اکبر اعظم کے نو رتن (دوسرا اور آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعـء 21 جولائی 2023
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

(3)۔بیربل۔

بیربل کا اصل نام مہیش داس تھا، وہ ذات کا برہمن تھا اور اکبر کا منظور نظر تھا۔ 1528 عیسوی میں ایک دیہات کاپسی میں پیدا ہوا۔ شروع میں بہت غریب تھا، فارسی اور سنسکرت میں تعلیم حاصل کی، ہندی کا بڑا اچھا شاعر تھا، اپنی لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی کی بنا پر اکبر کی تخت نشینی پر دربار سے وابستہ ہو گیا۔

یہ 1556 عیسوی تھا جب وہ اکبر کی نظروں میں سما گیا اور شاعر کی حیثیت سے نو رتنوں میں شامل ہو گیا۔ بیربل کے اردو میں معنی ہیں، جنگجو اور ہمت والا۔ 1586 عیسوی میں یوسف زئی پٹھانوں سے جنگ کے دوران مارا گیا۔ اکبر کو اس کی موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ دو دن تک اس نے کھانا نہیں کھایا تھا۔

(4)۔راجہ ٹوڈرمل۔

راجہ ٹوڈرمل نے اپنی زندگی کی شروعات شیرشاہ سوری کے دربار سے کی اور 1562عیسوی میں دربار اکبری سے وابستہ ہوگئے۔ اکبر نے انھیں 1572 عیسوی میں گجرات کا دیوان بنا دیا تھا۔ یہ اکبر کا وزیر خزانہ بھی تھا اور 1582 میں اسے وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔

ٹوڈرمل بہت قابل اور ذہین انسان تھا، اس نے سب سے پہلے زمین کی پیمائش کا طریقہ ایجاد کیا اور یہ برصغیر میں پٹواری نظام کا بانی تھا۔ شیرشاہ نے ٹوڈرمل کو قلعہ روہتاس کا نیا قلعہ تعمیر کرنے کی ذمے داری بھی سونپی تھی، اکبر نے اسے آگرہ کا انچارج اور گجرات کا گورنر بھی بعد میں بنا دیا، ٹوڈرمل کا بنایا ہوا پٹواری کا نظام آج تک قائم ہے، محصولات اکٹھا کرنے کا نظام بھی راجہ ٹوڈرمل کا ایجاد کردہ ہے جو آج تک قائم ہے۔

وہ ایک قابل جنگجو اور سپاہی تھا۔ راجہ ٹوڈرمل راجہ بھگوان داس کا بیٹا تھا اس کی موت 1589 میں ہوئی، وہ ایک بہادر جرنیل تھا جو اکبر کا چہیتا بھی تھا، اکبر نے راجہ کو چارہزاری کا منصب دیا۔ 1599 عیسوی میں اس کا انتقال ہوا۔

(5)۔ ملّا دوپیازہ۔

ملا دوپیازہ کا نام ابوالحسن تھا۔ یہ عرب کا رہنے والا تھا، 1542 میں طائف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں ایک بار ان کے والد کا گھر میں جھگڑا ہوا گیا وہ ناراض ہو کر طائف سے کہیں اور چلے گئے، ابوالحسن باپ کی جدائی برداشت نہ کرسکے اور ایک دن انھیں ڈھونڈنے نکل پڑے اور ایران جانے والے طائفے کے ساتھ ایران آگئے۔

وہ بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت کے مالک تھے، قافلے کے لوگ ان کی شوخی و ظرافت سے بھری باتوں سے بہت محظوظ ہوتے۔ انھی دنوں ہمایوں شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد اپنے ساتھی جمع کر رہا تھا۔

انھی ساتھیوں میں ہمایوں کا مصاحب خاص مرزا بخش اللہ خان کو اس بچے کی شوخ طبیعت بہت پسند آئی اور وہ اسے اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا، ہمایوں بھی ہندوستان آگیا تھا، ابوالحسن چونکہ عربی تھے اس لیے ان کی تلاوت بہت اچھی تھی، لہٰذا انھیں دہلی کی ایک مسجد میں امامت کا موقع مل گیا۔ دہلی آ کر ابوالحسن کی شہرت عام لوگوں میں پھیل گئی، اسی مقبولیت کی بدولت وہ محفلوں میں بلائے جانے لگے۔ امرا و رؤسا انھیں خصوصی طور پر اپنی محفلوں میں بلانے لگے۔

ایک بار اکبر کے نو رتن ابوالفضل جنھوں نے پنج تنتر کا فارسی میں کیا تھا۔ ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا اور ابوالحسن کو بھی اس دعوت میں بلایا گیا، جہاں انواع و اقسام کی ڈشوں کے ساتھ دہلی کی مشہور ڈش ’’دوپیازہ‘‘ بھی موجود تھی، ابوالحسن نے جب دو پیازہ روٹی سے کھائی تو وہ انھیں اتنی پسند آئی کہ انھوں نے اعلان کردیا کہ اب وہ صرف اسی دعوت میں جائیں گے جس میں دوپیازہ موجود ہو۔ چنانچہ اکبر نے انھیں ملا دوپیازہ کا خطاب دے دیا اور یہ آج تک اسی نام سے مشہور ہیں۔

(6)۔تان سین۔

تان سین کے نام سے بھلا کون واقف نہ ہوگا، یہ بھی اکبر کے نو رتنوں میں شامل تھے، ان کا نام رام تلو پانڈے تھا، وہ گوالیار میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں شیخ فقیر غوث کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئے تھے، فقیر غوث کا تعلق بھی گوالیار سے تھا۔ میاں تان سین اکبر کے وزیر ثقافت تھے، وہ سنگیت کے بادشاہ تھے۔

انھوں نے کئی راگ ایجاد کیے۔ جن میں میاں کی ملہار، میاں کی ٹوڈی، میاں کی سارنگ، دیپک راگ، درباری اور بہت سے راگ راگنیاں ایجاد کیں۔ تان سین کا خطاب انھیں اکبر نے دیا تھا، میاں تان سین اکبر کے پسندیدہ وزیر تھے وہ ان کی موسیقی سے حد درجہ لطف اندوز ہوتے تھے۔

میاں تان سین کے تشکیل دیے ہوئے راگ آج بھی اپنی اصلی حالت میں ہیں اور کسی موسیقار نے انھیں تبدیل کرنے کی یا اس میں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تان سین 26 اپریل 1524ء میں پیدا ہوئے اور 26 اپریل 1589 میں ان کی وفات ہوئی انھوں نے موسیقی کی تعلیم پنڈت ہری داس سے حاصل کی۔

آج بھی ان کی برسی کے موقع پر گوالیار میں ان کے مزار پر موسیقی کی بہت بڑی محفل سجتی ہے۔ جہاں برصغیر پاک و ہند کے مشہور گویے اور موسیقار اس میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ میاں تان سین کے مزار پر املی کا ایک درخت ہے، موسیقار اور گویے اس درخت کے پتے اور پھل کھاتے ہیں تاکہ ان کی آواز میں رچاؤ اور اثر پیدا ہو۔ 1620 ء میں انتقال کیا۔

(7)۔ راجہ مان سنگھ۔

راجہ بھگوان داس کا بیٹا تھا، مغل آرمی کا چیف آف اسٹاف تھا، اکبر نے اس کی وجہ سے ہندوؤں پر جزیہ معاف کردیا تھا، اکبر کا قابل اعتماد ساتھی تھا، اکبر نے اس کی پھوپھی جودھا بھائی سے شادی کرلی تھی، جس سے راجپوتوں میں اکبر بہت مقبول ہو گیا تھا اور اسے راجپوتوں کی بہت سپورٹ مل گئی تھی۔ مان سنگھ 1540 میں آمیر میں پیدا ہوا، آمیر کو موجودہ دور میں جے پور (پنک سٹی) کہا جاتا ہے۔

اکبر کے دور میں مان سنگھ نے سب سے زیادہ جنگیں لڑیں، اکبر کی حکومت کو دو جرنیلوں نے بہت استحکام دیا جن میں بیرم خان اور مان سنگھ سرفہرست ہیں۔ راجہ بھگوان داس نے اپنی بہن جودھا بھائی کے ساتھ اکبر کے محل بھیج دیا جہاں انھوں نے اکبر کے دل میں جگہ بنالی اور اپنی قابلیت، بہادری اور وفاداری کی وجہ سے انھیں نہ صرف راجہ کا خطاب دیا بلکہ انھیں سات ہزاری کا منصب دیا اور اسے اپنے نو رتنوں میں شامل کرلیا۔

راجہ بھگوان داس بھی اکبر کے دربار سے وابستہ تھے۔ رانا پرتاب سنگھ کی مشہور لڑائی جو ’’ہلدی گھاٹی‘‘ کی جنگ کے نام سے مشہور ہے اس جنگ میں اکبر کی فوج کی کمان راجہ مان سنگھ کے پاس تھی جس میں انھیں فتح نصیب ہوئی۔ اکبر نے راجہ مان سنگھ کی بہن مریم زمانی سے شادی کی جو آخر تک اپنے ہندو دھرم پہ قائم رہی۔ 1614 میں راجہ مان سنگھ کی موت ہوگئی ۔

(8)۔ عبدالرحیم خان خاناں۔

یہ اکبر کے اتالیق بیرم خان کے اکلوتے بیٹے تھے جن کا مزار ہمایوں کے مقبرے کے قریب ہے۔ یہ اکبر کا وزیر دفاع تھا، بہت قابل تھا، ترکی میں لکھے ہوئے بابرنامہ کا ترجمہ فارسی میں ’’توزک بابری‘‘ کے نام سے کیا۔ یہ جہانگیر کا اتالیق تھا اور اکبر کا سوتیلا بیٹا بھی تھا۔

بیرم خان کے قتل کے بعد اس کی بیوی سلیمہ سلطان اور عبدالرحیم جو اس وقت بہت چھوٹا تھا اکبر کے دربار میں پیش کیا گیا، اکبر نے سلیمہ سلطان سے نکاح کرلیا اور عبدالرحیم کو شہزادوں کی طرح پالا۔ عبدالرحیم باپ کی طرح انتہائی قابل تھا، انھوں نے بہت ساری زبانیں سیکھیں، اس نے اکبر کو ’’اکبر دی گریٹ‘‘ بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ وہ ہندی، عربی، ترکی، سنسکرت اور فارسی جانتے تھے۔

اکبر نے عبدالرحیم کو ان کی قابلیت اور لیاقت کی وجہ سے ’’خان خاناں‘‘ کا لقب عطا کیا، جو شہزادوں کے بعد سب سے بڑا خطاب تھا، وہ بہت سے شہروں کے صوبیدار رہے۔ یہ بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے، اکبر ان پر بہت بھروسہ کرتے تھے اور عبدالرحیم خان خاناں نے اس بھروسے کو کبھی نہ توڑا۔ عبدالرحیم خان خاناں نے 1627ء میں انتقال کیا اور ہمایوں کے مقبرے کے قریب دفنایا گیا، جو حضرت نظام الدین اولیا کے قریب خان خاناں کا مزار ہے۔ خان خاناں جب اکبر کے دربار میں لایا گیا اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ اکبر نے خان خاناں کو اپنی اولاد کی طرح پالا۔ خان خاناں کا خطاب اکبر نے انھیں 1584 میں دیا تھا-

(9)۔ فقیر عذی الدین، حکیم ہمام، راجہ بھگوان داس اکبر کے نو رتنوں میں ایک نام فقیر عذی الدین کا ملتا ہے جو مغل دربار میں ایک خاص اہمیت تھے، وہ ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے انچارج تھے، ان کا مرتبہ اکبر کے نزدیک بہت اہم تھا، وہ بہت قابل اور بھروسہ مند انسان تھے، محل کی ساری ثقافتی اور علمی سرگرمیاں فقیر عذی الدین نہایت خوبی سے سنبھالتے تھے۔

تاریخ میں ان کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ بعض تذکرہ نگاروں کے ہاں حکیم ہمام کا نام بھی نو رتنوں میں ملتا ہے جو باورچی خانہ کے انچارج تھے۔ ان کے بارے میں بھی بہت زیادہ معلومات نہیں ملتیں وہ بھنڈاری بھی تھے اور تمام ذخیروں کی خبر رکھتے تھے۔

اسی طرح ایک نام راجہ بھگوان داس کا بھی ملتا ہے۔ یہ راجہ مان سنگھ کے باپ تھے اور بہت ساری مہمات میں اکبر کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ یہ امبر کا راجہ تھا، جو اب جے پور کہلایا۔ کبھی یہ علاقہ آمیر بھی کہلاتا تھا۔ اکبر نے اس کی بہن سے شادی کی تھی جسے اکبر نے مریم زمانی کا خطاب دیا تھا۔راجہ بھگوان داس کو اکبر نے ’’امیرالامرا‘‘ کا خطاب دیا تھا۔

وہ دربار اکبری کے قانونی معاملات دیکھتے تھے۔ مختلف کتابوں میں یہ تینوں نام نو رتن کے طور پر ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر تذکروں میں فقیر عذی الدین کا نام بطور نو رتن کے ملتا ہے۔ اکبر کے نو رتنوں میں راجہ ٹوڈرمل، ابوالفضل، فیضی اور خان خاناں اپنا ایک بلند مقام رکھتے ہیں جنھوں نے مغل سلطنت کو استحکام بخشنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔