استحکام کیلئے خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 13 مئ 2024
دوست ممالک ، آئی ایم ایف اور دنیا کی مدد وقتی حل، ہمیں اپنے قدرتی وسائل، موسم، زراعت، معدنیات اور نوجوان آبادی سے فائدہ اٹھا نا ہوگا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : وسیم نیاز

دوست ممالک ، آئی ایم ایف اور دنیا کی مدد وقتی حل، ہمیں اپنے قدرتی وسائل، موسم، زراعت، معدنیات اور نوجوان آبادی سے فائدہ اٹھا نا ہوگا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : وسیم نیاز

ملک کو درپیش معاشی چیلنجز اور ان کا حل کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںماہر معاشیات،بزنس کمیونٹی اور کسانوں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم

(ماہر اقتصادات)

ملک کے معاشی حالات اس وقت اچھے نہیں ہیں جس کی وجہ حکومتوں کی غلطیاں ہیں۔ کچھ غلطیاں تحریک انصاف کی حکومت نے کیں، پھر پی ڈی ایم ون نے بھی قرضے چڑھا دیے،آئی ایم ایف سے قسط بھی لے لی اور مزید شرائط بھی مان لی۔ جب عبوری حکومت آئی تو معیشت 0.5 فیصد پر تھی،مہنگائی 29 فیصد سے زیادہ جبکہ شرح سود 22 فیصد تھی۔ 1 کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بے روزگار تھے۔

عبوری حکومت نے بھی مزید قرضے لیے مگر کچھ نوکریاں دے کی معاشی گروتھ 0.8 فیصد پر لے آئی۔ الیکشن پر اعتراضات اور الزامات اپنی جگہ مگر یہ اچھا ہوا کہ انتخابات ہوئے اور ملک میں جمہوریت آگے بڑھی جس کے نتیجے میں ’پی ڈی ایم2‘ کی حکومت آئی ۔ اس حکومت نے آتے ہی قرضے لیے ، اب آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پیکیج کے لیے بات چیت جاری ہے۔یہ حکومت شاید آئی ایم ایف کے مطالبے پر ایف بی آر میں اصلاحات جیسے اقدامات کرے گی۔ ’پی ڈی ایم 1- ‘ کے دور میں ’ایس آئی ایف سی‘ کی شکل میں ایک بورڈ بنا جس میں فوج، سیاستدان اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔

یہ بورڈ ملک کی زراعت، معدنیات بیچے گا، ایئرپورٹ اور سڑکیں گروی رکھوا کر قرضے واپس کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ خوش آئند ہے کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اورایران ہماری معدنیات خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر اس کے نتیجے میں ملک میں صنعتیں لگتی ہیں تو بے روزگاری دور ہوگی، ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا اور ایکسچینج ریٹ نیچے آئے گا۔ سعودی سرمایہ کاری ریفائنریزمیں ہے، ایران کی سرمایہ کاری گیس اور معدنیات کے شعبے میں ہے جس سے ہم اپنے پرائمری پراڈکٹس کو ہی بیچیں گے، ان میں ویلیو ایڈیشن نہیں ہوگی۔

ہمارے حکمران چاہے ان کا تعلق مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت کسی بھی جماعت سے ہو، ان مین اشرافیہ موجود ہے جو ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ قرضوں سے انہیں تو فائدہ ہورہا ہے لیکن عام آدمی کو نہیں۔ گندم کی بمپر کراپ ہوئی تو اشرافیہ نے گندم درآمد کرلی جس سے کسان رل گیا ہے، کسان کو نہ گندم کی قیمت مل رہی ہے اور نہ ہی اس سے اناج لیا جا رہا ہے۔ اگریہی جاری رہا تو اشرافیہ یہاں سے پیسے بنا کر امریکا، برطانیہ سمیت بیرون ممالک بھیجتی رہے گی اور خط غربت کے قریب 94 ملین آبادی کو کچھ نہیں ملے گا۔

مڈل کلاس مزید پستی میں جا رہی ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس مزید مہنگے ہو رہے ہیں۔ دنیا سے خریداری کے باعث ڈالر بھی مہنگا ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم سے لے کر موجودہ حکومت تک، تینوں حکومتوں میں شرح سود 22 فیصد پر رہی ہے۔ اس پر مقامی سرمایہ دار کام نہیں کر سکتا، بیرونی سرمایہ کار شاید راضی ہو جائے۔ 18مئی کو سعودی یہاں آئیں گے تو پھر جوائنٹ وینچرز کا معلوم ہوگا۔ سی پیک منصوبے کا حال سب کے سامنے ہے، نواز شریف دور میں دھوم دھام سے اس کا آغاز ہوا ، اس کی سڑکیں تو شاید بن گئی مگر سرمایہ کاری و دیگر منصوبوں کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہوسکی، گوادر بھی ماضی کی حالت پر ہی کھڑا ہے۔

ہمارے 36 ملین بچے سکول نہیں جاتے، جو سکول جاتے ہیں ان میں سے بھی صرف 2 ملین بچے میٹرک تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہماری لیبر کے پاس جدیدسکلز نہیں ہیں، نوجوانوں میں مہارت کی کمی ہے، ہماری زمین سب سے کم پیداوار دے رہی ہے، ہماری صنعت باہر سے مال منگوا رہی ہے، ہم کپاس اور اناج بھی درآمد کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے، ایسے میں ملکی معیشت کیسے چلے گی؟ جب تک ہم معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کریں گے، معاشی پالیسی نہیں دیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت بجٹ میں کیا پالیسی لائن دیتی ہے ۔

اس سے معلوم ہوگا کہ ہم نے زراعت، سیاحت، بڑی یا چھوٹی صنعتوں سے فائدہ اٹھانا ہے یا بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں سے کہنا ہے کہ وہ پیسہ بھیجیں۔ بیرون ملک پاکستانی پہلے 30 ملین بھیجتے تھے جو کم ہوکر 27 ملین پر آگئے ہیں، ہمارے مالی ذخائر 8 سے9 ملین کے رہ گئے ہیں جبکہ قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے 7بلین تک قرض دینا ہے جبکہ ہم نے 25 بلین سے زائد کے قرضے دینے ہیں۔ حکومتیں بڑی ہیں، اخراجات زیادہ ہیں، کرپشن اور وسائل کا غلط استعمال زیادہ ہے، ٹیکس اکٹھا نہیں ہورہا، اس طرح ملک نہیں چلایا جاسکتا۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔

آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ ہمارے پاس نوجوان آبادی زیادہ ہے اور دنیا کی چھٹی بڑی فوج بھی ہے۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل زیادہ ہیں، ہوا، پانی، سونا، معدنیات، موسم ، سب کچھ ہے، اگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا توملک میں کبھی معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ بدقسمتی سے ہماری سٹیل مل کا برا حال کر د یا گیا۔ اب پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے، ریلویز کا حال بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بہت سارے سرکاری ادارے سفید ہاتھی ہیں جو بجٹ کھا رہے ہیں۔ یہ سب بوجھ بن چکے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں سسٹم کو’ری ویمپ‘ کرنا پڑے گا،ا س کیلئے نئے انداز سے سوچنا ہوگا۔ ہمیں منصوبہ بندی کرنی ہے جس کا مرکز زمین، آجر، مزدور اور وسائل کو ہونا چاہیے۔

ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے لیکن یونیورسٹیاں تو موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ ہمارا سروس سیکٹر جی ڈی پی کا 52 فیصد دیتا ہے لیکن یہ برآمد کے قابل نہیں۔ ہمارے ڈاکٹر بہترین ہیں۔ یہاں جو بھی قابل ہے وہ خاندان سمیت بیرون ملک چلا جاتا ہے، یہاں کچھ نہیں بھیج رہا۔ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہاں قانون، انصاف اور تحفظ نہیں ہے۔ بیوروکریسی اور پالیسیوں کے مسائل الگ ہیں۔ جب تک لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں ختم نہیں کی جائیں گی، انہیں سہولیات اور سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جائے گا تب تک ملک میں معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

راجہ حسن اختر

(ایگزیکٹیو ممبر، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز)

سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی وفد کا پاکستان آنا خوش آئند ہے۔ سعودی عرب پاور سیکٹر، پی آئی اے اور ریکو ڈک سمیت مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ میرے نزدیک سعودی وفد کا پاکستان آنا، یہاں سرمایہ کاری کانفرنس کا ہونا، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار کرنے کیلئے ہے۔

سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ سعودی عرب یہاں موجود وسائل، حکومت اور اداروں کے حوالے سے اپنا ہوم ورک کر رہا ہے، اس کے بعد سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں جس میں ہمیں سعودی وفد کو اچھے انداز میں خوش آمدید کرنا ہے۔

اگر سعودی ولی عہد بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان آتے ہیں تو یہ یقینا بڑی بات ہے ۔ میرے نزدیک دوست ممالک پر انحصار ایک حد تک تو ٹھیک ہے مگر ہمیں خود انحصاری کی جانب بڑھنا ہوگا۔ کب تک ہم اپنے دوستو ں کی طرف دیکھتے اور دنیا سے مدد مانگتے رہیں گے۔ ہمیں اپنی صنعت کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ پاکستان زرعی ملک ہے،ہمیں اپنی زراعت پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں اپنی درآمدات کم اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان اس وقت ’آئی سی یو‘ میں ہے۔ ہمارا بجٹ 14ہزار ارب کا ہے جس میں 9 ہزار ارب روپے خسارہ ہے جسے پورا کرنے کیلئے ہم آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔

آئی ایم ایف پہلے ہم سے اپنی قسط لیتا ہے اور پھر اگلا پیکیج دیتا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے پہلے 7 ارب ڈالر لے چکا ہے اور اب 8 ارب ڈالر کیلئے کوشش جاری ہے۔ میرے نزدیک ہمیں اپنا خسارہ پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے متبادل ذرائع تیار کرنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہم مزید دلدل میں پھنستے جائیں گے۔

پاکستان میں 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زرہوئی، 20 سے 22 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی، سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں ہے؟ یہ افسوس ہے کہ ہم جو کچھ کما رہے ہیںوہ ہم آئی ایم ایف کودے رہے ہیں۔ دو برس پہلے خزانے میں فارن ریزرو 8 ارب ڈالر تھے اور آج بھی اتنے ہی ہیں۔ ہماری صنعت بند، روپے کی قدر اورشرح نمو میں کمی ہو رہی ہے ، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو آئندہ برسوں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوجائے گی۔ ہمیں ایسی پالیسی بنانی چاہیے جس سے ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالا جاسکے۔

ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینا ہے۔ اس کیلئے پیداواری لاگت کم کرنا ہوگی۔ بجلی ، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، اگر ہم اپنے انرجی بحران پر قابو نہیں پاتے اور ہماری انڈسٹری مکمل طور پر بند ہوجاتی ہے جس سے سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایگروبیسڈ انڈسٹری کو آگے لائے، کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دے ۔ صنعت کیلئے بجلی و گیس کے ٹیرف کم کرے، ایکسپورٹر کو سہولیات دے تاکہ معیشت کا پہیہ چلایا جاسکے۔ ’ایس آئی ایف سی‘ اپیکس باڈی ہے جو ملکی معیشت کو دیکھ رہی ہے۔ دنیا ہماری حکومت اور سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ سی پیک منصوبے کے وقت چین نے اسٹیبلشمنٹ کی گارنٹی لی۔ آج بھی دنیا کی سرمایہ کاری کے حوالے سے یہی صورتحال ہے۔

ان حالات میں ’ایس آئی ایف سی‘ بنانا خوش آئند ہے اس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک چین، افغانستان، ایران، بھارت سمیت تاجکستان اور خطے کے دیگر ممالک سے اچھے تعلقات کو فروغ دینا چاہیے اور کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان کے اداروں کو لاء اینڈ آرڈر، صنعت، زراعت اور معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت گندم کے کاشتکاروں کا مسئلہ سنگین ہے۔ اگر کاشتکاروں کو اس کی مرضی کا ریٹ نہیں ملتا اور وہ خسارے میں جاتا ہے تو اگلے سال کوئی بھی کاشتکار گندم نہیں اگائے گا جس سے قحط سالی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنے کسانوں کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔

مہنگی بجلی، مہنگی کھاد ، مہنگائی کے اس دور میں کسان کی پیداواری لاگت بھی زیادہ آتی ہے، ہمیں اسے مدنظر رکھنا ہوگا۔ حکومت کو گندم کا ریٹ طے کرنے کیلئے بیوروکریسی پر انحصار کے بجائے کسانوں سے مشاورت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سبزیوں و دیگر اناج کی قیمت طے کرنے میں بھی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی چاہیے۔ زرعی رقبے کو کالونیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اگر آبادی زیادہ ہو رہی ہے تو اونچی عمارتیں بنائی جائیں ، زراعت کو تباہ نہ کیا جائے۔

ایک شہر سے دوسرے شہر میں ہجرت پر پابندی لگانی چاہیے۔ اس سے بڑے شہروں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے تجارتی پالیسیاں بنائی جائیں۔ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اگر انڈسٹری اور ٹریڈ بند ہوگیا تو ملک کو بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کا تاجر ملکی ترقی چاہتا ہے، اگر سب کو ساتھ لے کر چلا جائے تو ہم ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

حکومت آئے روز ’ایس آر او‘ لاتی ہے، کبھی ایف بی آر، کبھی کسٹم کی طرف سے آتا ہے،ا س سے تاجروں اور صنعتکاروں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، بے یقینی کی فضاء پیدا ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی، تاجروں کو ’ایس آر او‘ کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے، حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ تاجروں میں مایوسی کا پھیلنا اچھا نہیں ہے، اعتماد کی فضاء بحال کرنے کیلئے حکومت اور پالیسی میکرز سے گزارش ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل یقینی بنائیں۔ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے، اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

خالد کھوکھر

(صدر پاکستان کسان اتحاد)

اس وقت پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جس کی ایک بڑی وجہ کم برآمدات اور زیادہ درآمدات ہیں۔ گزشتہ برس ہماری درآمدات 80 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 31.5 ارب ڈالر تھی۔ 20 ارب ڈالر کپاس اور ڈھائی ارب ڈالر چاول کی ایکسپورٹ تھی لہٰذا ہمیں اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے زراعت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن وسائل کی گروتھ کم ہے۔ ہمیں زراعت کو ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے ۔

ہمیں اپنی فی ایکڑ پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ اس وقت پاکستانی کاشتکار کو تین فصلوں میں بہت نقصان ہوا ہے۔ مکئی، کپاس اور چاول میں کاشتکار کو گیارہ سو پچاس ارب کا خسارہ ہوا ہے لہٰذا کاشتکار اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس شعبے سے 20 ہزار ارب روپے آرہے ہیں اس کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے۔

ہماری ریسرچ کا بجٹ زراعت کے جی ڈی پی کا 0.18 فیصد ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ برازیل کے چند برس میں ترقی کی وجہ اس کی ریسرچ ہے، اس نے بجٹ 1.75 فیصد اس پر خرچ کیا، اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی اور ہم سے آگے نکل گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے کاشتکار کو مافیا کھا گیا ہے۔ کاشتکار کو اس کی پیداوار کا درست ریٹ نہیں ملتا۔ یہی صورتحال گندم کے حوالے سے ہے۔ ملک میں گندم اس وقت امپورٹ کی گئی جب اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 550 ڈالر فی ٹن سے کم ہوکر 200 ڈالر پر آگیا تھا۔

گزشتہ 20برس میں جب ہمارا ریٹ کم اور دنیا کا زیادہ تھا تو یہ مافیا یہاں سے گندم سمگل کرکے فائدہ اٹھاتھا تھا، اس مرتبہ امپورٹ سے فائدہ اٹھایا گیا۔پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ گندم امپورٹ کی کوئی حد ہی مقرر ہی نہیں کی گئی اور پھر 31 مارچ تک اس کی اجازت دے دی جو بدنیتی پر مبنی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاسکو کے پاس جو گندم یہاں موجود تھی اس کا ریلیز ریٹ 3900 سے بڑھا کر 4700 روپے کر دیا گیاتاکہ اسے کوئی خریدے نہ اور امپورٹ ہونے والی گندم ہی خریدی جائے۔

پاکستانی کاشتکار کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ کپاس اور چاول ایکسپورٹ پر مبنی ہے۔ اب کاشتکار کے پاس اگلی فصل کی کاشت کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ اگر کسان کاشت نہیں کرے گا تو ہماری ایکسپورٹ میںمزید کمی آئے گی۔ اس وقت ملکی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے لہٰذاملک میں زرعی ایمرجنسی لگا کر زراعت کو فروغ دینا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔