ڈرون سازی میں پاکستان کی شاندار کامیابیاں

سید عاصم محمود  اتوار 31 مارچ 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ایم ون ابرامز (M1 Abrams)کا شمار دنیا کے سب سے طاقتور اور خطرناک ٹینکوں میں ہوتا ہے۔یہ امریکی فوج کا مرکزی یعنی مین بیٹل ٹینک ہے۔اس کی قیمت ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں چار سو چونسٹھ کروڑ روپے بنتی ہے۔

یہ ایک مہنگا اور بڑا بھاری ٹینک ہے۔پچھلے سال امریکا نے تیس سے زائد ایم ون ٹینک یوکرین کو فراہم کیے تھے تاکہ وہ روس کا مقابلہ کر سکے۔ حال ہی میں مگر انکشاف ہوا ہے کہ روسی بڑی ہوشیاری سے کام لے کر ایک سستے ہتھیار کی مدد سے اس نہایت مہنگے امریکی ٹینک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

صرف پانچ سو ڈالر لاگت

یہ سستا ہتھیار اسلحہ بردار ڈرون ہے جسے روس میں ’غول ‘ (Ghoul)کہا جاتا ہے۔یہ ایک چھوٹا ڈرون ہے جو آر پی جی۔7 کاایک راکٹ لیے اڑ سکتا ہے۔اس کی تیاری پہ صرف پانچ سو ڈالر لاگت آتی ہے۔تاہم اس ڈرون کی مدد سے روسی تین ایم ون ابرامز ٹینک تباہ کر چکے۔اس کے بعد یوکرینی امریکی ٹینکوں کو پیچھے لے گئے۔یوں روسیوں نے کمال ہوشیاری سے سستے ڈرون کو کام میں لا کر مہنگے امریکی ٹینک کو میدان جنگ میں بے اثر بنا دیا۔یہ واقعہ جدید جنگ وجدل میں ڈرون کی بڑھتی اہمیت بخوبی نمایاں کرتا ہے۔

عالم اسلام کے لیے فخر

یہ امر قابل فخر اور خوش کن ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے اُن گنے چنے ممالک میں شامل ہے جو اسلحہ بردار ڈرون بنا رہے ہیں۔عالم اسلام میں تو وطن عزیز ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے جس کے سائنس داں و ہنرمند اسلحہ بردار ڈرون بنانے میں کامیاب رہے۔یوں وہ بے پناہ رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود اپنی محنت و ذہانت کے بل بوتے پر قومی دفاع مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

دنیا کا پہلا اسلحہ بردار ڈرون (Unmanned combat aerial vehicle) ایم کیو ۔1 پریڈیٹر ہے جو امریکا میں 1995ء میں متعارف کرایا گیا۔2010 ء میں ترکی عالم اسلام میں اسلحہ بردار ڈرون تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا جب اس نے ٹی اے آئی انکا(TAI Anka)کو اپنی افواج کا حصہ بنایا۔تب سے ترکی سات اقسام کے اسلحہ بردار ڈرون تیار کر رہاہے۔

ترکی کا امتیاز

ترک سائنس داں اور ہنرمند مسلسل تحقیق وتجربات کرتے رہتے ہیں تاکہ نئے اور بہتر ڈرون بنا سکیں۔ترکی کے بنائے ڈرون پاکستان سمیت دنیا کے چھبیس ممالک استعمال کر رہے ہیں۔اس سے ترک ڈرونوں کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں ترک ڈرون کارگر ثابت ہوئے ہیں۔اسی لیے روس سے جنگ کرتے ہوئے یوکرینی بھی ترک ڈرون برت رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک ڈرون ٹیکنالوجی اور کارگذاری میں امریکی ڈرون کے ہم پلّہ ہیں۔

براق ڈرون

ترکی کے بعد پاکستان 2016 ء میں اپنا پہلا اسلحہ بردار ڈرون’’براق‘‘ متعارف کرانے میں کامیاب رہا۔یہ ڈرون فضا سے زمین پر مار کرنے والا ’’برق میزائیل ‘‘چھوڑ کر اپنے اہداف تباہ کر سکتا ہے۔یہ ڈرون عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم سرکاری ادارے، نیسکوم (The National Engineering & Scientific Commission)کے ہنرمندوں کی محنت ومشاقی کا شاہکار ہے۔

نیسکوم کی بنیاد 2000ء میں رکھی گئی تھی۔اس کے ذریعے دفاعی سائنس وٹیکنالوجی سے منسلک چار سرکاری اداروں کو متحد کر دیا گیا۔نیسکوم کے ماہرین اب تک مختلف اقسام کے میزائیل، گائیڈڈ بم، روایتی بم، بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ تیار کر کے قومی دفاع کو مضبوط کر چکے جس پر وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ادارے کے ماہرین ترکوں کی مدد سے انکا ڈرون بھی مقامی سطح پہ تیار کرتے ہیں۔

براق 22.97 فٹ لمبا، 29.53 فٹ چوڑا اور 6.56 فٹ اونچا ڈرون ہے۔اس کا کل وزن 500 کلو ہے۔یہ 500 کلو وزنی اشیا لے کر اڑ سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ رفتار 134 میل فی گھنٹہ ہے۔621 میل دور تک جا سکتا ہے۔اڑتے ہوئے 24,606 فٹ کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔یہ دو برق میزائیل فائر کرنے پہ قادر ہے۔

شہپر دوم

2021ء میں پاکستان نے اپنا دوسرا اسلحہ بردار ڈرون ’’شہپر دوم ‘‘متعارف کرایا۔ یہ ڈرون دفاعی سائنس وٹیکنالوجی سے متعلق ایک اور سرکاری ادارے، جی آئی ڈی ایس (Global Industrial Defence Solutions)کے ماہرین وہنرمندوں کی شاندار تخلیق ہے۔ادارے کے ماہرین اس ڈرون کا اگلا نمونہ یا ورژن، شہپر سوم ایجاد کرنے کے لیے دن رات محنت وکوششوں میں مصروف ہیں۔

شہپر دوم 26.3 فٹ لمبا اور31 فٹ چوڑا ڈرون ہے۔اڑتے وقت زیادہ سے زیادہ وزن 1,075 کلو ہوتا ہے۔ اس کی رفتار 220 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔مسلسل بیس گھنٹے دشمن کی جاسوسی کر سکتا ہے۔اگر اس میں میزائیل لگے ہوں تو بارہ گھنٹے مسلسل اڑ سکتا ہے۔جاسوسی کے دوران 23 ہزار فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔مسلح ہو تو21 ہزار فٹ تک پہنچ پاتا ہے۔اس میں چار برق میزائیل یا دیگر اسلحہ لادا جا سکتا ہے۔اس کی حد مار ایک ہزار کلومیٹر تک ہے۔ یعنی وہ اتنی دور تک جا سکتا ہے۔ شہپر دوم میں درج ذیل جدید ترین آلات نصب ہیں تاکہ وہ بہترین انداز میں اڑ سکے، ہدف کو درست نشانہ بنائے اور دشمن کے حملوں سے بچ سکے:

GIDS Zumr-II (EO/IR) multi-sensor turret٭

Autonomous GPS-based tracking and control      system    ٭

Real-time data link (LoS) (300 km range)٭

SATCOM data link (1500 km range)٭

شہپر سوم

ذرائع کے مطابق اس وقت نیسکوم اور جی آئی ڈی ایس کے ماہرین شہپر کا اگلا ورژن، شہپر سوم ڈیزائین و تیار کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ نیا نمونہ زیادہ بڑا اور جدید ترین آلات سے لیس ہو گا۔ خیال ہے کہ اس کا اسلحے سمیت کل وزن 1,650 کلو تک ہو گا۔یہ ڈرون چالیس گھنٹے تک مسلسل اڑ سکے گا۔41 ہزار فٹ کی بلندی چھو لے گا۔ نیز اس میں چھ بم یا میزائیل لادنا ممکن ہو گا۔ یوں پاکستان ایک زیادہ کارگر ڈرون بنا لے گا۔یہ ڈرون تین ہزار کلومیٹر تک پہنچ کر دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھے گا جو ایک زبردست خوبی ہے۔

ترکی اور پاکستان کے علاوہ ایران بھی چھ اقسام کے اسلحہ بردار ڈرون تیار کر چکا مگر ان کی کارکردگی ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔ترکی کے ڈرون تو کئی جنگوں میں استعمال ہو چکے، پاکستان بھی دہشت گردوں کے پہاڑی ٹھکانے تباہ کرنے کی خاطر اپنے ڈرون کام میں لا چکا۔اس لیے پاکستانی ڈرون بھی عملی تجربات سے گذر کر کامیابی و داد پا چکے۔ان کی موجودگی سے وطن عزیز کا دفاع طاقتور ہوا ہے۔

ونگ لونگ دوم

پاکستان چین اور ترکی کے اسلحہ بردارڈرون بھی اپنے اسلحہ خانے میں رکھتا ہے۔چین کا ڈرون، ونگ لونگ دوم (CAIG Wing Loong II)ممکنہ طور پہ پاک فضائیہ کے زیراستعمال ہے۔ یہ 36 فٹ لمبا اور 67. 3فٹ چوڑا ڈرون ہے۔زیادہ سے زیادہ 4,200 کلو وزن لیے اڑ سکتا ہے۔اس پہ 480 کلو وزنی میزائیل یا بم لادنا ممکن ہے۔230 کلومیٹر فی گھنٹہ زیادہ سے زیادہ رفتار ہے۔32 گھنٹے فضا میں رہنے کے قابل ہے۔32,500 بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔یہ 1,000 کلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔

بیرقدار آکینجی

پاکستان سات یا زیادہ ترک ساختہ ’’بیرقدار آکینجی‘‘ (Baykar Bayraktar Akinci) ڈرون بھی استعمال کر رہا ہے۔یہ ایک بڑا اسلحہ بردار ڈرون ہے۔اس کی لمبائی 40 فٹ اور چوڑائی 65.7فٹ ہے۔یہ 5,500 کلو وزن تک لے کر اڑ سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ رفتار 361 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔7,500 کلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔مسلسل پچیس گھنٹے اڑنے پہ قادر ہے۔45 ہزار فٹ بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔اس میں آٹھ مختلف اقسام کے میزائیل، بم اور راکٹ لگ سکتے ہیں۔

بیرقدار ٹی بی ٹو

پاکستان ایک اور ترکی ساختہ اسلحہ بردار ڈرون،بیرقدار ٹی بی ٹو(Bayraktar TB2) بھی اپنے اسلحے خانے میں رکھتا ہے۔یہ 21.4فٹ لمبا اور 39.4 فٹ چوڑا ڈرون ہے۔زیادہ سے زیادہ 700 کلو وزن لے کر اڑ پاتا ہے۔222 کلومیٹر زیادہ سے زیادہ رفتار ہے۔4 ہزار کلومیٹر دور تک حد ِمار رکھتا ہے۔25 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ستائیس گھنٹے مسلسل اڑنے پہ قادر ہے۔اس میں چار میزائیل یا بم لادے جا سکتے ہیں۔

نئی قومی عسکری پالیسی

ڈرون کی بڑھتی اہمیت کے پیش نظر اب افواج پاکستان کی یہ پالیسی بن رہی ہے کہ اس ہتھیار سے نہ صرف جاسوسی کا کام لیا جائے بلکہ اسے دشمن کے ٹھکانوں پہ حملہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن ہے۔یہ ایک نئی جنگی حکمت عملی ہے جس پہ پاکستانی افواج سنجیدگی سے کام کر رہی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ دفاع ِ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا دیا جائے۔

حال ہی میں نئے شروع کیے گئے نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک (NASTP) کا احاطہ کرنے والی ایک نئی پروموشنل ویڈیو میں پاکستان ایٔر فورس نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے نئے شامل کردہ ترک ڈرونوں میں متعدد اسٹینڈ آف رینج (SOW) فضا سے زمین تک مار کرنے والے میزائیل مربوط کر رہی ہے۔پاک فضائیہ آکینجی اور بیرقدار ٹی بی ٹو حاصل کر کے ایک ‘ہیوی ویٹ-ہلکا امتزاج ‘‘پانے میں کامیاب رہی ہے۔

جدید ترین ہتھیار

پارک میں پاک فضائیہ کے آکینجی ڈرون Akinci کو ’انڈیجینس رینج ایکسٹینشن کٹ‘ (IREK) پریزیشن گائیڈڈ بم (PGB) کٹ، لیزر گائیڈڈ بم (LGB) اور MK-83 جنرل پرز بم (GPB) کے ساتھ دکھایا گیا ۔ دوسری طرف ٹی بی ٹو میں KEMANKES کروز میزائل نصب تھے۔ اس کا وزن 30 کلو گرام ہے اور یہ 6 کلوگرام وار ہیڈ کے ساتھ 200 کلومیٹر کی رینج رکھتا ہے۔پاک فضائیہ کا کہنا ہے کہ وہ KEMANKES کروز میزائل کا جدید ترین ورژن (سوم) بھی حاصل کر چکی جو مبینہ طور پر بڑا اور طویل فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل ہے۔

ماہرین عسکریات کا کہنا ہے، آکینجی اور ٹی بی ٹو میں نصب جدید اسلحے کی تنصیب اس امر کا ثبوت ہے کہ پاک فضائیہ ڈرون کو ’’اسٹرائیک اثاثے‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ایف کے آکینجی ڈرون کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ دکھایا گیا ، خاص طور پر 500 کلوگرام کلاس MK-83s بم لیے ہوئے، چاہے وہ فری فال GPBs، لانگ رینج PGBs، یا LGBs ہوں۔

ڈرون کی اہم خوبیاں

ڈرون کو حملہ کرنے کے ہتھیار کا درجہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی شکل میں افواج پاکستان کے پاس ایسا سستا اسلحہ آ جائے گا جو کارگر بھی ہے۔حالیہ جنگیں اس تاثر کو مضبوط کر رہی ہیں۔جیسا کہ آغاز ِ مضمون میں بتایا گیا کہ سستے روسی ڈرون نے مہنگے امریکی ٹینک تباہ و برباد کر ڈالے۔

ایک اور اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اسلحہ بردار ڈرون میں کوئی انسان براجمان نہیں ہوتا، صرف مشین ہی دشمن کے علاقے میں جاتی ہے۔اس طرح قیمتی انسانی زندگیاں بھی خطرے میں نہیں پڑتیں اور محفوظ رہتی ہیں۔

تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ نئے ڈرون مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر اہداف پہ درست نشانہ لگانے لگے ہیں۔یوں ان کی افادیت اور کارکردگی میں اضافہ ہو گیا۔

ڈرون کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو جعلی یعنی ڈیکوئے(Decoy) یا ڈمی ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنا بھی ممکن ہے۔ ہمارا دشمن، بھارت روس اور دیگر ممالک سے اینٹی میزائیل بڑی تعداد میں خرید رہا ہے۔مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے میزائیلوں کو بے اثر بنایا جا سکے۔بھارت کا یہ اینٹی میزائیل نظام توڑنے کی خاطر ڈرون کام میں آ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پہ ایسے ڈرون بنا لیے جائیں جو جنگی طیاروں یا بڑے میزائیلوں سے مماثلت رکھتے ہوں۔ان کی تیاری پہ زیادہ خرچ نہیں آئے گا۔مگر وہ بھارت کے مہنگے اینٹی میزائیل تباہ کرنے کا باعث بن جائیں گے۔یوں دشمن کا اینٹی میزائیل نظام کمزور کر کے ممکن ہو جائے گا کہ اصلی ڈرون اور میزائیل بھیج کر اس کے فوجی اڈے اور عسکری تنصیبات تباہ کی جا سکیں۔

یہ درست ہے کہ ڈرون مار گرانے کے لیے بھی سائنس داں مختلف اقسام کا اسلحہ بنانے لگے ہیں۔جیسے امریکا میں لیزر گن کی تیاری جاری ہے۔اس سے اڑتے ڈرون کو سستے انداز میں نشانہ بنایا جا سکے گا۔مگر دوسری طرف ڈرون بنانے والے ماہرین بھی ڈرونوں میں ایسے جدید آلات نصب کر رہے ہیں جن کی مدد سے انھیں نشانہ بنانا کٹھن مرحلہ بن جائے۔

پاکستان معاشی طور پہ کمزور ملک ہے۔اس کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں ہیں کہ وہ جدید ترین اسلحہ بڑی تعداد میں خرید سکے۔جبکہ اسی دوران بھارت معاشی طور پہ طاقتور ہو چکا۔اور بدقسمتی سے بھارت میں قوم پرست ہندو اقتدار میں آ چکے جو پاکستان کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنانا چاہتے ہیں۔ اس مخالفانہ ماحول میں ضروری ہو چکا کہ افواج پاکستان ڈرون جسیے جامع کمالات رکھنے والے ہتھیار سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔یوں دشمن کا منہ توڑ مقابلہ کرنا سہل ہو جائے گا۔

مثال کے طور پرJF-17 یا F-16 کو اڑانے کے لیے ڈرون سے زیادہ لاگت آتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پی اے ایف انسانی تیز رفتار جیٹ طیاروں کے مقابلے میں درست طریقے سے حملوں کے لیے آکینجی پر زیادہ انحصار کرسکتی ہے۔ بدلے میں پی اے ایف اپنے F-16 اور JF-17 کو اسٹرائیک مشن کے دباؤ سے بچا سکتی ہے ۔جبکہ یہ طیارے بیرونی روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری دستیاب بھی ہوں گے۔

دہشت گردوں کا مقابلہ

پاکستان دشمن تنظم، ٹی ٹی پی کے جنگجو پڑوسی ملکوں میں اپنی کمیں گاہیں اور اڈے بنا چکے۔پاکستان دشمن طاقتیں انھیں ہر ممکن عسکری ومالی مدد بھی فراہم کر رہی ہیں۔پاک افواج اب اپنے چار اسلحہ بردار ڈرون کے ذریعے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی اچھی پوزیشن میں آ گئی ہیں۔

پاکستانی ڈرون نہ صرف دہشت گردوں کی سرگرمیوں پہ نظر رکھ سکتے ہیں بلکہ ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر انھیں تباہ بھی کر سکتے ہیں۔یوں کسی انسانی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر پاکستان کو اپنے اسلحہ بردار ڈرون کی صورت میں ایسا کارگر و سستا ہتھیار مل گیا گیا ہے جس کی مدد سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا صفایا کرنا ممکن ہے۔یہ ڈرون سمارٹ اسلحہ رکھتے ہیں اور کسی بے گناہ کو نشانہ نہیں بناتے اور نہ کوئی سول عمارت ان سے تباہ ہوتی ہے۔

ماضی میں دہشت گردوں کے اڈوں پہ حملے کرنے کے لیے جنگی طیارے استعمال ہوتے تھے جن کو برتنے پہ اچھی خاصی رقم استعمال ہوتی ہے۔مگر اب سستے ڈرونوں کی مدد سے وہی کام زیادہ بہتر انداز میں انجام دینا ممکن ہو چکا۔یہ ایک نمایاں اور خوشگوار تبدیلی ہے۔ڈرون طویل عرصے تک ہوا میں رہ سکتے ہیں۔ ہوائی عملے کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجبور نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔یہ مستقل طور پہ حرکت پذیر ہدف بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

خوش آئند خبر

ایک خوشی کی خبر یہ ہے کہ پاکستان ساختہ اسلحہ بردار ڈرون دنیا بھر میں مقبول ہو رہے ہیں۔گویا ان کا معیار اتنا زیادہ اچھا ہو چکا کہ اب پاکستان انھیں دیگر ممالک کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں بھارت اسلحہ بردار ڈرون بنانے کے میدان میں خاصا پیچھے ہے۔بھارتی سائنس داں اب تک صرف ایک اسلحہ بردار ڈرون، گھاتک بنا پائے ہیں۔گو وہ ڈرون طیارہ بنانے کی تگ ودو میں ہیں۔

بھارتی ماہرین کی ’’مشہوری‘‘

بھارت کے ماہرین کی مگر سستی و نااہلی دنیا بھر میں ضرب المثل بن چکی۔وہ ایک ہتھیار بناتے ہوئے کئی برس بلکہ عشرے لگا دیتے ہیں۔اور جب خدا خدا کر کے ہتھیار تیار ہو بھی جائے تو رفتہ رفتہ اس میں خامیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔یوں وہ ایجاد غلطیوں کی پوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔بھارتی ماہرین نے کم ہی ایسے ہتھیار تیار کیے ہیں جو غلطیوں سے پاک ہوں۔

پاکستانی ماہرین کی شہرت دنیا بھر میں اچھی ہے کیونکہ وہ اپنی محنت و ذہانت اور جذبہ حب الوطنی کے بل بوتے پر بروقت غلطیوں سے پاک اسلحہ ایجاد کر لیتے ہیں۔ان کے بنائے ہتھیاروں میں بھی سقم ہوتے ہیں۔مگر وہ اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ انھیں دور کرتے کرتے کئی سال بیت جائیں۔

حال ہی میں پاکستان نے 11 ممالک کے فوجی حکام کو شہپر دوم (بلاک ٹو )ڈرون دکھایا ۔یہ شہپر دوم کا نیا نمونہ یا ورژن ہے۔پاکستانی ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ چین کے ڈرون، CH-4 اور ترکی کے TB2 سے بہتر ہے۔ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز (GIDS) نے گیارہ اتحادی ممالک کے سینئر فوجی نمائندوں کے سامنے شہپر دوم کی براہ راست فائرنگ کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔

یہ مظاہرہ بہاولپور میں انجام پایا۔شہپر دوم نے اپنے ہوا سے زمین پر مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل “برق” کا استعمال کرتے ہوئے 14 ہزار فٹ کی بلندی سے اہداف کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔اس کی فائرنگ کی صلاحیتوں کی درستگی اور کارکردگی پوری طرح سے ظاہر تھی کیونکہ پاکستانی ڈرون نے زمینی اہداف کو درست طریقے سے بے اثر کر دیا۔معزز مہمانوں میں سعودی عرب، آذربائیجان، کینیا، نائجیریا اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی نمائندے شامل تھے۔

اس تقریب نے گیارہ ممالک کو پاکستان کی مقامی ڈرون ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کا خود مشاہدہ کرنے اور دفاع میں ممکنہ تعاون تلاش کرنے کا موقع فراہم کیا۔آن لائن گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جی ڈی آئی ایس کے حکام دوست ممالک کے نمائندوں کو شہپردوم کی جنگی صلاحیتوں کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں۔ تصاویر بتاتی ہیں کہ مظاہرے کے دوران، شہپردوم (بلاک II) نئے Zumr-2-HD EO سینسر اور دو برق اول میزائلوں سے لیس تھا۔

یہ مظاہرہ ڈرون ٹیکنالوجی میں پاکستان کی ترقی اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے عزم کا ثبوت ہے۔یہ پیش رفت پاکستان کی اپنے فضائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو متنوع بنانے اور دفاعی شعبے میں تکنیکی جدت طرازی میں آگے رہنے کے لیے جاری کوششوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔