- عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، فیصل واوڈا
- پاکستان کی غزہ کے لیے 350 ٹن امداد کی ساتویں کھیپ مصر پہنچ گئی
- حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کردی
- کنٹینرز کی کلیئرنس نہ ہونے پر کراچی ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں کا ہڑتال کا اعلان
- سلوواکیہ کے وزیراعظم قاتلانہ حملے میں شدید زخمی
- علی امین گنڈاپور نے لوڈشیڈنگ میں کمی کیلیے وفاق کو ڈیڈ لائن دے دی
- کراچی میں درجہ حرارت 39.9 ڈگری، دادو میں 48.5 ڈگری ریکارڈ
- پاکستان سینٹرل ایشین والی بال لیگ کے فائنل میں پہنچ گیا
- مسلح افراد نے پولیس وین پر حملہ کرکے ساتھی کو رہا کروالیا؛ 2 افسران ہلاک
- پاک فوج کے شہید میجر بابر نیازی میانوالی میں سپرد خاک
- اسرائیل کا لبنان میں کار پر ڈرون حملہ؛ حزب اللہ کے کمانڈرز شہید
- حکومت مستعفی ہو، فوج انتخابات سے دور رہے، مولانا فضل الرحمان
- اسرائیل رفح میں فوجی آپریشن فوری طور پر ختم کرے؛ یورپی یونین کا مطالبہ
- ملک میں کسانوں کیلئے بڑی خبر، یوریا کی قیمتوں میں کمی کا امکان
- پہلے پی آئی اے کی نجکاری ہوگی، ٹی وی پر براہ راست دکھائیں گے، وفاقی وزیرسرمایہ کاری
- الجزائر؛ 26 سال سے لاپتا شخص قریبی گلی سے مل گیا
- مسلم لیگ (ن) کی ایک اور سیٹ کم ہوگئی، رانا ارشد کی جیت کا نوٹیفکیشن کالعدم
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتہ شاعراحمد فرہاد کو کل تک ہر صورت بازیاب کرانے کا حکم
- ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں روپیہ تگڑا
- اسٹریٹجک مذاکرات؛ چین کی پاکستان کو خود مختاری اور مسئلہ کشمیر پر حمایت کی یقین دہانی
پنجاب سے گزشتہ سال ڈھائی ہزار بچے اغوا، 891 جنسی زیادتی کا نشانہ بنے
لاہور: اسسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں صوبہ پنجاب میں بچوں پر تشدد کے واقعات کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ رہی جو متعلقہ اداروں کی فوری توجہ کا تقاضہ کرتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر بچوں کے اغوا کے 2534 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے گزشتہ سال 2022 میں بچوں کے اغوا کے 2539 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
سال 2023 کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزانہ اوسطاً 7 بچوں کو اغوا کیا گیا، یہ ایک خطرناک اعشاریہ ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بچوں کے اغوا کی روک تھام کے حوالے سے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
اس سلسلے میں سب سے حساس اضلاع کے لحاظ سے زیادہ تر کیسز لاہور (840)، سیالکوٹ (194) اور گوجرانوالہ (143) سے رپورٹ ہوئے۔
اسی طرح جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد بھی تشویش کا باعث تھی۔ سال 2023 میں مجموعی طور پر 891 کیسز سامنے آئے جبکہ 2022 میں یہ تعداد 621 تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں ہر ہفتے تقریبا 17 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک بار پھر لاہور (346) رپورٹ کیسز کے لحاظ سے نمایاں اور حساس ترین رہا۔ اس کے بعد شیخوپورہ میں 76 اور بہاولنگر میں 61 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ، چائلڈ پورنوگرافی کے 12 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اس سال بچوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی انتہائی تشویشناک ہیں، 2023 میں 493 واقعات رپورٹ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ہفتے ملک بھر میں اوسطا 9 بچے قتل کیے گئے۔ بچوں کے قتل کے مختلف رپورٹ کردہ واقعات کے لحاظ سے لاہور (61)، فیصل آباد (32) اور گوجرانوالہ (26) نمبر پر تھے جبکہ یہ شہر درج کردہ کیسز کے لحاظ سے بڑے ہاٹ اسپاٹ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
سال 2022 سے 2023 تک بچوں کی اسمگلنگ اور جسمانی استحصال کے واقعات میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں 157 بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 2022 میں یہ تعداد 83 تھی۔ اسی طرح 2023 میں بچوں کی اسمگلنگ کے 108 واقعات کی رپورٹ درج کی گئیں جبکہ 2022 میں یہ تعداد 49 تھی۔
جسمانی تشدد کے رپورٹ کردہ واقعات میں سیالکوٹ (37)، فیصل آباد (16) اور شیخوپورہ (11) کے ساتھ ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں جبکہ بچوں کی اسمگلنگ کی درج کردہ رپورٹس کے مطابق ٹوبہ ٹیک سنگھ (51) اور چنیوٹ (35) کیسز کے طور پر نمایاں ہیں۔ ان اضلاع کو بھی بچوں کی اسمگلنگ کے ہاٹ اسپاٹس میں شامل کیا گیا ہے۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی زیادتی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ پنجاب میں پولیس ان کیسز کو رجسٹر کرنا شروع ہوگئی ہے، اب عدالتوں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں پر تشدد کے کیسز پر سخت اور جلد فیصلہ دیں تاکہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے اور اس جرم کو روکا جا سکے۔
کوثر عباس نے کہا کہ ’’ہر نمبر ایک ایسے بچے کی نمائندگی کرتا ہے جس کی حفاظت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے، یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تشدد اور استحصال سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔ صرف ہماری مشترکہ کوششیں ہی ہر بچے کے محفوظ اور روشن مستقبل کو یقینی بنانے میں کارآمد ہو سکتی ہیں۔
واضع رہے کہ یہ اعداد و شمار آئین کے آرٹیکل 19 اے اور پنجاب ٹرانسپیرنسی اور معلومات تک رسائی کے قانون 2013 کے تحت پنجاب پولیس میں ’’رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘ درخواست دائر کرکے جمع کیے گئے تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔