آج نجانے کیوں عالم ارواح کی فضا سوگوار سی تھی۔ اتنی اداسی تھی کہ اردو کے پہلے مزاح گو شاعر کہلانے والے ’’جعفر زٹلی‘‘ کو بھی کوئی ایسا مصرعہ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اس فضا کو تبدیل کیا جاسکے۔ ’’سودا‘‘ قصیدہ کہنے سے قاصر تھے تو ’’میر‘‘ کی غزل ان سے روٹھی ہوئی تھی۔ ’’مومن‘‘ شطرنج کی بازی لگانا بھول گئے تھے۔

ہاں ایک صاحب ایسے تھے جو ان سب سے بے نیاز اپنی ہی کسی سوچ میں غرق تھے۔ ’’مرزا اسد اللہ خاں غالب‘‘ کو رہ رہ کر اپنا ہندوستان یاد آرہا تھا۔ آج انہیں ’’استاد ذوق‘‘ بھی برے نہیں لگ رہے تھے۔ ’’ذوق‘‘ کچھ بھی تھے لیکن تھے تو ان کی ’’دلی‘‘ کے ہی ناں۔

ہندوستان سے آنے والی خبریں ایسی تھیں کہ سب ہی اداس تھے۔ ان کے ہندوستان میں آج کل نفرت کا بول بالا تھا۔ جنونیت اپنے عروج پر تھی۔ ان کو ایسا لگتا تھا کہ اب اگر وہ ہندوستان گئے تو انہیں وہاں اپنی شناخت تک نہیں ملے گی۔ لیکن وہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان کے تمام رنگ دیکھنا چاہتے تھے اور ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ایسا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔ اسی عالم میں انہوں نے بکھرے بالوں والے ایک شخص کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ یہ شخص انہیں اپنی مانند نظر آرہا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ’’انیس‘‘ سے پوچھا کہ ’’حضور، ان کی تعریف؟‘‘

’’ارے! نوشہ میاں، یہ ’جون ایلیا‘ ہیں۔ میاں جون، یہاں آؤ! دیکھو یہ اپنے ’’مرزا صاحب‘‘ اداس ہیں۔ یہ اپنا ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب تم ہی کوئی مشورہ دو ان کو۔‘‘

جون ایلیا نے ایک لمحے سوچے بغیر ہی کہا کہ قبلہ آپ کراچی کی طرف نکل جائیے، وہاں آپ کو ہندوستان کے تمام رنگ نظر آجائیں گے۔ اردو کے مختلف لہجے، اودھ کی شام، دلی کے چٹخارے، الہ آباد کی ندیاں، لکھنئو کا محرم، گجرات کی تجارت، راجھستان کی تعمیرات، لکھنئو کی تہذیب، بنارس کے پہناوے، امروہہ کا علم، دکن کی سوغاتیں، مراد آباد کے پیتل کے کاریگر، رام پور کے اکھڑ پٹھان اور اجمیر کی وضع داری، سب کچھ ہی تو کراچی میں موجود ہے۔

’’تو یہ ہے کراچی! دیکھنے میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا جو اس برخوردار جون نے بتایا تھا۔‘‘ مرزا غالب بندر روڈ پر خراماں خراماں چلتے خود کلامی کررہے تھے۔ انہیں کراچی ایسا نظر نہیں آرہا تھا جس طرح جون ایلیا نے بتایا تھا۔ لیکن وہ سوچ رہے تھے کہ جون نے کہا ہے تو سچ ہی ہوگا۔

وہ کراچی کے بے ہنگم ٹریفک سے بچنے کی کوشش کررہے تھے کہ انہیں آواز آئی ’’دہلی کالونی، بنارس، علی گڑھ، حیدرآباد کالونی‘‘۔ کوئی شخص ایک بڑی سی گاڑی میں سوار زور زور سے چیخ کر یہ آوازیں لگارہا تھا۔ وہ حیران تھے کہ یہ کراچی میں ہندوستان کے اتنے شہر کہاں سے آبسے ہیں۔ پھر انہیں علم ہوا کہ یہ کراچی کی آبادیاں ہیں جو آج بھی ہندوستان کے شہروں کے نام پر آباد ہیں اور کوئی ان کے نام تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ انہیں پہلی مرتبہ کراچی اپنا اپنا محسوس ہوا۔ انہوں نے تو سنا تھا کہ ہندوستان میں تو اب تمام شہروں کو بھی ’’ہندو‘‘ کیا جارہا ہے۔ نفرت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ انہیں ’’کراچی‘‘ نام کی بیکری بھی قبول نہیں اور یہاں دل اتنے بڑے ہیں کہ فخریہ دکانوں پر لکھا ہے کہ میرٹھ کے کباب، دلی کی ربڑی، بنارس کی ساڑھی اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔

مرزا صاحب اب کراچی سے مانوس ہونے لگے تھے۔ انہیں یہاں کی سڑکوں پر پڑے گڑھے بھی اب برے محسوس نہیں ہورہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ گڑھے سڑکوں پر سہی اس شہر کے باسیوں کے دلوں میں بالکل نہیں پڑے ہیں۔ وہ یہاں کسی سے کوئی پتا پوچھتے تو ہر کوئی ’’چچا‘‘ کہہ کر انہیں منزل تک پہنچانے کےلیے تیار نظر آتا تھا۔ وہ کراچی کے بارے میں جان رہے تھے۔ ان کو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ دو تین دہائیوں میں اس شہر میں ہزاروں افراد قتل ہوچکے ہیں۔ وہ اس کا ذمے دار سیاست کو سمجھ رہے تھے، کیونکہ یہ شہر تو ان کو ماں کی طرح لگ رہا تھا جو تکلیفیں خود اٹھاتی ہے لیکن بچوں کی راحت کےلیے اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ بے شک یہاں ہزاروں لوگ قتل ہوگئے ہیں لیکن قاتل اس شہر کی محبت کو قتل کرنے میں ناکام ہیں۔

وہ ایک عمارت کے سامنے کھڑے بورڈ کو دیکھ رہے تھے جس پر جلی حروف میں ’’غالب لائبریری‘‘ لکھا تھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’اچھا تو یہ کراچی والے مجھے بھی نہیں بھولے ہیں۔‘‘ وہ یہاں دلی کی ’’ٹکسالی‘‘ اردو بھی سن رہے تھے اور لکھنؤ کی ’’مرصع‘‘ اردو بھی۔ انہیں یہاں وہ مخصوص پہناوے بھی نظر آرہے تھے جو وہ ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں آرہا تھا کہ ہندوستان کے 500 شہر برباد ہوئے تھے تو یہ کراچی بسا تھا۔

ان کی اداسی کب کی رفع ہوچکی تھی۔ وہ کراچی کو محسوس کررہے تھے۔ یہاں بے شک مسائل تھے۔ جہانگیر روڈ پر سفر کرتے ہوئے ان کی کمر میں چک بھی پڑگئی تھی۔ ملاوٹ والا دودھ پی کر طبعیت بھی کچھ ناساز رہی تھی۔ جگہ جگہ پھینکی گئی پان کی پیک بھی ان کو ناگوار گزری تھی۔ وہ پولیس کا شہریوں کے ساتھ جوڑ توڑ بھی دیکھ رہے تھے۔ گرمی کے ستائے لوگوں کو ایک کمپنی کو کوستے ہوئے بھی سن رہے تھے۔ انہیں پانی بھی خرید کر پینا پڑرہا تھا لیکن وہ جان گئے تھے کہ ہندوستان کی اصل تہذیب یہیں زندہ ہے۔

انہیں دوبارہ عالم ارواح سے بلاوا آرہا تھا۔ دل تو نہیں کررہا تھا کہ کراچی چھوڑ کر جائیں لیکن جانا تو تھا۔ وہ اس وقت غالب لائبریری کے سامنے ایک بچے کے ساتھ موجود تھے، جو بڑی حیرت سے ان کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس سے گویا ہوئے۔ ’’برخوردار مجھے پہچانتے ہو؟‘‘

’’نہیں چاچا! میں نے آپ کو پہلے کہیں نہیں دیکھا۔‘‘

’’ہاں میاں! نہیں دیکھا ہوگا لیکن شاید کبھی پڑھا ہو یا پھر آگے چل کر کبھی پڑھو گے۔ تمہارے پاس کچھ وقت ہے تو بیٹھو میرے پاس۔‘‘ ان کے کہنے پر وہ بچہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔

’’بیٹا! میری باتیں غور سے سننا۔ میں اسداللہ خان غالب ہوں۔ میں نے دلی اجڑتے دیکھی ہے۔ میں نے دربار لٹتے دیکھا ہے۔ میں نے بادشاہوں کو فقیر ہوتے دیکھا ہے۔ یہ آنکھیں ایک زمانہ دیکھ چکی ہیں۔ میں نے بڑے شہر دیکھے ہیں لیکن تمہارا کراچی جیسا ایک شہر نہیں دیکھا۔ برخوردار! یہ صرف کراچی نہیں ہے، اب یہ دلی بھی ہے، آگرہ بھی ہے، الہ آباد بھی ہے، مراد آباد بھی ہے، شاہجہاں پور بھی ہے، رام پور بھی ہے، لکھنؤ بھی ہے، امروہہ بھی ہے۔ میرے بچے یہ صرف کراچی نہیں، یہ اب ہندوستان کی تہذیبی میراث ہے۔ یہ مرزا غالب کی گمشدہ دلی ہے۔ یہ انیس کا کھویا ہوا لکھنؤ ہے۔ یہ اکبر الہ آبادی کا بچھڑا ہوا الہ آباد ہے، یہ جگر کا مراد آباد ہے۔ لاکھ مشکلیں آئیں اپنی محبت کو جواں رکھنا ہے۔ اس کو ہمیشہ آباد رکھنا ہے۔ کیونکہ اب اس سے ہمارے دل آباد ہیں۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حامد ولی

حامد ولی

بلاگر گزشتہ آٹھ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور کراچی پریس کلب کی رکنیت رکھتے ہیں۔ آج کل این این آئی کےلیے بطور اسٹاف رپورٹر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔