بے خطر صحافت

وارث رضا  اتوار 6 نومبر 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

مجھے نہیں پتہ کہ ’’خطروں کے کھلاڑی ‘‘کی اصطلاح کس پس منظر میں لائی گئی تھی مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ پاکستان اور ترقی پذیر ممالک میں آج کے جدید دور میں بھی ’’صحافی‘‘ سماجی سیاسی اور معاشی خطرات کا نشانہ بنا رہتا ہے اور اکثر بے خطر ہو کر خبر کی تلاش میں خود سب کے لیے خبر بن جاتا ہے۔

دور کیوں جائیں حالیہ دنوں میں خبر بننے والے ایک معروف صحافی اور اینکر پرسن کی کینیا میں المناک موت کے دکھ میں ملکی صحافت درد و الم کی کیفیت سے گذر ہی رہی تھی کہ ایک اور خاتون صحافی لانگ مارچیوں کے کنٹینر تلے خود خبر بن گئی اور لانگ مارچ کے ذمے داران نے اس کے لواحقین کو اتنی آزادی تک نہ دی کہ وہ اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم اپنی مرضی و منشا ہی سے کروا لیں۔

صحافیوں کے اغوا ریاستی و سیاسی دہشت گردی کے واقعات اب ہمارے سماج میں ایسی بے معنی خبر کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں جو کہ پاکستان کی آزاد صحافت کے لیے مہلک اور اس کے مقدس کام کو داغدار کر رہے ہیں،سماج اور صحافتی اخبارات،چینل اور صحافتی تنظیمیں اب صحافیوں کے تحفظ سے اتنی لا تعلق ہوتی جارہی ہیں کہ دو روز قبل اسلام آباد کے انگریزی معاصر کے صحافی اور ان کی بیوی کو زبردستی اغوا کیا گیا اور اغوا کنندگان نے صحافی کی بیوی کو گاڑی سے نکال کرصحافی کو نا معلوم مقام پر لے گئے جب کہ اس تشویشناک صورتحال پر صحافی اور تنظیموں نے کسی خاص رد عمل کا اظہار تک نہ کیا۔

دوسری جانب افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مختلف ذاتی و گروہی مفادات میں بٹی صحافتی تنظیمیں فرائض پورے کرنے کی حد تک احتجاج اور مذمتی بیان سے آگے کچھ نہیں کر پارہی ہیں۔

صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے دو نومبر کو منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وائس آف امریکا کے نوجوان صحافی محمد ثاقب لکھتے ہیں کہ صحافیوں کے قتل جیسی سنگین وارداتوں میں 96 فی صد مقدمات میں ملزمان سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سزا سے استثنیٰ کا یہ تصور صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز‘‘ (آر ایس ایف) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کی گزشتہ سال حکومت کی نسبت آزادی اظہار میں کافی کمی دیکھی گئی جس کی وجہ سے اس کی عالمی رینکنگ 180 ممالک کی فہرست میں 145 سے مزید کم ہوکر 157 ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2022 کے دوران 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن قتل کے ان 53 واقعات میں سے صرف دو میں مجرموں کو سزا مل سکی۔ بقیہ 96 فی صد مقدمات میں ملک کا عدالتی نظام ہلاک ہونے والے صحافیوں اور ان کے سوگوار خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔

رپورٹ کے مطابق سچ بولنے اور لکھنے کی پاداش میں 53 صحافیوں میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں 16 صحافیوں کی ہوئیں جو کل واقعات کا 30 فی صد بنتا ہے۔ اس کے بعد صحافیوں کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جہاں 14صحافی مارے گئے، یوں صحافیوں کے قتل کے 26 فی صد واقعات رونما ہوئے۔

رپورٹ میں ہوشربا اور افسوسناک پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ صحافی کے قتل سے قبل جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے والے صحافیوں میں سے صرف 10 فی صد سے بھی کم نے اپنے میڈیا آجروں، پریس کلب، یونین یا مقامی حکام کو آگاہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ ان معاملات میں بھی جہاں پیشگی انتباہ دستیاب تھا، نظام اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہے۔

ریاستی تشدد کے شکار صحافیوں کے دو تہائی سے زیادہ مقدمات میں قانونی نظام کو لاگو کرنے کا عمل سوگوار خاندانوں پر ہی چھوڑ دیا گیا اور اسے ایک خاندان کا معاملہ بنا دیا گیا،جب کہ افسوسناک حد تک میڈیا تنظیمیں یا آجر، جن کے لیے صحافیوں نے حفاظت کے خطرات مول لیے تھے، کبھی بھی ہلاک ہونے والے صحافیوں کو انصاف دلانے کے عمل میں فریق نہیں بنے،جب کہ میڈیا ہاؤسز، اداروں اور پولیس کی صحافیوں کے قتل میں ہمیشہ عدم دلچسپی دیکھی گئی۔

وفاقی اور سندھ حکومتوں نے حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کو قانون کا حصہ بنایا ہے جس پر صحافتی تنظیموں کی جانب سے کافی حد تک اطمینان ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد ہونا اب بھی باقی ہے۔فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف جرائم، خاص طور پر صحافیوں کے قتل میں استثنیٰ کا خاتمہ، ملک میں حال ہی میں نافذ کیے گئے صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کے لیے ٹیسٹ کیس ہیں۔

وائس آف امریکا کے محمد ثاقب کا کہنا ہے کہ بہت سے صحافی جو خود جبری گمشدگی، اغوا اور تشدد جیسے واقعات کا شکار ہوئے، ان میں سے بیشتر انصاف کے حصول کے لیے نا امید نظر آتے ہیں۔

وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے راقم الحروف نے بتایا کہ میں نے ستمبرسن دوہزار اکیس میں اپنے گھر پر بغیر وارنٹ کے چھاپے، غیر قانونی گرفتاری اور تفتیش پر ہرممکنہ قانونی فورمز، عدالتوں اور اداروں سے رجوع کیا، لیکن 13 ماہ گزرنے کے باوجود بھی مجھے انصاف نہیں مل سکا اور آزادی اظہار سے روکنے والوں کو کوئی سزا نہیں مل سکی۔

میں نے سندھ ہائی کورٹ میں ’’جرنلسٹ پروٹیکشن بل‘‘ سندھ کے تحت بغیر وارنٹ بلا جواز ریاستی دہشت پھیلانے اور اہل خانہ کو خوف زدہ کرنے کے ساتھ اپنے اغوا پر آئینی درخواست دائر کی تھی۔ لیکن اس پر مزید کارروائی سندھ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے تحت اب تک قائم نہ ہونے والے کمیشن کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے پرعزم اور کوشاں ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی صحافت کا ہر لحاظ سے احترام کرتی ہے اور صحافیوں کی رائے کو مقدم سمجھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومت کی طرح صحافیوں کے حقوق سلب کرنے پر کسی صورت یقین نہیں رکھتی۔ تاہم بہت سے صحافی حکومتی رہنماؤں کے ایسے بیانات پر مکمل یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔