سوا لاکھ کا ضمیر

اقبال خورشید  جمعرات 1 مئ 2014

دریا کے کنارے خاموشی تھی۔ ہم گھنے پیڑ کی چھائوں میں بیٹھے تھے۔ وہ آج چپ تھا۔ بہت سے پل یونہی بیت گئے۔ بالآخر میں نے سکوت توڑا: ’’اے علم کے ساگر، کلام کر، تا کہ میں کالم لکھ سکوں!‘‘

صوفی، خلاف توقع، سر جھکائے بیٹھا رہا۔ ’’خاکسار‘‘ نے مطالبہ دہرایا۔ اُس نے خاموشی دہرائی۔ ’’خاکسار‘‘ سٹپٹا گیا۔ پہلی بار اُس نے ایسا پُراسرار رویہ اختیار کیا تھا۔

وہ قلم کار قبیلے کا من پسند ’’بابا جی‘‘ تھا۔ اُس کی بیان کردہ حکایات کی من چاہی تشریح کیجیے، پیش گوئیوں کا تڑکا لگائیں، اور سمجھیں کہ ایک شان دار مضمون تیار ہے جو قارئین پر وجد طاری کر دیگا۔ اِسی باعث اخبار نویس اُس کی سمت دوڑے چلے آتے مگر آج وہ خاموش تھا اور یہ امر اُس پر انحصار کرنے والے قلم کاروں کے لیے قابل تشویش تھا۔ شاید ملکی حالات نے اُسے مغموم کر دیا تھا یا شاید وہ شرمسار تھا کہ اُس کی حکایات پر بُنی تحریریں ہزاروں کو گم راہ کر چکی تھیں۔

جب تیسرے مطالبے پر بھی وہ سر جھکائے بیٹھا رہا، تو ہمیں آ گیا غصے۔ قلم توڑا، کاغذ پھاڑا، وہاں سے اٹھ آئے۔ صدمہ کچھ کم ہوا، تو خود کو سمجھایا: ’’کالم نگاری کے لیے کسی ’بابے‘ کی محتاجی اچھی نہیں۔ کسی کے آگے کیا ہاتھ پھیلانا۔ اپنی مدد آپ بہترین کلیہ ہے۔ قارئین کو بھی یہی تلقین کرنی چاہیے۔‘‘

یہی سوچتے ہوئے ذہن سیلف ہیلپ کتب کی جانب گیا جو مغرب میں بہت مقبول ہیں۔ ان کے خستہ حال تراجم ہمارے ہاں بھی خوب بکتے ہیں مگر سماج سے مطابقت نہ ہونے کے باعث سود مند ثابت نہیں ہوتے۔ ہم نے کئی پڑھے مگر کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا! خیر، صوفی سے ہونے والی اُس لاحاصل ملاقات کے بعد ایک ’’سیلف ہیلپ کالم‘‘ لکھنے کے خیال نے جنم لیا۔ کالم، جو دہشت گردی، بے روزگاری اور ثقافتی گھٹن جیسے مصائب جھیلتی اِس قوم کو کچھ راحت فراہم کرے۔ اور اُن تحریروں سے، جو صوفیوں سے ’’اکتساب فیض‘‘ کر کے لکھی گئیں، لکھی جا رہی ہیں، اور لکھی جاتی رہیں گی، بہتر نہ بھی ہو، مگر مفید ضرور ہو۔ فیشن کے طور پر ہی سہی، خود کو قلم مزدور کہتے ہیں۔ مزدوروں سے ہم دردی کا بھی دعویٰ ہے۔ یکم مئی روبرو۔ سوچا، اپنی مدد آپ کی نصیحت سے اِس طبقے کے دُکھوں کا بھی کچھ مداوا ہو گا۔ سمجھو، ایک تیر سے دو شکار۔ تو آئیں، اُن قدیم اصولوں کی جانب، جو آپ کی زندگی بدل سکتے ہیں۔

٭ جادوئی الفاظ: سیلف ہیلپ ماہرین کے بہ قول؛ مثبت، حوصلہ افزا الفاظ، وقفے سے وقفے سے دہرانا زود رنج انسانوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ عام طور سے یہ الفاظ ’’میں کر سکتا ہوں‘‘ یا ’’میں بہترین ہوں‘‘ ہوتے ہیں، مگر پاکستان کے گمبھیر مسائل کے پیش نظر تھوڑی ترمیم کر کے یوں کر دیتے ہیں: ’’میں حکمراں ہوں!‘‘

اگر آپ ملکی مسائل پر کڑھنے کے مرض میں مبتلا ہیں، احساس کمتری چاٹ رہی ہے، تو دن میں تین مرتبہ آئینے کے سامنے یہ الفاظ دہرائیں۔ یہ آپ کو تلخیوں کی دنیا سے دور لے جائیں گے۔ عوام کے مصائب سے لاتعلقی، ایک خاص نوع کی بے حسی پیدا ہو جائے گی۔ اب کتنے ہی دھماکے ہوں، خودکشی یا آبروریزی کے واقعات بڑھیں؛ رنج آپ کو چھو کر نہیں گزرے گا۔ جب کبھی بھوک سے بلکتے بچے، گریہ کرتی عورتیں نظر آئیں، فوراً کہیں: ’’میں حکمراں ہوں!‘‘ غم ہوا ہو جائے گا جناب۔ یہ منتر آپ پر خول چڑھا دے گا، کوئی انسانی جذبہ آپ تک رسائی نہیں حاصل کر سکے گا۔ سچ کہیں، تو جادو ہے اِن الفاظ میں۔

٭ قبولیت کے کرشمے: اِسے مصلحت پسندی کا قانون بھی کہا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیں:’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس!‘‘ حق اور باطل کے جھگڑے میں مت پڑیں۔ جو طاقت وَر ہو، اُسے تسلیم کر لیں۔ اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مارشل لا کو سراہیں۔ پارٹی صدر کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ ’’صاحب‘‘ ڈانٹے، تو خوشامدی انداز میں مسکرائیں۔ صاحبو، طاقت وَر کو قبول کرنے میں ہی بھلائی۔ بڑے بوڑھے یہی کہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں تو اِس اصول کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ ’’غدار‘‘ کے داغ سے ’’مصلحت پسند‘‘ کا خطاب بہتر۔

٭ موقع کا بیج: گیانی کہتے ہیں: ’’ہر مسئلے میں موقع کا بیج پوشیدہ ہوتا ہے!‘‘ کلیہ یہ ہمارے ہاں قابل عمل نہیں۔ ترقی یافتہ سماج پُرسکون جھیل کے مانند ہوتے ہیں، مسئلے کی کنکری پھینکیں، تو لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں تو خوف ناک سمندری طوفان ہے، کئی کئی فٹ اونچی لہریں۔ مسائل کا پہاڑ بھی سمندر میں پھینک دیں، تو چنداں فرق نہیں پڑے گا۔ موقع کے بیج کو بھول جائیں، موقع پرست ہوجائیں۔ ہمارے تجزیہ کاروں، دانش وَروں کا حالیہ رویہ اِسی اصول کا عکاس ہے۔ 80 کی دہائی کی ’’خوشامدی عادات‘‘ بازیافت کر چکے ہیں۔ تو جناب، نظریات تج دیں۔ سچ کو سچ کہنے سے باز رہیں۔ دھیرج سے موقع کا انتظار کریں۔ جوں ہی ہاتھ آئے، کسی ملک میں سفیر ہو جائیں، وزیر لگ جائیں، اپنا بینک بینلس بڑھائیں، بیرون ملک چلے جائیں۔

٭ مقصد حیات کا قانون: قدرت ہر انسان کو ایک خاص مقصد کی تکمیل کے لیے پیدا کرتی ہے، جس کی شناخت کے لیے خود سے سوال کرنا چاہیے: ’’میں سماج کے لیے کیوں کر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہوں؟‘‘ براہِِ مہربانی آپ خود سے ایسا کوئی سوال مت کریں۔ بس یہ پوچھیں: ’’میں اِس سماج سے کیوں کر فائدہ حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘ اپنا مفاد عزیز رکھیں۔ سماج خستہ حال، فاقے عروج پر، انسانیت سسک رہی ہے؛ تو ہمیں کیا! بس، اپنی بھلائی پیش نظر رکھیں۔ موقع ملتے ہی چوکا مار دیں۔ کامیابی قدم چومے گی۔ منی بیک گارنٹی ہے۔

٭ آج کا دن، آخری دن: صوفی ہر دن کو آخری دن کے طور پر جینے کا پیغام دیتے ہیں۔ لمحۂ موجود میں سانس لینے کی نصیحت ہم بھی کرینگے۔ عزیز من، ماضی اور مستقبل کو بھول جائیں، اپنے ’’حال‘‘ کی فکر کریں۔ ٹھیک ہے، ہم نے آدھا ملک کھو دیا، سام راجی غلامی قبول کی، ناقص خارجہ پالیسی اپنائی، دہشتگردی کو پنپنے، غربت کو بڑھنے دیا، مگر یہ قصۂ ماضی ہے، اس پر گریہ سے بھلا کیا حاصل؟ یہ سوچ کر ہلکان مت ہوں کہ کل یہ ملک ڈیفالٹر ہوجائے گا، غیر قابض ہوجائیں گے۔ بس، لمحۂ موجود میں سانس لیتے ہوئے موقع پرستی کی داستانیں رقم کریں۔ ہمارے حکم راں، تجزیہ کار، ملکی ادارے؛ سب یہی تو کررہے ہیں۔ ویسے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر ہی جینا چاہیے۔ ممکن ہے، گلی کے کونے پر خودکش بمبار کھڑا ہو، ہو سکتا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت آپ کو اٹھا لیا جائے۔

صاحبو، اِن اصولوں کو اپنا لیجیے۔ یہ آپ کو بدل دیں گے۔ ممکن ہے، کبھی کبھار کسی کے رونے کی پُراسرار آواز سنائی دے۔ وہ آپ کے دم توڑتے ضمیر کا نوحہ ہو گا۔ بالکل بھی دھیان مت دیجیے گا۔ مرتا ہے، تو مرے۔ جب زندہ تھا، تب کون سا تیر مار لیا!

عزیزو، یاد رکھنا، مرا ہوا ضمیر ہی سوا لاکھ ہے، زندہ ضمیر کے عوض تو پھوڑی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔