ریاستی بحران اور اتفاق رائے کا ایجنڈا

سلمان عابد  منگل 6 دسمبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پہلا اور بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہی ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مسئلہ محض قومی سیاسی بحران کا نہیں بلکہ ریاستی بحران سے جڑا ہوا ہے۔

یہ بحران آج کا پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہماری داخلی اور خارجی پالیسیوں ، فیصلوں اور طرز عمل سے متعلق ہے ۔ ہمیں اس سیاسی و ریاستی بحران کو کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے ۔

اس بحران کا حل بھی کسی ایک فریق کے پاس نہیں ہے بلکہ اس میں تمام فریقین کو اپنا اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت ریاستی اور سیاسی فریقین کے درمیان مقابلہ تدبر اور ذمے داری کا ہے جہاں افراد کے سامنے ذاتی مفادات کے مقابلے میں ریاستی اور معاشرتی مفادات اہم ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں نظام ہی الٹ ہے۔

فریقین کے ذاتی مفادات نے ریاستی مفادات پر بالادستی حاصل کرلی ہے۔ اس طاقت کی لڑائی میں جاری کشمکش کے کھیل نے ملک میں محاذ آرائی سمیت سیاست، معیشت، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نظام کو کمزور کردیا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے بڑے چیلنجز ہیں ۔ اول، سیاست میں محاذ آرائی سمیت سیاسی کشیدگی کو کیسے ختم کیا جائے۔

دوئم، کیا ہماری سیاسی قیادت سیاست اور معیشت سے جڑے مسائل پر مل بیٹھ کر مفاہمت کے لیے کچھ بنیادی نکات پر اتفاق کرنے کے لیے تیار ہے۔سوئم، آنے والے انتخابات کیسے ہونگے، کب ہونگے اورکیسے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی یا اتفاق کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرسکیں گے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پڑھے لکھے یا سنجیدہ افراد کی خواہش اپنی جگہ لیکن جو تلخ سیاسی حقایق ہیں ان کی موجودگی میں اس طرح کے ایجنڈے پرفریقین میں اتفاق کا ہونا انہونی یا ناممکن بات ہوگی ۔کیونکہ اس طبقہ کے بقول حالات جب سازگار ہی نہیں اور فریقین ایک دوسرے کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تو ان میں مفاہمت کا عمل کیسے ممکن ہوگا۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے آپ کو دنیا اور علاقائی ممالک کی سیاست اور معیشت میں بہت پیچھے کھڑا کرلیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک سمیت عالمی مالیاتی ادارے بھی ہم پر وہ مہربانیاں کرنے کے لیے تیار نہیں جو ہمیں درکار ہیں ۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کی جانب سے ڈکٹیشن کا سامنا ہے اور ہم پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ ان ہی کی ہدایت پر معاشی معاملات کو چلائیں وگرنہ تعاون ممکن نہیں ہوگا۔ حالانکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ وہ وزیر خزانہ بن کر نہ صرف آئی ایم ایف سے بھی اپنی شرائط منوالیں گے بلکہ ڈالر کی قیمت میں کمی ، مہنگائی اور پٹرول سمیت بجلی قیمتوں میں ریلیف کو بھی ممکن بنا دیں گے ۔

مگر اب لگتا ہے کہ ان کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ کوئی جادو چلنے والا نہیں ۔ ہم ایک گہری معاشی کھائی میں ہیں اور ہمیں باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ جو سخت گیر معاشی اصلاحات یا ادارہ جاتی ڈھانچوں میں جامع تبدیلی درکار ہے اس کے لیے ریاستی ذمے داران تیار نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی برملا کہہ رہا ہے کہ جب تک ہم لوگوں کو معاشی ریلیف نہیں دیں گے نئے انتخابات میں جانے کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔

ہمارے سیاسی ادارے جن میں سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی رسہ کشی میں پارلیمنٹ جیسا ادارہ غیر اہم ہوگیا ہے ۔ مجموعی طور پر پارلیمانی نظام پر ہی سوال اٹھائے جارہے ہیں اور یہ بحث بھی موجود ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس میں خود بگاڑ کے فریق بن گئے ہیں ۔

یہاں سیاسی تقسیم اس قدر گہری ہوگئی ہے کہ اس نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگ عقلی بنیادوں پر کم اور جذباتیت کی بنیاد پر زیادہ سیاسی محاذ پر ہم کو تقسیم نظر آتے ہیں ۔ یہ تقسیم محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس تقسیم نے سیاست سمیت دیگر اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم مجموعی طور پر اس تقسیم کی وجہ سے اپنے لیے زیادہ مسائل پیدا کررہے ہیں ۔

ہمیں بطور ریاست آگے بڑھنا ہے ۔ داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹ کر ملک کو محفوظ بنانا ہے ۔ اس کے لیے سب کو ہی سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔سیاسی اناپرستی اور سیاسی اندھی دشمنی کو ختم کرکے اپنے سیاست سے جڑے مخالفین کو بھی راستہ دینا ہوگا۔جو ہمارے علاقائی مسائل ہیں ان کو حل کرکے ہی ہم اپنی اہمیت کو بڑھاسکتے ہیں وہیں اپنے لیے کئی سیاسی اور معاشی مواقع پیدا کرسکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کا سیاسی ، انتظامی پوسٹ مارٹم کرنا ہوگا ۔

پوسٹ مارٹم سے مراد ہمیں اپنے داخلی مسائل یا پہلے اپنے گھر کے حالات کی درستگی کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی ۔ سیاسی بالادستی کی جنگ کو ختم کرکے قانون کی بالادستی اور آئینی دائرہ کار میں رہ کر مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دینا چاہیے ۔

لیکن کچھ معاملات ایسے سنگین ہیں کہ ہمیں بہت سے فیصلے جہاں سخت اور کڑوے یا سخت گیر کرنے ہیں وہیں ہمیں معاملات کو مختلف زاویوں سے دیکھ اور پرکھ کر ان کا متبادل حل یا راستہ تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ ہم مشکل میں اور مشکل حالات عملا ہم سے بڑے غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔

اس لیے ہمیں خود کو بھی جنجھوڑنا ہے اور دوسروں کو بھی جنجھوڑ کر اس نقطہ پر لانا ہوگا کہ ہمیں روائتی انداز سے مسائل کی طرف جانے سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ روائتی اور فرسودہ طورطریقے ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ حالات ہم سے کچھ بڑے تقاضے کرتے ہیں او رہمیں ریاستی بحران کو مدنظر رکھ کر بڑے فیصلوں کی طرف پیش رفت کرنی ہے ۔

پاکستان میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں سمیت اہل دانش کی بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس تقسیم سے بچ کو فیصلہ کرنے والی قوتوں یا افراد پر دباو کی سیاست کو بڑھائیں کہ وہ موجودہ بحران میں چھوٹے چھوٹے فروہی مسائل میں الجھنے کے بجائے ان حقیقی مسائل پر توجہ دیں جو ہمیں درکار ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اورکچھ کرکے دکھائیں وگرنہ حالات کے بگاڑ اور نقصان کے ہم ہی ذمے دار ہونگے او رہمارا ہی ہر سطح پر احتساب ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔