وہ ریاست مدینہ اور یہ

سعد اللہ جان برق  اتوار 30 اپريل 2023
barq@email.com

[email protected]

حضرت عمر منبر پرکھڑے خطاب کررہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکرپوچھا، پہلے یہ بتائیں کہ مال غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں اور ہرشخص کو ایک ایک چادر ملی ہے جس سے لباس نہیں بن سکتا اورآپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ایک سے زیادہ چادروں سے بنا ہے، گویا آپ نے دورچادریں لی ہیں۔

حضرت عمر نے بڑے تحمل سے فرمایا،اس کاجواب میرا بیٹا دے تو بہترہوگ۔ بیٹا کھڑا ہوکر بولا ، بے شک میرے والد کالباس دوچادروں سے بنا ہے اوران میں ایک چادر میں نے اپنے حصے کی دی ہوئی ہے ۔

ایک اور موقع پر ملکہ روم کی طرف سے خوشبو کی ایک شیشی آئی تو ان کی زوجہ کو وہ بہت پسند آئی اورلیناچاہی لیکن حضرت عمر نے ان کے ہاتھ سے شیشی چھین کر بیت المال میں داخل کی، حالانکہ وہ شیشی ایک طرح سے ملکہ روم نے مسلمانوں کے خلفیہ کی اہلیہ محترمہ کے لیے بھیجی تھی لیکن حضرت عمر کا فیصلہ بھی درست تھا کہ اگر خلیفہ اسلام کی بیوی نہ ہوتی تو ملکہ روم انھیں تحفہ کیوں بھیجتی۔

اس سے پہلے کہ ہم ’’توشہ خانہ‘‘ پر بحث کریں، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے تحائف افراد کو نہیں دیے جاتے ہیں بلکہ اقوام کو دیے جاتے ہیں۔عمرثانی عمر بن عبدالعزیزجب خلیفہ تھے توکسی علاقے کاحاکم حساب دینے آیا تھا ،حساب کتاب ختم ہوگیا تو حاکم نے خلیفہ سے ان کا اوران کے خاندان کاحال پوچھنا شروع کیا ، عمر بن عبدالعزیز نے پہلے چراغ بجھایا اور پھر جواب دیا، حاکم نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کاتیل جل رہاہے جب تک سرکاری بات چل رہی تھی ،جائزتھا، لیکن ذاتی بات چیت میں سرکاری تیل اور چراغ جائزنہیں ۔

ایک وہ ریاست مدینہ تھی اورایک یہ ریاست مدینہ اوریہ ہم نہیں کہتے ،اتنی زیادہ گستاخی اوران پاک ناموںکی اتنی بے حرمتی اور تضحیک کی جرات ہمارے اندرکہاں۔ یہ تو کچھ خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو سب کچھ کہہ بھی سکتے ہیں اورکر بھی سکتے ہیں ۔

ایک وہ بھی بیت المال تھا اورایک یہ بھی بیت المال ہے جس کے ایک حصے کو ’’توشہ خانہ‘‘ کہتے ہیں ، وہ بھی حکمران تھے جو تو شہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اور یہ بھی حکمران ہیں جو توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اوراگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں ۔

شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے

یہ بھی مت کہہ کہ جو کہتے تو گلہ ہوتا ہے

بیت المال کی تو بات ہی نہیں کریں گے کہ جدی پشتی چور اس کا مال تو پہلے بانٹ چکے ہیں اوراب صرف ’’بیت ‘‘ہی رہ گیاہے ۔اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے توشہ خانہ کاذکر کرتے ہیں جو یوں ہے کہ جب ہمارا کوئی سربراہ کسی ملک کے دورے پر جاتاہے ،میزبان ملک اسے تحفے تحائف دیتاہے ،قانونی طور پر اسے وہ تحائف توشہ خانے کے سپرد کرنا ہوتاہے، ظاہرہے کہ یہ تحائف اس فرد کو ذاتی طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ایک دوسرے ملک کو دیتاہے لیکن یہاں اس کے لیے یہ نرالا دستور نکالا گیاہے کہ اگر وہ سربراہ چاہے کہ کسی پسند کی چیز کو اپنا لے تو قانون تو اس کی جیب میں پڑا ہوتاہے، اسے لیے توشہ خانے کے ذمے داران سے کہتاہے اور وہ ذمے داران ان تحائف کی قیمت چوری کے مال سے بھی کم لگا کر ان کے حضور پیش کردیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نوکر ہوتے ہیں بینگن کے نہیں۔

اس سلسلے میں یوں تو صرف ایک حکمران ایوب خان کے علاوہ باقی سب نے اپنااپنا کام دکھایاہے، ایوب خان کو اپنے طویل دورحکومت میں تیس تحائف ملے تھے اوراس نے ان میں سے ایک بھی تحفہ نہیں رکھاتھا،سب کے سب توشہ خانہ کے حوالے کردیے تھے ۔ باقی سب نے اس بہتی گنگا میںخوب خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان کیے ہیں ،اس کھیل میںسب سے ٹاپ اسکوررشوکت عزیز تھا جسے اس ملک کو سنوارنے کے لیے امپورٹ کیاگیا تھا اور جب وہ ملک کو خوب خوب ’’سنوار‘‘ کر واپس جارہاتھا تو جہازمیں اس کے ساتھ گیارہ سو چھبیس لوٹے گئے تھے،’’لوٹے‘‘ اس لیے کہ اس نے تحائف اپنے نام کرانے کے لیے چار مرتبہ توشہ خانے کے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں۔ان قیمتی تحائف کے لیے اس نے صرف انتیس لاکھ روپے اداکیے تھے، وہ بھی یہیں کہیں کسی اورسرکاری جیب سے جب کہ ان تحائف کی قیمت دوکروڑساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ تھی، ان تحائف میں گلے کے ہار ،جواہرات ،سونا، ہیرے کی گھڑیاں اور قالین شامل تھے ،نیپال سے ملے ہوئے دو رومالوں کی قیمت صرف پچاس روپے اداکی گئی تھی۔اس سے باقیوں کااندازہ لگایاجاسکتاہے اورشوکت عزیزاس فہرست میں اول کھڑاہے، اس کے پیچھے باقی سارے حکمرانوںکی ایک لمبی قطار کھڑی ہے اور سب کے نیفے پھولے ہوئے ہیں ۔

اب بعد ازخرابی بیسار احتساب بیورو جاگاہے ،عدالتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہیں لیکن چور اتنے عادی، اتنے دلیر اور اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ باقاعدہ سینہ زوری پر اترآئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔