مقصد تعلیم ہے کیا؟

شہلا اعجاز  اتوار 24 مارچ 2024

’’ افتخار صاحب انگریزی پڑھاتے تھے اور شیکسپیئر کے ڈراموں خصوصاً جولیس سیزر میں یوں جان ڈال دیتے تھے کہ پڑھاتے وقت وہ خود ہمیں کبھی کیسیس کبھی انتھونی اورکبھی سیزر نظر آنے لگتے تھے۔ اتوار کے دن جب دفتروں میں چھٹی ہوتی تھی تو ان کی کلاس میں اتنے طلبا آ جاتے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہ جاتی تھی اور لڑکے کلاس روم سے باہر کھڑکیوں اور دروازوں سے لگے ان کا لیکچر سنتے رہتے تھے خاص طور پر انتھونی کی وہ تقریر جو اس نے سیزر کی لاش پر اس کو دفن کرنے سے قبل کی تھی وہ اس طرح پڑھاتے تھے کہ ایسے لگتا تھا جیسے سیزر کی لاش سامنے پڑی ہے اور انتھونی رومن فرینڈز اینڈ کنٹری مین خطاب کر رہا ہے۔ پیر کی کجی کے باعث افتخار صاحب لنگڑا کر چلتے تھے لیکن ان کی مقبولیت کی وجہ سے کبھی کسی طالب علم نے ان کی اس کجی کو نام کا حصہ یا نام نہیں بنایا البتہ آج تک جب بھی جولیس سیزرکا دوست انتھونی ہمیں یاد آتا ہے ہمارے فہم و تصور میں وہ لنگڑا کر ہی چلتا ہے۔‘‘

امراؤ طارق مرحوم کی ایک کتاب ’’ دھنک کے باقی ماندہ رنگ‘‘ جو دراصل خاکوں پر مبنی ہے، انتہائی دلچسپ اور منفرد جس میں سے درج بالا ایک اقتباس لیا گیا ہے۔ اس اقتباس کو منتخب کرنے کی وجہ دراصل ایک ایسا استاد تھا جو اپنے مضمون کو اس محنت اور جاں فشانی سے پڑھاتا تھا گویا وہ خود بھی ایک کردار ہی ہو جس کے خوب صورت رنگ ان کے طالب علموں کو اس حد تک متاثر کرتے تھے جس کا ثبوت وہ جماعت سے ابلتے شاگرد تھے جو کسی بھی طرح ان سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔

یہ نمونہ کسی پرائیویٹ یا انگریزی میڈیم کالج کا نہیں تھا بلکہ یہ داستان تھی اردو کالج کی کہ جس زمانے میں امراؤ طارق پڑھا کرتے تھے اور اس وقت ان کے پرنسپل میجر آفتاب حسن ہوا کرتے تھے۔آج امراؤ طارق کو گزرے بھی بارہ تیرہ برس ہو چکے ہیں جو پولیس میں 1992 میں ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے لیکن وہ ایک افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد بھی تھے۔ ان کی شخصیات کے خاکوں پہ مبنی اس کتاب کو پڑھنے کا موقع ملا تو اردو کالج اور اس کے حوالے سے اساتذہ کرام کے ذکر پر نظر ٹھہر سی گئی۔

کیا آج بھی ہمارے بچوں میں پڑھنے کا ایسا ہی جنون ہے، کیا واقعی آج بھی ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایسے ذہین اور ادبی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، خود امراؤ طارق کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے شعبہ تعلیم میں ہونے والی کرپشن اور اس سے حکومت کے اہم اداروں میں ہونے والے نقصانات کا ذکر بڑے دکھ سے کیا تھا۔

شاید اس لیے کہ وہ ایک حساس دل رکھنے والے لکھاری تھے یا شاید ان کی تعلیم و تربیت میں سخت محنت اور لگن کا جزو کوٹ کوٹ کر بھرا تھا بہرحال جو بھی تھا اس نے انھیں رنجیدہ ضرور کیا تھا۔

بیرون ملک ایک تربیتی ٹورکے بارے میں انھوں نے بتایا تھا کہ ادارے کی جانب سے غالباً امریکا گئے تھے اور ان کے ساتھ کوئی صاحب بھی تھے کہ جن کو اس بیرونی ٹور پر شاید سیر کرانے بھیجا گیا تھا کیوں کہ ان صاحب نے اپنی پہلی تربیتی کلاس میں امراؤ صاحب کو سخت شرمندہ کروایا تھا کیونکہ وہ صاحب انگریزی تو کیا ہی بول سکتے تھے انھیں تو پوچھے جانے پر اپنا نام تک بتانا نہیں آ رہا تھا ایسا نہ تھا کہ ان کے دیگر ساتھی ادارے میں اس قابل نہ تھے کہ وہ وہاں نہ جا سکیں لیکن آخر انھیں کیوں منتخب کیا گیا تھا اور بنیاد کیا تھی لیکن جس انداز میں وہاں ان کو لعن طعن کیا گیا دیگر ممالک کے لوگوں کے سامنے یہ انتہائی شرم ناک مقام تھا۔

یہ سلسلہ اگر کہیں تھم جاتا تو شاید ہماری قوم و ملت کے لیے سود مند رہتا لیکن یہ تو چلتا ہی رہا کہیں نہ رکا۔ وہ ایک اعلیٰ عہدے سے (ڈائریکٹر) ریٹائر ہوئے تھے انھیں ایک بڑے ادارے نے رجوع کیا مقصد ان کی قابلیت سے استفادہ کرنا تھا، صاحب نے قبول کر لیا اور صرف آنے جانے کے لیے پٹرول کا خرچ مانگا جب ادارہ ان کو ملازمت دینے کے لیے خطیر رقم آفر کر چکا تھا بہرحال ایک بڑے ایسے ادارے میں جہاں ہمارے ملک کے نوجوان کاروبار کے بارے میں جان سکیں جس کی فیس بھی خاصی تھی صاحب تعلیم کو بانٹنے کے جوش میں گئے لیکن پہلے ہی دن ان کے جوش اور ولولے پر اوس پڑ گئی۔

’’میں تو ان بچوں سے بات کر کے حیران رہ گیا۔ ان کی انگریزی تو کیا اردو بھی اچھی نہ تھی۔ ان کی تعلیمی قابلیت بھی خاص نہ تھی میں نے ان سے پوچھا کہ بچوں آپ لوگوں نے یہاں داخلہ کیا سوچ کر لیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ’’ سر! اس لیے تاکہ ہمیں اچھی ملازمت مل جائے۔‘‘

وہ یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ انھیں مختلف قسم کے جوابات ملیں گے لیکن جب سارا جوش محنت اور دوڑ ملا کی مسجد پر ختم ہونی ہو تو انسان اور کیا کر سکتا ہے، وہ نہیں جانتے تھے کہ انھوں نے اس بڑے ادارے میں پڑھنا کیوں منتخب کیا۔ کیا اس میں ان کا کوئی شوق، کوئی جذبہ کار فرما تھا یا نہیں؟

اسی طرح کا ایک تجربہ دو تین برس پہلے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدے پر فائز صاحب نے بیان کیا تھا، وہ خود نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے بھی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے، اچھے خاندانی پس منظر اور حلیم مزاج کے حامل۔’’ میں سندھ کی ایک انجینئرنگ یونیورسٹی گیا، وہ میٹالرجی کا شعبہ تھا، پوری کلاس بھری ہوئی تھی، میں بہت متاثر ہوا کہ ہمارے سندھ میں میٹالرجی جیسے شعبے میں اتنی عوام بھری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس شعبے کے بارے میں اتنی معلومات نہ تھیں تو میں نے ایک عام سا سوال پوچھا کہ ’’ آپ بتائیے کہ آپ نے یہ شعبہ کیوں چنا؟‘‘

پوری کلاس میں سناٹا چھا گیا، میں کچھ حیران ہوا، پہلے میں سمجھا کہ شاید بچے ایک نئے شخص سے ذرا ڈر گئے ہیں، میں نے اپنے رویے میں اور نرمی پیدا کی، اِدھر اُدھر کی باتیں کیں، پھر دوبارہ اپنا سوال دہرایا، تو ایک لڑکے نے ہاتھ اٹھایا، میں خوش ہوا کہ چلو کسی نے تو کچھ سوچا ہی ہوگا داخلہ لینے سے پہلے، لیکن اس کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔ اس نے کہا’’ اللہ سائیں نے ہمیں یہاں بھیجا ہے۔‘‘ اب میں نے کہا کہ’’ ٹھیک ہے کہ تمہیں اللہ سائیں نے ہی بھیجا ہے لیکن تمہارے خود کے ذہن میں بھی تو کچھ ہوگا‘‘ لیکن جواب ندارد۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں یہ صورت حال کس طرح پھل پھول رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ادارے کو دیمک لگا چکے ہیں کہ جس کی بنیادوں پر یہ ملک کھڑا ہے۔ کرپشن کی آگ ہر طرف پھیل چکی ہے، کیا ہم اس آگ پر قابو پا سکتے ہیں؟ آج ہم بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر خبریں شیئر کرتے ہیں، ایک سموسہ بیچنے والی کی بیٹی ایک اعلیٰ ادارے میں اہم عہدے پر فائز، فلاں مزدور کے بیٹے نے صوبے بھر میں اعلیٰ پوزیشن لی ہے لیکن حقیقت اس سے کہیں تلخ ہے، ہمارے ہاں گیہوں کے ساتھ گھن نہیں پس رہا بلکہ گھن کے ساتھ گیہوں کی چند بالیاں ہی نظر آتی ہیں باقی تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔

آج آپ کسی بھی طرح کی تحریر اٹھا کر پڑھ لیں، املا کی غلطیاں جی بھر کے ہوتی ہیں، وجہ وہ کاتب بھی ہوتے ہیں جو کمپیوٹر کے نقطوں پر منتقل کرتے اپنی تعلیمی استعداد کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ کاتب جو ہاتھ میں قلم اور سیاہی دوات سے کام چلاتے تھے ایسے استاد ہوا کرتے تھے کہ غلطی تو کیا بڑے بڑے لکھاریوں کی اصلاح کیا کرتے تھے۔

اب ایسے کمیاب موتیوں کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں جو ہمارے بچوں میں علم حاصل کرنے کی جوت جگائیں، جو علم کا مقصد سمجھائیں، ورنہ کیا کوئی سڑک پر تیز رفتاری سے چلاتا بس ویگن ڈرائیور ہو یا آسمانوں پر پرواز کرنے والا پائلٹ، کسی عام سے رسالے کے نقطے اِدھر اُدھر کرنے والا پروف ریڈر ہو یا لوگوں کی زندگیوں اور قوانین کو اِدھر اُدھر کرنے والا کوئی باوقار عامل، سب ایک برابر ہی تو ہیں۔ پر ہم پھر بھی پرامید ہیں کہ آس کی ڈور کبھی نہ ٹوٹے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔