آپ بیتی

رفیع الزمان زبیری  اتوار 25 فروری 2024

’’ آپ بیتی‘‘ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی خودنوشت داستان حیات ہے جس میں ایک بیتے ہوئے دور کے لکھنو اور اودھ کی ثقافت و تہذیب، مشاہیر دین و ادب اور ممتاز معاصرین و احباب کے جیتے جاگتے تذکرے اور چلتی پھرتی تصویریں موجود ہیں۔

اپنا تعارف کراتے ہوئے مولانا عبدالماجد لکھتے ہیں ’’ اپنی صورت اکثر لوگوں کو اچھی ہی لگتی ہے، اس لیے آئینے بھی خوب دیکھے جاتے ہیں۔ میرا حال اس کے برعکس ہے، اپنی صورت بدترین سمجھتا ہوں، اس لیے آئینہ کبھی نہیں دیکھتا ہوں۔ کہیں ریل کے سفر میں یا راستے میں کسی گلی میں گزرتے ہوئے کوئی بڑا آئینہ اتفاقاً سامنے پڑ جائے تو بات دوسری ہے۔

اپنی بے ہنگم داڑھی جو چہرے پر پھیلی ہوئی ہے، لیکن اپنی صورت کی ناپسندیدگی، داڑھی رکھنے کے دور سے قبل کی ہے۔ اس لیے فطرتاً اپنی تصویرکھنچوانا ہمیشہ ناپسند کرتا ہوں، شرعی پہلو سے قطع نظر، طبعی طور پر بھی۔

’’کپڑے کا شوق اب بالکل نہیں رکھتا، کھانے کا شوقین اب بھی ہوں، مٹھائی سے رغبت پہلے بہت تھی، اب بھی ہے۔ پڑھنے کا شوق بھی سرشت میں داخل ہے۔ کتاب جب مل جائے تو پھر پرواہ کسی سے ملنے جلنے کی نہیں رہتی، عزیزوں، قریبوں سے بھی نہیں۔ کتابوں کے حریص مجھے اپنے بعد دو ہی نظر آئے، ایک مولانا سلیمان ندوی اور دوسرے بابائے اردو، ڈاکٹر عبدالحق۔‘‘

مولانا عبدالماجد لکھتے ہیں ’’ اچھے شعر سننے کی جگہ، اچھے گانے کا بھی شوق رکھتا ہوں اور کچھ تھوڑی بہت پرکھ بھی۔ البتہ اس شوق کو دبائے ہوئے رکھتا ہوں۔ اچھی آواز کو سن کر کبھی وجد میں آ جاتا ہوں اور کبھی رو پڑتا ہوں۔ قوالی کئی سال تک سنی اور اس زمانے میں گریہ بہ کثرت ہوا کرتا تھا۔ میں خود بھی ترنم سے شعر پڑھ لیا کرتا ہوں، خصوصاً مثنوی وغیرہ۔ لڑکپن سے جوانی تک تھیٹر بہ کثرت دیکھے، رقص سے کبھی کوئی دلچسپی نہ ہوئی۔‘‘

مولانا لکھتے ہیں ’’ میری اپنی کتابوں پر تبصرے، عام اس کے کہ مخالفانہ ہوں یا تعریف میں پڑھنے کی عادت مدت سے ترک ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں اس کا اثر اچھا نہیں پڑتا، تعریف سے نفس خوامخواہ خوش ہوتا ہے اور اعتراض سے خوامخواہ ملول۔ ہاں تبصروں، تنقیدوں کا خلاصہ کسی نہ کسی سے ضرور سن لیتا ہوں کہ واقفیت قائم رہے۔‘‘

وہ لکھتے ہیں ’’ طبیعت زیادہ ملنے جلنے کی خو گر نہیں اور عقلاً اور تجرباتی طور پر زیادہ میل جول برائیاں ہی برائیاں زیادہ نظر آتی ہیں، پھر بھی خشک مزاج نہیں ہوں۔ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتا ہوں۔ حقیر سے حقیر آدمی سے بھی ملنے اور اس کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے میں بحمداللہ کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ بڑے اور چھوٹے ہر ملنے والے سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھوں اور ہو سکے تو اسے بھی کچھ سکھاؤں۔

’’ زبانی بحث و مباحث سے بہت گھبراتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو طبعی شرمیلا پن ہے، زبان بے دھڑک کھلتی نہیں ہے، دوسرے اپنی اشتعال پذیری سے بھی ڈرتا ہوں، معلوم نہیں غصے میں کچھ زبان سے نکل نہ جائے۔ غصہ ور ہونے کے ساتھ میں ایک زمانے میں بڑا ہنسوڑ بھی تھا۔ اب نہ ہنسی زیادہ آتی ہے اور نہ دل زیادہ خوش ہوتا ہے۔’’ میں کسی کے گھر پر جا کر کھانا بہت کم کھاتا ہوں۔ گھر پر بھی کھانا عموماً تنہا کھاتا ہوں۔

سہ پہر کو مغرب سے کوئی پون گھنٹہ قبل باہر برآمدہ میں نکل آتا ہوں، یہ وقت ملاقات کا عام ہوتا ہے۔ زیادہ لوگ تو آتے نہیں، بس دو چار آ جاتے ہیں، باتیں بھی کرتا جاتا ہوں، اخبار بھی پڑھتا جاتا ہوں۔ اخباری ڈاک بڑی کثرت سے آتی ہے، سب کہاں تک دیکھ سکتا ہوں۔ چند مخصوص روزنامے، ماہ نامے پڑھ لیتا ہوں، باقی یوں ہی بغیر پڑھے رہ جاتے ہیں۔ رسالے کسی نہ کسی کو دے دیتا ہوں۔ اخبارات ردی میں چلے جاتے ہیں، گو ردی کا فروخت کرنا دل پر بڑا بار رہتا ہے۔

’’ میں کسی کی جائز سعی و سفارش میں دریغ نہیں کرتا، حتی الامکان یہ لحاظ کر لیتا ہوں کہ جس کے نام سفارش نامہ جا رہا ہے، خود اس پر بھی بار نہ پڑے۔ اپنے ذاتی معاملات میں بھی اسی دنیا میں رہ کر، اسی میں پوری طرح پڑ کر اور گِھر کر، دوسروں کے بار احسان سے کامل سبک دوشی ممکن کیوں کر ہے۔ بس اس کا اہتمام کر لیتا ہوں کہ جس کسی کو لکھوں تو زیادہ سے زیادہ اپنی خودداری اور مخاطب کے رکھ رکھاؤ دونوں کا لحاظ رکھ کر۔

’’ روزے ایک زمانے میں عاشورہ محرم، ذی الحجہ اور پندرہویں شعبان کے رکھ لیا کرتا تھا اور اب رمضان ہی کے ہو جاتے ہیں تو یہی بڑی بات ہے، نمازیں الٹی سیدھی کسی طرح پڑھ لیتا ہوں اور جب فرض ہی میں حضور قلب سے محروم ہوں تو چاشت کا کیا سوال۔ تہجد میں پوری بارہ رکعتیں تو شاذ و نادر ہی نصیب ہوئی ہوں، بس اللہ میاں جو کچھ بھی اس کا اجر دیں کہ نمازیں جان کر ناغہ نہیں کیں۔‘‘

مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں۔ ’’کتاب بلکہ کہنا چاہیے کہ کتاب زندگی کا مشکل ترین باب یہی ہے کہ 75 سال کی زندگی کا خلاصہ کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے؟ جی میں تو بے اختیار یہی آ رہا ہے کہ داستانِ زندگی ( آہ کتنی لذیذ اور آہ کتنی تلخ) دونوں ہی ایک وقت میں کُل کی کُل بغیر ایک حرف چھوڑے دہرا دی جائے۔ داستانِ زندگی کے دہرانے میں لگتا ہے جیسے زندگی خود اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ سوچنے بیٹھیے تو اپنی زندگی قابل سخت نفریں و مستحقِ ملامت، اور نہ سوچیے تو جان عزیز سے بڑھ کر عزیز اور لذیذ کوئی شے ممکن نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔