پیپلز پارٹی کی پنجاب میں بحالی

مزمل سہروردی  جمعرات 15 جون 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پیپلزپارٹی آج کل پنجاب پر بہت فوکس کر رہی ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے بالخصوص لاہور کے چکر بڑھا دیے ہیں۔ لاہور کی سڑکوں پر پیپلزپارٹی کے جھنڈے نظر آرہے ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور میں اپنی نئی انٹری کی کوشش کر رہی ہے۔ویسے تو گزشتہ انتخابات میں بھی ایسی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن اس بار زیادہ طاقت سے کوشش کی جا رہی ہے۔

جنوبی پنجاب سے بڑے بڑے ناموں کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ شامل بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی وہ کامیابی نہیں ملی جس کی تلاش ہے۔کوئی بریک تھرو نہیں ہوا ۔ لیکن کوشش جاری ہے۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کو اپنے لیے آسان ہدف سمجھتی ہے۔

ان کے خیال میں اگر وہ جنوبی پنجاب سے الیکشن جیتنے والوں کو شامل کرلیں تو پنجاب سے نہ صرف سیٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ پنجاب میں دوبارہ انٹری بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے چاہے ڈیرے لاہور میں ہیں ،۔ جھنڈے لاہور کی سڑکوں پر لگائے جا رہے ہیں لیکن فوکس جنوبی پنجاب پر نظر آرہا ہے۔

پیپلزپارٹی سے پنجاب کا ووٹر ناراض ہو چکا ہے۔ ناراض ووٹر کو واپس لانا ایک مشکل کام ہے۔ صرف لابنگ اور لوگوں کو شامل کرنے سے ووٹر واپس نہیں آئے گا۔

آپ اس طرح الیکشن مینجمنٹ کر کے کچھ خاص نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔کچھ جیتنے والے گھوڑوں سے دو چار سیٹیں تو حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ووٹر واپس نہیں آئے گا۔ سوال تو ووٹ بینک کا ہے۔ وہ کیسے واپس آئے گا۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک پنجاب میں کہاں گیا۔ ایک دور میں پنجاب میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کا الگ الگ ووٹ بینک موجود تھا۔

اب ن لیگ نے تو پیپلزپارٹی کا ووٹ نہیں لیا ہے۔ صاف بات ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر پنجاب میں کم از کم تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہو گیا ہے، بھٹو کا ووٹ بینک پنجاب میں کپتان کھا گیا تھا۔ جیسے جیسے پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھا ویسے ہی پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوا ہے۔

اس لیے اب یہ سوال اہم ہے کہ کیا جیسے جیسے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کم ہوگا ، کیا وہ ناراض ووٹر واپس پیپلزپارٹی کے پاس آئے گا۔ کیا پی ٹی آئی قائد کے مائنس ہونے سے پیپلزپارٹی پنجاب میں پلس ہو جائے گی۔ کیا بلاول اور آصف زرداری اسی سوچ کے ساتھ پنجاب میں فعال ہوئے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی جگہ لے لیں گے۔

اگر یہی فلسفہ مان لیا جائے تو پھر استحکام پاکستان پارٹی پیپلزپارٹی کے پنجاب میں عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔

پیپلزپارٹی کی تو خواہش ہے کہ وہ نہ صرف تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر قبضہ کر لے بلکہ تحریک انصاف کے تمام جیتنے والے گھوڑے بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں ۔لیکن یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آرہا۔ اگر یہ ہدف حاصل بھی کرنا ہے تو اس کے لیے پیپلزپارٹی کو ایک مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔

سندھ کو دکھا کر پنجاب کا ووٹ بینک حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے پنجاب کو دکھا کر سندھ کا ووٹ بینک حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر صوبے کے ووٹ بینک کی اپنی سوچ ہے۔ سندھ کا فارمولہ پنجاب میں نہیں لگ سکتا۔ پنجاب کا فارمولہ سندھ میں نہیں لگ سکتا۔ پنجاب کا ووٹر کیوں ناراض ہوا ۔ اس کو سمجھ کر ہی اس کو منانے کی حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔

ابھی تک پیپلزپارٹی جیتنے والے گھوڑوں پر کام کر رہی ہے۔ ووٹر کو واپس لانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ پنجاب کا ووٹر آپ کو ووٹ کیوں دے۔پیپلزپارٹی خود کو سندھ سے الگ کر کے ابھی تک پنجاب سے جوڑ نہیں سکی ہے۔

پیپلزپارٹی میں پنجابی ٹچ نظر نہیں آرہا۔ دو ماہ بعد ایک دورے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ سیاست کوئی پارٹ ٹائم کھیل نہیں ہے۔ پنجاب کوئی پارٹ ٹائم کھیل کا گراؤنڈ نہیں ہے۔ کبھی آگئے تو کھیل لیا، نہ آئے تو سندھ سے ہی کام چلا لیا۔

پیپلزپارٹی کو سمجھنا ہوگا کہ پنجاب کے ووٹر کو کوئی ایسا پیغام دینا ہے جو اس کے گلے شکوے دور کرے۔ اٹھارویں ترمیم پر چھوٹے صوبوں سے ووٹ مل سکتا ہے لیکن پنجاب سے نہیں۔ پنجاب کا یہ مسئلہ نہیں تھا۔

چھوٹے صوبوں کے حقوق اور وہاں کی محرومیوں پر چھوٹے صوبوں سے ووٹ مل سکتا ہے پنجاب میں نہیں۔ پنجاب کے لیے کوئی نیا بیانیہ لانا ہوگا۔ آپ سے پنجاب کے ووٹر کو کیا لالچ ہے کہ وہ آپ کی طرف واپس آجائے۔

کیا اگر پنجاب کے تمام جیتنے والے سیاستدان پیپلزپارٹی میں آجائیں تو ووٹر ان کو دیکھ کر واپس آجائے گا۔ میں یہ نہیں مانتا۔ ووٹر کو دیکھ کر یہ جیتنے والے سیاستدان تو آسکتے ہیں۔لیکن ان کو دیکھ کر ووٹر نہیں آئے گا۔ اگر جتنی محنت ان سیاسی افراد پر کی جا رہی ہے اتنی ووٹر پر کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ میں یہ نہیں مانتا کہ پیپلزپارٹی کو اس منطق کی سمجھ نہیں ہے۔ لیکن شاید وہ اس آپشن کو مشکل سمجھتے ہیں اور آسان حل کی کوشش کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے ناراض لوگوں نے استحکام پاکستان پارٹی بنائی ہے۔ یہ پارٹی پیپلزپارٹی کے پنجاب میں بحالی کوششوں کو ناکام کر دے گی۔ لیکن پیپلزپارٹی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگ پیپلزپارٹی میں نہیں جانا چاہتے اور استحکام پاکستان پارٹی میں جانا بہتر سمجھتے ہیں۔

ایک جماعت جو اقتدار میں ہے جس کے اقتدار میں آنے کے آگے بھی امکانات ہیں۔ پھر بھی الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت ابھی وہاں نہیں جانا چاہتی۔ کیا استحکام پاکستان پارٹی پیپلزپارٹی سے بہتر چوائس ہے۔ کم از کم پنجاب کی حد تک تو یہی نظر آرہا ہے۔

پنجاب کا شہری علاقہ پیپلزپارٹی سے مکمل ناراض ہو چکا ہے۔ ان کے لیے اب پیپلزپارٹی کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے۔ ویسے تو دیہی ووٹر کے لیے بھی نہیں ہے۔ پنجاب کا نوجوان تو پیپلزپارٹی سے بالکل لا تعلق ہے۔ وہ جھنڈے دیکھ کرنہیں آئے گا۔

بلاول نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ لیکن پنجاب میں یہ نہیں کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی چھوڑ کر بلاول کی طرف آجائیں۔ اس کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہوگا۔ پرانا جیالا بوڑھا ہو گیا ہے۔ اور پنجاب کی نئی نسل جیالا نہیں بن سکی۔

میں مانتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب کے ساتھ کوئی سیاسی زیادتی نہیں کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب کو دو وزیر اعظم دیے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دونوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ لیکن پنجاب کے لوگوں نے ان دونوں کو نہیں مانا ہے۔ یہ لوگ خود کو پنجابی منوانے میں ناکام ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی نے سارا وقت پنجاب کی تقسیم میں لگا کر خود کو وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے دور کر لیا۔ وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے پر جتنا زور لگاتے رہے پنجاب ان سے اتنا ہی دور ہوتا گیا۔

پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات کر کے آپ پنجاب سے ووٹ نہیں لے سکتے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے بھی ووٹ نہیں ملے۔ جنوبی پنجاب محاذ بنا کر اس ساری محنت پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ اس لیے یوسف رضا گیلانی کی محنت ضایع ہو گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے وقت ضایع نہ کیا جائے بلکہ کوئی قابل عمل حکمت عملی بنائی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔