پاکستان اور سیاسی نظریات (دوسرا حصہ)

جمیل مرغز  پير 29 جنوری 2024
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

ولی خان اپنے بیان میں آگے کہتے ہیں کہ ’’اس ضمن میں وزیر داخلہ خان قیوم خان کے ایک الزام کا ذکر کرنا چاہوں گا۔قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ولی خان پاکستان کی سرحدوں میں رد و بدل کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نے مذکورہ وزیر سے پوچھا، آپ اس ریفرنس کے دائر کنندہ بھی ہیں اور آپ ہی وہ شخص ہیں جو پاکستان کے نظریے اور سالمیت کے واحد محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے تھکتے نہ تھے ‘آپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آپ قائد اعظم کی تعلیمات اور ان کی مسلم لیگ کے اصل پیرو کار اور قانونی وارث ہیں‘ آپ ذرا بتائیے تو سہی قائد اعظم کے پاکستان کی سرحدیں کون سی تھیں؟

ان کے پاکستان کی سرحدیں تو برما ‘آسام اور مغربی بنگال سے ملتی تھیں‘سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیج بنگال پر بالا دستی حاصل تھی ‘اب توآپ کے لیڈر قائد عوام بھی نئے ہیں اور ان کا پاکستان بھی نیا ہے‘ذرا بتائیں قائد اعظم کے پاکستان کی سرحدیں کیا ہوئیں؟کیا اب بھی آپ کی سرحدیں برما ‘آسام اور مغربی بنگال سے ملتی ہیں؟ خلیج بنگال کے پانیوں پر اب بھی آپ کی برتری کے پرچم لہرا رہے ہیں۔

پاکستان کی ان سرحدوں کو کس نے تبدیل کیا ؟اس سے قبل کہ ان نظریاتی بحثوں میں زیادہ گہرے جائیں‘مجھے شروع ہی میں ایک بات واضح کرنے کی اجازت دی جائے‘ ایک ملک، مملکت و ریاست کی آئیڈیالوجی کے بارے میں کچھ ذہنی الجھنیں پائی جاتی ہیں‘جہاں تک ریاست کا تعلق ہے‘ (ولی خان کے خیال میں) بحیثیت ریاست اس کی کوئی مخصوص آئیڈیالوجی یا نظریہ حیات نہیں ہوتا‘ اسے اس کا نظریہ حیات ان سیاسی قوتوں سے ملتا ہے جو اس ریاست پر حکومت کرتی اور فرمانروا ہوتی ہیں۔

روس کی بحیثیت ریاست کے کوئی آئیڈیالوجی نہیں تھی ‘اس سلسلے میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب زار روس کی جگہ کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار حاصل کیا‘ مارشل چیانگ کائی شیک کے تحت چین ماؤزے تنگ اور چواین لائی کے چین سے بالکل مختلف ہے ‘ویت نام ‘کمبوڈیا اور پرتگال آج اس کی واضح مثالیں ہیں۔

آپ خود پاکستان کے معاملے کو لیجیے‘  ہندوستان کا یہ حصہ مسلم لیگ کی سیاست کی کامیابی کے نتیجے میں ایک’’نظریاتی ریاست‘‘بنا‘مسلم لیگ کے بغیر پاکستان نہ ہوتا‘دوسرے الفاظ میں پاکستان کی آئیڈیالوجی اور نظریہ حیات خود مسلم لیگ پارٹی کی آئیڈیالوجی ہے۔

اب 1947 کے پاکستان کے جغرافیائی ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے بلکہ مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے نئے پاکستان میں اقتدار میں آنے کی وجہ سے ایک نظریاتی تبدیلی بھی ہوئی ہے۔مسٹر بھٹو کا تمام تر زور روٹی‘ کپڑا اور مکان پر تھا جب کہ مسلم لیگ کے سامنے جو راہ تھی، اس کی مذہبی و روحانی نوعیت تھی۔

ایک وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر شیخ ر شید کی طر ف سے اس کی بڑی اچھی وضاحت کی گئی ‘جب اس نے قو می ا سمبلی میں کہا کہ’’ برصغیرکی تقسیم کا و قو ع پذ یر ہو نا نتیجہ تھا‘اس معا شی عد م مساوات اور نابرابر ی کا جو ،ہندو ؤ ں اور مسلما نوں کے د ر میان پا ئی جا تی تھی ۔

یہ ہے بنیا دی اور حقیقی فر ق قا ئد ا عظم کے پاکستان اور قا ئد عو ام کے پا کستا ن میں۔ میں یہاں دستو ر سا ز ا سمبلی میں 11ا گست 1947 کو قا ئد ا عظم کے ا فتتا حی خطاب میں سے جو ا نہوں نے ا سمبلی کے صدر کی حیثیت سے د یا تھا ٗا یک ا قتبا س پیش کر نا چا ہوں گا۔

انھوں نے کہا ۔ ’’آ پ ا پنے ما ضی کو بھو ل جائیں‘با ہمی ا تحا دو ا تفا ق کے سا تھ اس جذ بہ سے کام کر یں کہ آ پ میں سے ہر ایک اول وآخر اس ملک کا شہری ہے، خو اہ کسی فر قے سے تعلق ر کھتا ہو‘ ماضی میں ا یک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات رہے ہوں‘ آ پ کا ر نگ نسل، ذات برادری یا عقیدہ کوئی ہی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی برابر ہیں‘ اگر آپ یہ سب کچھ کر گز ر یں گے تو آپ کی تر قی و خو شحا لی کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔

میں اس بات پر بہت زور د ینے کی ضر ور ت نہیں سمجھتا بہرحال ہمیں اس جذ بہ سے کا م شر وع کردینا چا ہیے‘ وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ ا کثر یتی اور ا قلیتی مذہبی طبقوں کے تما م جھگڑے ختم ہو جائیں گے، جہا ں تک گر وہ بند ی کا تعلق ہے، مسلمانوں میں بھی مختلف گر وہ ہیں، پٹھان، پنجابی، شیعہ، سنی، اسی طر ح ہندوؤں میں بھی ہیں مثلا بر ہمن، ویش اور کھتری و غیرہ، بلکہ بنگا لی اور مدر ا سی و غیر ہ کے چکر بھی ہیں‘ مملکت پا کستا ن میں ہر شخص اپنی عبا د ت گا ہو ں میں جا نے کے لیے آ زاد ہے۔ ‘‘

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔