مفاہمت کی پیشکش

محمد سعید آرائیں  منگل 12 مارچ 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو میثاق مفاہمت کی پیشکش کی ہے جب کہ اس سے پہلے انھوں نے بطور اپوزیشن لیڈر میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی جسے نہ صرف مسترد کردیا گیا تھا بلکہ یہ پیشکش کرنے والی اپوزیشن کے ساتھ پی ٹی آئی کے وزیراعظم نے وہ بدترین سلوک کیا تھا جس کی ملک کی 76 سالہ تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔

پی ٹی آئی کے وزیراعظم نے سیاسی انتقام کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے فخر سے کہا تھا کہ میں نے ماضی کے صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ، وزیروں اور اہم بیوروکریٹس سمیت تمام سابقہ عہدیداروں کو جیلوں میں ڈال دیا ہے اور اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا۔

سابق وزیراعظم ہونے سے قبل تک پی ٹی آئی کے وزیراعظم نے بھرپورکوشش کی تھی کہ تحریک عدم ناکام یا واپس ہو جائے تاکہ وہ اقتدار میں رہیں اور 2023 کے انتخابات سے قبل اپنے تمام مخالفین کو سزائیں دلاکر نااہل کروایں تاکہ وہ الیکشن ہی نا لڑسکیں اور پھر وہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوکر 2028 تک اقتدار میں رہیں اور مرضی کا آرمی چیف لاکر من مانی سے حکومت کرسکیں۔

شہباز شریف اپنے حامیوں کی مدد سے دوسری بار 201 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوگئے جن کا کہنا ہے کہ آٹھ فروری کو پی ٹی آئی کے خلاف ساڑھے چار کروڑ ووٹ پڑا اور وہ پھر اتحادی وزیراعظم منتخب ہوئے اور اب وہ سنی اتحاد کونسل کی شکل میں موجود پی ٹی آئی والوں کو ملک و قوم کے مفاد کے لیے میثاق مفاہمت کی پیشکش کرچکے ہیں۔

دور آمریت میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا اور بعد میں دونوں پارٹیوں نے مزید پانچ پانچ سال حکومت اور اپنی مدت پوری کی جس کے بعد دونوں نے 2018 میں پی ٹی آئی حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی جو مسترد کیے جانے کے بعد اتحادی وزیراعظم میاں شہباز شریف ملک کی بدترین معاشی اور سیاسی صورتحال کے باعث پی ٹی آئی کی اپوزیشن کو میثاق مفاہمت کی پیشکش کرچکے ہیں اور یہ پیشکش انھوں نے اپنی پہلی طویل تقریر میں ایسی حالت میں کی جب انھیں 92 ممبران قومی اسمبلی نے اپنا مخالف ہونے کے باعث نعرے بازی کی زد میں رکھا مگر نو منتخب وزیراعظم نے شدید ہنگامہ آرائی میں اپنی تقریر مکمل کر ہی لی ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پہلے بھی قومی اسمبلی میں ایسا ہوتا رہا اور ماضی میں ایسی صورتحال میں صدر جنرل پرویز مشرف نے قومی اسمبلی میں اپنے آئینی خطاب میں مخالفین کی ہنگامی آرائی پر شدید ردعمل دیا تھا اور پھر وہ دوبارہ نہیں آئے تھے۔

اب 2024میں حکومت سازی مکمل ہوچکی اور اتحادی حکومت کو قومی اسمبلی میں اپنے ایسے 92 ممبران کی شدید مخالفت کا سامنا رہے گا جو منصوبہ بندی کے تحت ہر اجلاس میں یہی ہنگامہ آرائی کرتے رہیں گے اور ایوان کے باہر بھی وہ اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

اب حکومت کی اپوزیشن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نہیں پی ٹی آئی ہے جس کا بانی جیل میں اور تین عشروں سے زائد کی عدالتی سزائیں پا چکا ہے جس کی ہدایت پر پی ٹی آئی نے میثاق مفاہمت قبول نہیں کرنا بلکہ ہر حالت میں حکومت کی شدید مخالفت کرکے اسے ناکام بنانا ہے اور ان کے لیے میثاق مفاہمت کی کوئی اہمیت نہیں نہ انھیں ملک کی تباہ حالی سے دلچسپی ہے۔

وہ ظلم کا بدلہ ووٹ کے بیانیے پر قومی اسمبلی میں آئے ہیں اور ان کا واضح موقف ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چرا کر یہ حکومت بنائی گئی ہے جو کسی صورت ہمیں قبول نہیں، اس لیے ہمارا واحد مطالبہ مینڈیٹ کی واپسی ہے تاکہ ہم خود حکومت بنائیں اور اپنے بانی کو رہا کرائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔