معیشت بحالی میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں

ایڈیٹوریل  جمعرات 21 دسمبر 2023
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

ایشیائی ترقیاتی بینک اور پاکستان کے درمیان 1 ارب 20 کروڑ ڈالرز قرض کے معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے حکام نے ان معاہدوں کی تصدیق کردی، جن منصوبوں کے لیے یہ قرض لیا جارہا ہے، ان میں بجٹ فنانسنگ، ڈومیسٹک ریسورس موبلائزیشن کے منصوبے شامل ہیں۔ پاکستان کو عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مجموعی طور پر 1 ارب 55 کروڑ ڈالرز ملیں گے۔

عالمی سطح پر تواتر سے امداد ملنا پاکستان کی معیشت کے لیے لاکھ خوش آیند سہی لیکن پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے اور بہتری کی راہ ہموارکرنے کے لیے کئی انقلابی اور حقیقت پسندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب معیشت بحالی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ہمیں ان عوامل اور مالیاتی نظام کی خرابیوں پر نظر رکھنا ہوگی جو معیشت کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں جیسا کہ سولر پینل درآمد کی آڑ میں70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ میں بینکوں کی جانب سے غفلت برتنے کا انکشاف ہوا ہے، منی لانڈرنگ ہونے پر بینکوں کو صرف 9 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا گیا کہ بینکوں نے درآمدکنندگان کے خلاف کیش ٹرانزکشن کی 9170 رپورٹ فائل کی ہیں اور 9کروڑ روپے جرمانہ کیا ہے اور 17بینک حکام کے خلاف کارروائی کی گئی۔

دراصل بینک مالیاتی سسٹم کا بڑا حصہ ہیں۔ یہ منظم گروپوں کے ٹارگٹ ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو اس میں شامل کر کے بینکنگ سیکٹر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پراکسی کی طرح،کچھ بینک یا تو پوری طرح شریک ہوتے ہیں،کچھ نا معلوم ہوتے ہیں اورکئی اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس میں جرائم پر مبنی فنڈ کو روکیں۔

اپنی وسیع پیمانے کی منی لانڈرنگ اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے، ملزمان جعلی کاغذات اور دستاویز، جعلی معاہدے اور ان وائس کی مدد لیتے ہیں جوکہ جوازکے طور پر بینک کی لین دین کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ یہ جعلی ان وائس یہ ظاہرکرتی ہیں کہ مثال کے طورپر پرسنل کمپیوٹرکا کارگو آف شور کمپنی اے سے آف شور کمپنی بی کو بیچا گیا لیکن اصل میں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہوا ہوتا جب کہ پیسہ اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔

اس غیر قانونی سرگرمی کو ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ کہتے ہیں اور یہ دنیا بھر میں اس طرح کے مالیاتی جرم کا سب سے بھرا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سے قوانین غیر قانونی دولت کو تحفظ دیتے ہیں۔ ہمیں منی لانڈرنگ کے تمام طریقوں کو ختم کرنا ہوگا،کیونکہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

دوسری جانب بدقسمتی سے حکمران طبقات اور سیاسی جماعتیں کوئی بھی توانائی بحران کو حل کرنے میں بہتر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل اور دہشت گردی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا ہے اور معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثرکیا ہے۔ بدعنوانی بھی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جہاں امن و امان کی خراب صورتحال نے معاشی ترقی کو روکا ہے وہیں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔

بدعنوانی کے اسکینڈلز اور طویل مدتی پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اقتصادی منصوبہ بندی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی عدم فراہمی سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر نے صنعتی ترقی اور برآمدی صلاحیت کو روکا ہے۔

وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور ایک بڑی غیر رسمی معیشت نے حکومتی محصولات کو محدود کردیا ہے اور مالیاتی خسارے میں حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی سے محروم ہے جس کے نتیجے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔

پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شرح مبادلہ میں متواتر اتار چڑھاؤ نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں اور مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

سرکاری اداروں کی نجکاری کی خواہش رکھنے والے غریب عوام کو دو وقت کی روٹی اور روزگار سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں60 فیصد، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملازمتوں میں 40 فیصد اور ملکی جی ڈی پی میں 8.5فیصد حصہ ہے۔ یہ صنعت 15ملین افراد کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے، مگر عاقبت نااندیش فیصلوں کے باعث ہر سیکٹر تباہی کی جانب گامزن ہے۔

45 فیصد عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بجلی اورگیس کی مسلسل لوڈشیڈ نگ کے باعث ملک میں 300 سے زائد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہونے کے قریب ہیں جس سے 300 ملین ڈالرز ماہانہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں کمی ہوگی۔

ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے، قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لیے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے، ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں، اس لیے ٹیکس چوری کے راستے کھلے ہیں۔

ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لیے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیارکر لی گئی۔ حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصروف رہی ہیں یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جب کہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔

یہی حال ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جنرل سیلز ٹیکس، پٹرولیم لیوی اور ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا جس کے اثرات مہنگائی میں اضافے کی صورت میں سب کے لیے تکلیف دہ ہیں۔

پٹرول، بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے ٹیکس پہ ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے۔

اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کیے ہوتے اور معمولی مزاحمت پر پالیسیوں سے پسپائی اختیار نہ کی ہوتی تو آج توانائی کے شعبے پر بھاری ٹیکس اور اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کی18فیصد شرح کو کم کرنا ممکن ہوتا، مگر بد قسمتی سے حالات یہ ہیں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا رہا ہے۔

پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا تو یقیناً آج حالات مختلف ہوتے۔ ملک کو درپیش بحرانوں نے سب سے زیادہ کاروباری، تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کو متاثرکیا ہے۔

اس وقت پاکستان کے عام شہریوں کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہماری سیاسی جماعتوں اور حکومتی اقتصادی ماہرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بلا واسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کی زندگی مشکل بنانے اور جو شعبے پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس مسلط کر کے کام چلانے کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں، کم سرمایہ کاری اور مضبوط گھریلو طلب کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہے۔

ان دو عوامل کی وجہ سے درآمدات برآمدات سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے نجی سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کی نمو بھی متاثر ہوئی ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستان میں جی ڈی پی کا فیصد کافی حد تک کم ہوا ہے اور اس طرح ترقی پر منفی اثر پڑا ہے۔

سرمایہ کاری کا فقدان ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں 10 سال کے عرصے میں نمو منفی رہی ہے۔ دیگر وجوہات میں اعلیٰ ٹیرف کا ڈھانچہ، ترقی کے بے ترتیب رجحانات، عالمی منڈیوں میں کم رسائی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور تکنیکی ترقی شامل ہیں۔ مزید برآں، حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہوتی ہیں۔

پاکستان کی معیشت کو خصوصی کاروبار، تجارتی پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے زمرے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصلاحی تدابیر کے بغیر، پاکستان کی معیشت کی بحرانی حالت میں رہے گی۔ پاکستان کی معیشت کا مستقبل اس پر منحصر ہوگا کہ ہم اپنے ملک کی قابل پیداوار وسائل کو استعمال کیسے کرتے ہیں اور اس کی ترقی کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔

سرمایہ کاری، تجارت، توانائی کے حل، اصلاحی تدابیر اور سیاسی استحکام پاکستان کی معاشی صورتحال کے لیے اہم عوامل ہیں۔

مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اورکاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔