امریکا کا اونٹ پاکستان میں

وجاہت علی عباسی  اتوار 6 اپريل 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

بہت جلد امریکن عوام پاکستان سے شدید ناراض ہونے والے ہیں اور اس کی وجہ ایک اونٹ ہے، امریکا میں 2001 کے بعد سے خبروں میں اکثر طالبان کو ٹریننگ کرتے دکھایا جاتا ہے جہاں ان کے پاس امریکن آرمی کی طرح جدید اسلحہ اور گاڑیاں ہوتی ہیں وہیں اکثر ان کو دور تک پھیلی پہاڑیوں میں اونٹ اور گھوڑوں پر سفر کرتے بھی دکھایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ عرب کے پاس کتنا ہی پیسہ کیوں نہ ہو امریکن کو جب بھی کسی عرب کا تصور آتا ہے تو وہ یہ ہوتا ہے کہ عرب کسی کھجور کے درخت کے تلے بیٹھا ہے جس کے نیچے اس کا اونٹ بھی بندھا ہوتا ہے، کوئی ہندوستان میں رہتا ہے تو اس کے پاس ہاتھی ضرور ہوگا اور اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کے گھر کے آنگن میں اونٹ بندھا ہوگا۔ ایسی تصویر ہر امریکن کے ذہن میں ہے جسے بدلنا مشکل ہے۔ پاکستان اکثریت کے حساب سے دنیا کا تیسرے نمبر کا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور امریکنز کے حساب سے اتنے ہی اونٹ بھی پاکستان میں موجود ہوں گے۔

امریکا کو پاکستان سے نائن الیون کے بعد سے ویسے ہی بہت شکایتیں ہیں۔ ہم بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کی طرح پہنچے لیکن پتہ چلا کہ ہم کو ہی دلہا بنا دیا گیا۔ پرویز مشرف کی طبیعت آج خراب ہے لیکن ملک کی طبیعت انھوں نے ہمیشہ کے لیے اس وقت خراب کردی تھی جب کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے انھوں نے پاکستانی عوام کی بلی چڑھائی تھی۔

ہم لڑے بھی، مرے بھی، پھر بھی برے بنے۔ آخر کو بن لادن پاکستان سے ہی پکڑے گئے اور اسامہ کے پکڑے جانے کے بعد امریکا میں ان پر جو ویڈیو گیمز ریلیز ہوئے ان میں بھی اسامہ کے گھر کے آنگن میں اونٹ بندھا نظر آیا اور اب اونٹ ہی ہے جس کی وجہ سے امریکن ٹیکس دہندگان ہم سے ناراض ہونے والے ہیں۔

امریکا اپنی ایمبیسی کی نئی بلڈنگ اسلام آباد میں بنا رہا ہے، امریکا میں فرنیچر سے لے کر گاڑی تک ’’ڈسپوزایبل‘‘ سوچ سے بنائی جاتی ہے۔ ہر چیز کی زندگی زیادہ سے زیادہ پانچ سال، یہ ٹرینڈ فورڈ گاڑی کی کمپنی نے شروع کیا تھا، جب ہنری فورڈ کو احساس ہوا کہ زیادہ سے زیادہ گاڑیاں بیچنے کے لیے لوگوں کو باور کرانا ہوگا کہ ہر کچھ سال میں انھیں نئی گاڑی خریدنے کی ضرورت ہے اور اسی لیے اپنی اشیا کو اس کوالٹی کا بنانا ہے کہ انھیں جلد تبدیل کرنا پڑے۔

عمارتوں میں تبدیلیاں یا پھر انھیں پوری طرح توڑ کر نیا بنانے کا رواج بھی امریکا میں بہت ہے، اس لیے امریکنز کے لیے اسلام آباد میں بننے والی ایمبیسی کی نئی بلڈنگ کی خبر کوئی بڑی بات نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن پھر بیچ میں اونٹ آگیا۔

اسلام آباد میں بننے والی نئی امریکن ایمبیسی کی عمارت کے گارڈن میں ایک سفید رنگ کا اونٹ کا مجسمہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا، اسی طرح کا سفید اونٹ کیلی فورنیا ناپا ویلی میں امریکن امیگریشن آفس کے باہر بھی موجود ہے جس کی ہو بہو نقل اب اسلام آباد میں واقع امریکن ایمبیسی میں بھی نظر آئے گی اور یہی وہ اونٹ ہے جس کا مجسمہ لگانے سے پہلے ہی امریکن پریس پاکستان کے خلاف باتیں کرنا شروع ہوگیا ہے۔

امریکا کی مشہور ویب سائٹ ’’بزفیڈ‘‘ نے کچھ دن پہلے اس مجسمے کی بات کو اٹھایا جس کے بعد یہ خبر تیزی سے پھیل رہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اونٹ کی لاگت چار کروڑ روپے آرہی ہے جب کہ کیلی فورنیا میں لگا اونٹ اس سے زیادہ قیمتی ہے لیکن امریکن عوام کو یہ شکایت ہے کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے پاکستان میں اونٹ کیوں لگا رہے ہیں، پلاسٹک کا بنا اونٹ جس کی لاگت اتنی زیادہ ہے۔

پریس میں اس خبر کے آنے کے بعد امریکن ایمبیسی اسلام آباد نے چار صفحوں کا ایک Explanation لیٹر جاری کیا ہے۔ وہ لیٹر جو مزید ہمارے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے، لیٹر میں لکھا ہے کہ اونٹ لگانے سے امریکا پاکستانیوں کو یہ بتا پائے گا کہ وہ ان کے کلچر کے خلاف نہیں ہے، جہاں تک ہمارے کلچر کا سوال ہے تو اونٹ ہمارے یہاں یا تو قربانی کے وقت نظر آتا ہے یا پھر کراچی کے ساحل پر اس کے علاوہ اونٹ کی موجودگی سے ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، روزمرہ زندگی میں ایک پاکستانی اونٹ سے اتنا ہی واسطہ رکھتا جتنا کہ ایک امریکن۔

عام امریکن کے حساب سے پورا پاکستان طالبان ہے، جن کے گھروں میں اونٹ بندھا ہوتا ہے اور طالبان کو خوش کرنے کے لیے عام امریکن اپنے ٹیکس کا پیسہ اس اونٹ پر نہیں خرچ کرنا چاہتا ہے۔ لیٹر میں لکھا ہے کہ کیلی فورنیا والا اونٹ تو اس سے بھی کہیں زیادہ مہنگا ہے اور یہ چار کروڑ کی قیمت دراصل بہت اچھا بارگین ہے اور جو پیسہ نئی عمارت کی تعمیر کے لیے مختص کیا گیا ہے اونٹ کی قیمت اس کا صرف 5 فیصد ہے۔

لیٹر آف ایکسپلینیشن بیشتر لوگوں کو پسند نہیں آیا اور اس کے خلاف کئی لوگ اسلام آباد ایمبیسی کے آفیشل سوشل میڈیا صفحوں پر اپنے کمنٹس لکھ رہے ہیں، اسلام آباد میں رہنے والی ایک پاکستانی امریکن کے حساب سے امریکا جانتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان کا کلچر کیا ہے، اسی لیے وہ ایسے کانسرٹس، کپڑوں کی نمایش، کلچرل شوز پر کروڑوں خرچ کر رہا ہے جس سے ایک عام پاکستانی بہت دور ہے اور یہ اونٹ بھی اسی کا حصہ ہے۔

امریکن گورا یہ لکھ رہا ہے کہ میرے ٹیکس کے پیسوں سے دشمن ملک میں اونٹ نہ لگاؤ جب کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ پاکستان میں امریکن ایمبیسی صرف درخواستیں وصول کرنے کی مد میں ہی چالیس کروڑ کما رہی ہے اور اس ایمبیسی میں وہی پاکستانی ویزا لگوانے جاتا ہے جو امریکا آکر دو سال میں اتنی ترقی کرلیتا ہے جو اونٹ کے خلاف گورا بیس سال میں نہیں کر پاتا، یہ اونٹ ان کے ٹیکس کے پیسوں کا نہیں میری ویزا Application Fees کا ہے۔

فرانس نے امریکا کو اتنا بڑا اسٹیچو آف لبرٹی دے دیا۔ ہم نے اس پر برا نہیں مانا اب اگر امریکا اپنی خوشی سے ایک چھوٹا سا اونٹ ہمارے لیے اپنی ہی ایمبیسی میں لگا رہا ہے تو امریکنز کو اس میں اتنا کیا مسئلہ ہے؟

یقین کریں ہم بھی اس اونٹ سے اتنے ہی حیران ہیں جتنا کوئی امریکن۔ اور ہمارا امریکا کا ویزا تو ویسے ہی نہیں لگتا، گھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر جب بغیر ویزا ملے اترے منہ کے ساتھ ایمبیسی سے واپس گھر جا رہے ہوں گے تو یہی سوچ کر خوش ہوجائیں گے کہ چلو ہماری ضایع گئی ویزا ایپلیکیشن فیس سے لگایا گیا چار کروڑ کا اونٹ ہی دیکھنے کو مل گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔