اے حمید، گلستان ادب کی سنہری یاد

عینی نیازی  منگل 29 اپريل 2014

اردو ادب کی دنیا میں کئی بڑے نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار، انشا پرداز، کالم نویس اور خاکہ نگار پیدا ہوئے جنھوں نے اپنے مقدور بھر اردو ادب کے علمی خزانے میں اضافہ کیا مگر ان میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اگر اردو ادب سے نکال دیا جائے تو اس خزانے میں ادھورا پن اور تشنگی محسوس ہوگی۔ جی ہاں! اے حمید اردو ادب کا وہ درخشندہ ستارہ ہیں جنھیںاردو پڑھنے والے کبھی فراموش نہ کرسکیں گے۔ چاند، بارش، خوشبو، پھول، تتلی اور جنگل کی داستان کہنے والے اس داستان گو کو ہم سے بچھڑے تین سال ہوگئے۔ برصغیر کے معروف بزرگ خواجہ بختیار کاکیؒ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اس خاندان نے گدی نشینی پیری مریدی کو ترک کیا۔ چاہتے تو ساری عمر اسی کے بل پر آسودہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے خاندان کے افراد معاشی جدوجہد میں مصروف ہوئے۔

اردو نثر نگاری کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے اردو کے اس بڑے ادیب نے بھارت کے شہر امرتسر میں 1922 کو جنم لیا۔ گھر میں مذہبی ماحول رچا بسا ہوا تھا۔ اختر علی کے نام سے پکارے جانے والے اس بچے نے دس سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا تھا مگر مولوی صاحب کی مار و تشدد ساری زندگی ان کے حافظہ سے نہیں نکل سکی، بارہا ان کی تحریروں میں بچپن کے واقعا ت کے ساتھ وہ تشدد کی کہانیاں ہم نے پڑھی ہیں۔ میٹرک اپنے آبائی وطن سے کیا، پھر اپنے خاندان کے ہمراہ نوزائیدہ پاکستان کے شہر لاہور کا رخ کیا۔ بٹوارے کا عذاب، انسانوں کی کسمپرسی، ذلت کی کہانیاں ان کے اپنے دکھ درد کی صورت میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ 1949 میں اپنا پہلا افسانہ ’منزل منزل‘ ادب لطیف میں شایع ہوا تو ادبی دنیا میں را توں رات مقبول ہوگئے۔ پرائیوٹ ایف اے کا امتحان پاس کیا، ریڈیو پاکستان میں اسسٹنٹ ایڈیٹرمقرر ہوئے، کچھ عرصے براڈ کاسٹر کی ملازمت کے بعد نوکری کو خیرباد کہا اور وائس آف امریکا سے منسلک ہوگئے۔

اے حمید کی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو چار چیزیں ان کی زندگی کا خاصہ نظر آتی ہیں، قلم کی مزدوری، دوستوں کی محبت، دوسروں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھنے والے اور بائیں بازو تحریک کی حمایت، وہ اسے اپنی خوش قسمتی کہتے تھے کہ انھیں پیارے چاہنے والے دوست میسر آئے۔ نوعمری کے دوستوں میں ابن انشا، کرشن چندر، شورش کاشمیری اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ زندگی کی خوبصورت یادوں کا تذکرہ، ان شخصیات کی خاکہ نگاری جیتی جاگتی شبیہہ بن کر اردو ادب میں ہمیشہ تروتازہ رہیں گی۔ اشفاق احمد کے ساتھ گزرے زندگی کی کئی دہائیوں پر مشتمل ماہ و سال کو انھوں نے پوری ایک کتاب پر محیط کہانی داستان گو کے طور پر پیش کردی۔

خاکہ نگاری میں ان کے موضوعات کی تعداد دو درجن سے بھی تجاوز کرگئی۔ اتنے بہت سے خاکوں کو یکجا کر دینے سے تکرار کا خطرہ پیدا ہونا لازمی امر ہے، مگر اے حمید کے خاکوں کی بابت احمد ندیم قاسمی فرماتے ہیں ’’اس طرح کی تکرار اوپری اوپری باتیںکرنے والوں کے ہاں پیدا ہوسکتی ہیں لیکن اے حمید نے تو ہر شخص کو اس کی انتہائی گہرائی سے جانچا پرکھا ہے، وہ تو کسی بھی شخصیت پر لکھتے ہوئے اس کی سوچوں اور امنگوں تک کے موتی ڈھونڈ لاتا ہے، اس لیے اس کے ہاں تکرار کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ ان کی تحریروں میں دوستوں کے ساتھ نوک جھونک، تنگی و خوشحالی کی کہانیاں، تصویروں کی صورت میں نظروںکے سامنے آجاتی ہیں۔

اے حمید کا شمار ترقی پسند ادیبوں میں ہوتا ہے، ان کی ناول نویسی، خاکہ نگاری، مختصرکہانیاں، اور ڈرامہ نگاری قاری کو اپنے سحر میں جکڑلیتی ہیں۔ انھوں نے 200 کے قریب ناول لکھے، ان کی کہانیوں میں تاریخ، ماضی کی کہانیوں میں کھوجانا اور اس منظرنامے میں قاری کو بھی شامل کرلینا بہت نمایاں ہے۔ قاری پر ان کا چیزوں کو دیکھنے کا مشاہدہ، رومانی نقطہ نظر، مہم جوئی اور یاد نگاری کا مضبوط بیانیہ تحریر، ایسی خوبیاں ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ بھی مصنف کے ساتھ ساتھ محو سفر ہے، جس طرح ’’داستان گو‘‘ کی یہ تحریر پڑھیے ’’جب اشفاق مجھے اپنی بنائی ہوئی یہ پینٹنگ دکھا رہا تھا تو مجھے یاد ہے کمرے میں بڑا حبس اورگرمی تھی، وہ گرمی اور حبس آج تک یاد ہے۔ ماضی کے دھندلکوں میں ایک روشنی سی چمکتی ہے، میں اور اشفاق چوہٹہ مفتی باقر کے ایک تنگ بازار میں جارہے ہیں، اشفاق چہرے پر لگانے والی کریم کی شیشیاں خریدنے یہاں آئے ہیں، میں اس کے ساتھ ہوں۔

ہم دکان دکان پھرکر شیشیاں دیکھ رہے ہیں، اشفاق احمد اندرون لاہور کے کلچر پر تبصرہ بھی کررہا ہے، یہاں سے ہم شاہ عالمی کی لال مسجد کے پاس نکل آئے ہیں، سارا شاہ عالمی ٹوٹا ہوا اور جلا ہوا ہے، صرف لال مسجد سلامت ہے، جگہ جگہ مکانوں کے ملبے کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بانسوں والے بازار سے لے کر رنگ محل تک ملبہ ہی ملبہ ہے، لوگوں کے چلنے سے ان ٹیلوں پر پگڈنڈیاں بن گئی ہے، ہم دونوں ملبے کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے واپس جارہے ہیں رنگ محل اور لوہاری منڈی کی طرف، مکان سلامت ہے باقی سارا کا سارا رڑا میدان ہے۔‘‘ ان کی ایک طلسماتی تحریر ’’مرزا غالب لاہور میں‘‘ اور دیگر اردو نثر کی تخلیقات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

اے حمید نے بچوں کے ادب پر بھی بہت کام کیا۔ 100 کے قریب بچوں کے لیے ناول لکھے۔ امبر ناگ اور ماریہ کی سو سے زائد کہانی سیریز پر مشتمل کتابیں بچوں کے ادب میں بیش بہا اضافہ ہیں۔ بچوں کے لیے ہی لکھے جانے والے ٹی وی ڈرامہ سیریل ’عینک والا جن‘ پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ میں طویل ترین منفرد و مشہور ڈرامہ سیریل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن بچوں نے اس ڈرامہ سیریل کو دو دہائی قبل ٹی وی پر دیکھا، وہ آج بھی اس کے اثر انگیز کرداروں، کہانیوں اور ڈائیلاگز کے سحر سے نہیں نکل پائے، اس ڈرامہ نے پوری نسل کو مسمیرائز کیے رکھا، بلکہ ڈرامے کے کئی کردار اور ڈائیلاگز محاورے بن کر زبان زد عام بھی ہوئے۔ عینک والا جن اور ’’تھلے تھلے‘‘ کے بعد انھوں نے ٹی وی کے لیے کچھ اور کام نہیںکیا جب کہ کافی گنجائش تھی کہ وہ مزید یادگار کام کرسکتے تھے۔

جس طرح ان کے لکھے ہوئے تمام کردار خوش گفتار، خوش خوراک اور زندگی سے بھر پور ہیں، اسی طرح ان کی اپنی ظاہری شخصیت بھی خوش شکل، وضعدار، خوش اطوار اور خوش گفتار، بناوٹ سے پاک تھی، ان کی دراز قامتی و خوش لباسی ادبی محفلوں میں سب سے نمایاں نظر آتی۔ اے حمید کی شخصیت کے بارے میں احمد ندیم قاسمی فرماتے ہیں ’’اے حمید سے جو ملتا اس سے پیار کرنے لگتا، اس کی شخصیت میں پیار کی اتنی گنجائش ہے کہ اگر کہیںکوئی ایک آدھ خامی ہے بھی تو پیار کے پھولوں سے ڈھکی رہتی ہے۔‘‘ زندگی کی آخری دہائی میں قلم کی مزدوری کرتے ہوئے تین سال قبل  29 اپریل 2011 کو لاہور میں زندگی کی بازی ہار گئے اور خوبصورت تحریروں کی صورت میں گلستان ادب کی سنہری یادیں ہم قارئین کے درمیان چھوڑ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔