(پاکستان ایک نظر میں) - کیا حقیقت کیا افسانہ؟

ملیحہ خادم  بدھ 9 جولائی 2014
افتخار چوہدری کے حوالے سے نئے پرانے تمام الزامات کی شفاف إنکوائری وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس دفعہ پورا سچ سامنے آسکے اور معتبر ریاستی ادارہ  یوں رسوا نہ ہو: فوٹو: ایکسپریس

افتخار چوہدری کے حوالے سے نئے پرانے تمام الزامات کی شفاف إنکوائری وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس دفعہ پورا سچ سامنے آسکے اور معتبر ریاستی ادارہ یوں رسوا نہ ہو: فوٹو: ایکسپریس

’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘ کی گونج میں وکلا تحریک کے شعلہ بیان مقرر جب انقلابی قصیدے  معزول عدلیہ کی شان میں پڑھتے تھے تو قوم اس یوٹوپیا میں پہنچ جاتی جہاں اس تحریک کی کامیابی کے بعد اسکا بسیرا ہونا تھا ۔ 

2008 کےالیکشن کے بعد پیپلز پاڑٹی کی حکومت بھی عدلیہ بحالی سے نظر چراتی رہی ۔ بلآخر ایک لانگ مارچ ایک فون کال پر ختم ہوا اور عدلیہ بحال ہوئی ۔ اب دیانتداری ، مساوات کا نیا باب شروع ہونا چاہیے تھا لیکن جوش ٹھنڈا ہوا تو دبی دبی آوازیں باہرآئیں ، چیف کے بیشمار جانثار کم ہوتے گئے  اور نوید بھی سناتے گئے کہ ’سپریم کورٹ شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہی ہے‘ ۔

افتخار چوہدری نے بحالی کے بعد سوموٹوز کا جمعہ بازار سپریم کورٹ میں لگا لیا ۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر فیصلہ زبان زد عام رہا ۔ جبکہ عوام ہنوز حصول انصاف کی پر پیچ گلیوں میں بھٹکٹی  رہی ، آزاد عدلیہ کے ثمرات نچلے کورٹس سے کرپشن ختم نہ کرسکے ۔ شاید یہ ترجیح ہی نہ تھی ۔ پھر حکومت بھی چیخ اٹھی کہ عدلیہ کی  بیجا  مداخلت ملک کو چلنے نہیں دے رہی ۔ جیسےتیسے پانچ سال گزرے اور الیکشن 2013 آگئے ۔ امید تھی کہ انصاف پسند آزاد عدلیہ شفاف انتخابات کروائے گی ۔ نتائج آئے اور ن لیگ حکومت بناگئی ۔ چیف جسٹس بھی متنازعہ و متوازن فیصلوں سے عبارت دور کے بعد ریٹائر ہوگئے ، پیچھے نہ ختم ہونے والی بحث چھوڑ گئے ۔

 آج افتخار چوہدری انتخابی دھاندلی ، منظور نظر افرادکو نوازنے ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، ذاتی تشہیر کیلئے سیکیورٹی اداروں کی تذلیل ، کرپشن جیسے الزامات کی زد میں ہیں ۔قوم حیران ہے کہ سچائی کیا ہے ـــــ  وہ جو پہلے تھی یا جو اب سامنے آرہی ہے ۔

وقت نے ثابت کردیا کہ عدلیہ بحالی تحریک  کو سیاسی جماعتوں نے استعال کرتے ہوئے  اسکے کندھے پر سوار ہو ئے اور مشرف تک پہنچیں ،سول سوسائٹی جسے نئی قوت گردانا جانا تھا تحریک کے ختم ہوتے ہی اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ، تحریک کا اول دستہ  وکلاء ،  وکلا گردی سے بدنام بعد ازاں دھڑا بندی کی نظر ہوگئے،  میڈیا جو معزول جج کے حق میں رطب اللسان تھا اب یو ٹرن لے رہا ہے۔

پاکستان میں ہمیشہ مصلحتوں سے لبریز آدھا سچ بولا جاتا ہے ۔ مشرف کے إفتخار  چوہدری کیخلاف  ریفرنس میں انکے بیٹے کا نام بھی شامل تھا، وہی بیٹا تب سے اب تک مختلف اسکینڈلز کی زد میں ہے اور اس ضمن میں ہوئی تمام تحقیقات پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ۔اگر شروع میں ہی شفاف تحقیقات ہوتیں تو سچ سامنے آجاتا اور اہم ریاستی ستون ’عدلیہ ‘ سالوں پر محیط اس ایڈونچر اورابہام کے باعث آج یوں متنازعہ نہ ہوتی ۔ ہم جب کسی کو ہیرو بناتے ہیں تو اسکی خامیوں کو نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں ک پرچار کرتے ہیں حالآنکہ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے ۔ شایدو وکلا تحریک میں بھی یہی ہوا اس چشم پوشی و ادھورے سچ نے کس کو فائدہ دیا یہ الگ بحث ہے تاہم نقصان میں ادارہ ہے ۔

آج تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کا الزام افتخار چوہدری کو دیتی ہے ،اگر یہ ثابت ہوگیا تو وکلا تحریک تاریخ کے سیاہ باب میں جا گرے گی اور اگر الزامات غلط ثابت ہوئے تو پھر عمران خان کی ساخ پارا پارا بھی ہوسکتی ہے۔

افتخار چوہدری کے حوالے سے نئے پرانے تمام الزامات کی شفاف إنکوائری وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس دفعہ پورا سچ سامنے آسکے اور معتبر ریاستی ادارہ  یوں رسوا نہ ہو ۔ جو کیچڑ اچھالا جارہا ہے اسکے چھینٹے ملک کےلئے باعث ندامت ہیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔