پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 29 اکتوبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

اوکاڑہ پنجاب کا تاریخی شہر ہے ، یہ لاہور کے جنوب مشرق کی طرف واقع ہے۔ اوکاڑہ کا لاہور اور فیصل آباد سے فاصلہ 100کلومیٹر ہے، یہ ملتان سے 200 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔

اوکاڑہ کی آبادی 2018 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق 357,935 ہے۔ اوکاڑہ آبادی کے اعتبار سے ملک کا 23 واں شہر ہے۔ اس علاقہ کی زمین زرخیز ہے۔

گندم، چاول ، کپاس اور مکئی پیدا کرتی ہے۔ اوکاڑہ میں ہزاروں ایکڑ پر محیط فارم ہیں، کاٹن اور جینی کے کارخانے ہیں۔ پھر ڈیری پروڈکٹس کو پروسیسنگ کرنے کے کارخانے بھی بن گئے ہیں ، فلور ملز بھی موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی دور میں اوکاڑہ ایک بڑا جنگل تھا۔

پھر یہ شہر دوبارہ تعمیر ہوا۔ پہلے اوکاڑہ ساہیوال کا حصہ تھا مگر 1982میں اوکاڑہ کو ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ اوکاڑہ کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ اسپتال اوکاڑہ کے علاوہ کئی غیر سرکاری اسپتال ہیں۔ اوکاڑہ کنٹونمنٹ کو ملک کا سب سے بڑا کنٹونمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کنٹونمنٹ اسپتال بھی موجود ہے۔

گزشتہ دنوں اوکاڑہ میں ایک دو سالہ بچی گرم پانی سے جل گئی۔ اس بچی کے جسم کا ایک بڑا حصہ گرم پانی سے متاثر ہوا۔ بچی کے والد اوکاڑہ کے سرکاری اسپتال لے گئے مگر وہاں جلنے کے امراض کے علاج کا انتظام نہ تھا ۔ یہی صورتحال دیگر پرائیوٹ اسپتالوں کی بھی ہے۔ بچی کے والد کے پاس لاہور جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔

جلنے کے امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مریض پہلے دو گھنٹوں میں اسپتال پہنچ جائے اور اس کا علاج شروع ہوجائے تو مریض کے صحتیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

بہرحال والدین کسی طرح اوکاڑہ سے لاہور پہنچ گئے ، وہ لاہور کے چار ٹیچنگ اسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈ میں آہ و زاری کرتے رہے مگر ڈاکٹر دیگر اسپتالوں میں جانے کا مشورہ دیتے رہے۔ یوں دن ختم ہوا اور رات گزرگئی۔

دوسرے دن کا سورج نکلا تو بچی کے والد نے کچھ بااثر افراد سے صورتحال بیان کی۔ ان بااثر افراد کی سفارش پر بچی کو اسپتال میں داخلہ ملا۔ اس واقعہ نے وزرائ، سابق وزیراعظم عمران خان کی صحت کی بہتر سہولتوں کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔

انسانی حقوق کمیشن جنوبی پنجاب کے کوآرڈینیٹر نذیر احمد کا کہنا ہے کہ لاہور کے بعد صرف ملتان کے نشتر یونیورسٹی اسپتال میں برنس وارڈ موجود ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور سے لے کر سندھ کی سرحد تک کسی بھی اسپتال میں برنس وارڈ موجود نہیں ہے۔

عمران خان کی حکومت نے صحت کی سہولتیں مفت فراہم کرنے کے لیے صحت کارڈ کی اسکیم شروع کی۔

اس اسکیم کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ کارڈ ہولڈر کے لیے سرکاری اسپتالوں کے علاوہ غیر سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج کی سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی مگر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ لاہور سے رحیم یار خان تک بہت کم لوگوں کو صحت کارڈ ملا۔

ایچ آر سی پی کے کوآرڈینیٹر نذیر صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت اور انشورنس کمپنی کے درمیان معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ مخصوص امراض کا علاج اس کارڈ کے ذریعہ ہوگا۔ اس اسکیم میں حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کا علاج ممکن نہیں ہے ، صرف مخصوص امراض کا علاج ہوتا ہے۔

پنجاب میں ٹریفک کے حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے مگر صحت کارڈ رکھنے والے افراد کی دادرسی نہیں ہوتی۔ لاہور میں شعبہ صحت کو کور کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ لاہور اور اطراف میں نیشنل ہائی ویز کے علاوہ اندرون سڑکوں پر روزانہ خون ریز حادثات ہوتے ہیں مگر غریبوں کے لیے یہ کارڈ کسی کام کے نہیں ہیں۔

سابقہ حکومت نے اسپتالوں کی تعمیر اور پرانے اسپتالوں میں جدید سہولتوں کی فراہمی پر توجہ نہ دی بلکہ انشورنس کمپنیوں سے منہ مانگی قیمت پر معاہدے کیے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسپتالوں پر توجہ نہ دینے کی بناء پر ان کے ہاں فراہم کی جانے والی سہولتیں ناکافی ہیں۔

پرویز الٰہی، شہباز شریف اور بزدار کے ادوار میں پنجاب میں صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیے گئے وعدے محض وعدے ہی رہے۔ وسیب کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عابد علی کا بیانیہ ہے کہ بہاولپور کے علاقہ احمد پور شرقیہ میں 25جون 2017 کو قومی شاہراہ N-5 پر ایک آئل ٹنکر الٹ گیا تھا۔

اس آئل ٹینکر سے بہنے والے تیل سے لگنے والی آگ سے 219 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال میں ایک جدید برنس وارڈ تعمیر کیا جائے گا مگر بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ایک زمانہ میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں متحرک تھیں۔ وہ پی ایم اے کے مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد عمومی طور پر پنجاب میں صحت کی سہولتوں کے تناظر میں بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں مگر ان کی ناک کے نیچے لاہور کے چار ٹیچنگ اسپتالوں کے ڈاکٹر ایک زخمی بچہ کو اسپتال میں داخل کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ ان ڈاکٹروں کے پاس اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ساری دنیا میں تو مریض کو اسپتال میں داخل نہ کرنا یا فوری علاج نہ کرنا سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔

مگر محترمہ نے اتنے بڑے واقعے کے بعد صرف اس بات پر توجہ دی ۔ جب ذرائع ابلاغ پر اس افسوس ناک واقعہ کا ذکر ہوا تو پنجاب حکومت نے صرف یہ فیصلہ کیا کہ سال میں اسپتال میں جلنے والے بچوں کے علاج کے لیے 10بیڈ مختص کرنے کا فیصلہ کیا مگر یہ اعلان اتنے بڑے صوبہ کے لیے ناکافی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ’’صحت سب کے لیے‘‘ کے تناظر میں پنجاب میں صحت کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں سرکاری اسپتالوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کی بناء پر ڈاکٹروں میں عدم اعتماد کی فضاء پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے ٹیچنگ اسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے کی ہڑتال عام سے بات بن کر رہ گئی ہے۔

عمران خان نے صحت کارڈ کو صحت کے مسائل کا حل جانا مگر اوکاڑہ سمیت مختلف شہروں میں رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولتیں محض انشورنس کمپنیوں کے طفیل فراہم نہیں ہوسکتیں، ہر عام آدمی کو اس کی عزت نفس کی آبرو کے ساتھ صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے سرکاری شعبہ کو بھی فعال کرنا ہوگا۔

پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ اسپتال میں جدید سہولتوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کے ساتھ تربیت یافتہ پیرا میڈیکل عملے کی دستیابی کے لیے صحت کے بجٹ میں 40 فیصد اضافہ ناگزیر ہے۔ یہ المیہ ہے کہ لاہور اور ملتان کے بعد ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، ساہیوال، مظفر گڑھ اور دیگر شہروں میں برنس وارڈ موجود نہیں ہے ، اگر پنجاب کی حکومت اس بچی کی تکلیف اور اس کے والدین کے درد کو محسوس کرے تو صحت کے بارے میں پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں کرے گی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد اپنے قائد کو لشکر کشی کی سیاست کے لیے آزاد چھوڑ دیں اور اپنی ساری توجہ پنجاب کے عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر دیں تو پھر کوئی معصوم بچی علاج کے لیے ماری ماری نہیں پھرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔