نوادرات کی اہمیت اور حفاظت

شکیل فاروقی  جمعـء 28 اپريل 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

نوادرات محض تاریخی اہمیت کی وجہ سے بیش قیمت ہی نہیں ہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا ایک انوکھا ذریعہ بھی ہیں۔ مجرم مدتِ دراز سے اِس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنے کالے دھن کو سفید کرنے میں مصروف ہیں۔

پاکستان ثقافتی ورثہ کی آماجگاہ ہے، کیونکہ اِس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن یہ تاریخی ورثہ لوٹ مار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

یہ ثقافتی خزانہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چوری کیے ہوئے یہ نوادرات بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں جن سے حاصل ہونے والی خطیر رقومات نہ صرف منشیات فروشوں بلکہ دیگر مجرموں کی اعانت کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ثقافتی ورثہ کی بیرونِ ملک اسمگلنگ کی روک تھام کارِ دشوار ہے کیونکہ یہ نوادرات آسانی سے بین الاقوامی سرحدوں کے پار لے جائے جاسکتے ہیں۔

نوادرات جانچ پڑتال کے بغیر آسانی سے خرید و فروخت کیے جاسکتے ہیں اور اِن کی قیمت کا تعین کرنا مشکل ہے، اس لیے یہ منہ مانگے دام خریدے اور فروخت کیے جاتے ہیں اور ان کے لیے کسی قسم کی دستاویز کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، لہذا مجرموں کو کسی قسم کی قباحت نہیں ہوتی اور وہ اپنا کاروبار نہایت آرام کے ساتھ کرتے ہیں۔

نوادرات کی منڈی میں شفافیت کے فقدان اور نقد خرید و فروخت کی وجہ سے اِس کاروبار میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ نوادرات کا بیش قیمت ہونا جرائم پیشہ لوگوں کے لیے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے سازگار ماحول مہیا کرتا ہے اور اثاثے بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

مثال کے طور پر ایک مجرم ایک نادر پینٹنگ بھاری قیمت ادا کر کے خرید سکتا ہے اور پھر اُس کو منہ مانگی قیمت پر فروخت کرسکتا ہے۔ اِس فروخت سے حاصل ہونے والی رقم مزید منی لانڈرنگ اور مجرمانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ بیش قیمت ہونے کی وجہ سے نوادرات ناجائز آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

یورپی یونین کی متعدد رپورٹوں کے مطابق جس میں 2018 کی رپورٹ بھی شامل ہے نوادرات کی خرید و فروخت یورپی یونین میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کا بہت بڑا سبب ہے۔

فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق انتہائی گراں قیمتوں پر خریدی اور بیچی گئی اشیاء جن میں نوادرات بھی شامل ہیں منی لانڈرنگ کا ذریعہ ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل میں امریکا کے شعبہ عدلیہ کی ایک تحقیق کے بارے میں شائع ہونے والے مضمون میں بھی نوادرات کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کا ایک بہت بڑا ذریعہ بتایا گیا ہے۔

تفتیش کے نتیجہ میں نیویارک کے ایک بہت بڑے آرٹ ڈیلر کو نوادرات فروخت کرکے ایک ارب پتی چینی کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث پایا گیا۔

وطنِ عزیز میں ثقافتی شعبہ میں لوٹ مار کو منی لانڈرنگ سے جوڑا جاتا ہے، یہ معاملہ متعلقہ اداروں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس میں ٹیکسلا کے عجائب گھر، موئن جو دڑو اور گندھارا کے مجسمے بھی شامل ہیں۔اِس قسم کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ثقافت قطعی غیر محفوظ ہے اور کوئی بھی جو جی چاہے چُرا کر لے جاسکتا ہے۔

ضرورت اِس بات کی ہے کہ وطنِ عزیز کے ثقافتی ورثہ کی کڑی نگرانی اور حفاظت کی جائے۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے یونیسکو جیسے عالمی اداروں کی خدمات حاصل کی جائیں ، بصورتِ دیگر ہمارا قومی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہوجائے گا۔

کسی بھی ملک کا ثقافتی ورثہ اُس کے لیے قومی خزانے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اِس سے اُس کا تاریخی پس منظر عیاں ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ سیاحت کے ذریعہ قیمتی زرِ مبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ملک کی شہرت بھی ہوتی ہے۔

خدا کا شُکر ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کئی مقامات شامل ہیں جن کی دھوم دنیا بھر میں مچی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر موئن جو دڑو اور ہڑپہ کے مقامات جو ہزاروں سال پرانی تہذیب کے شاہکار ہیں۔ دنیا کے کونے کونے سے سیاح یہاں پر آکر اپنی آنکھوں سے اِن تاریخی مقامات کا نظارہ کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِن مقامات کی نگرانی تسلی بخش نہیں ہے جسے سُدھارنا حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے۔

ہمارے ملک کا شعبہ سیاحت بھی اپنے فرائض مطلوبہ معیار تک سرانجام نہیں دے رہا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ تاریخی اہمیت کے اِن مقامات کی بیرونِ ملک سفارت کاروں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے تاکہ دنیا بھر کے سیاح اِن مقامات کو دیکھنے کے لیے پاکستان آئیں۔

بہت پہلے وزارتِ اطلاعات و نشریات میں ڈی ایف پی نام کا ایک علیحدہ شعبہ ہوا کرتا تھا جو بیرونی ممالک میں پاکستان کی تشہیر کیا کرتا تھا۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ثقافت بیش قیمت غیر ملکی زرِ مبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے دیس میں اِس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے۔

ہمارے سیاستدانوں کو آپس کے لڑائی جھگڑوں سے اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ ایسے کاموں کی جانب توجہ فرمائیں تاکہ ملک کو نہ صرف دنیا بھر میں اچھی شہرت ملے اور زر مبادلہ کمانے میں مدد حاصل ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔