ٹانگ‘ ڈانگ اور ظفر اقبال کے بارے میں

انتظار حسین  جمعـء 22 اگست 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کیسے آڑے وقت میں ہمیں ظفر اقبال کی طرف سے عیادت و محبت سے لبریز کلمات موصول ہوئے ہیں۔ ان کی ٹیلی فونی عیادت بھی کچھ ایسے ہی لمحات میں موصول ہوئی تھی جب ایسی عیادت کے لیے ہماری ضرب سے پژمردہ روح سخت بیتاب تھی۔ دوسرے دوست کہیں گے کہ ارے عیادت تو ہم نے بھی کی تھی ظفر اقبال کی عیادت میں کونسا سرخاب کا پر لگا تھا کہ اس کا ذکر اس ولولہ سے کیا جا رہا ہے۔ اس عزیز نے عیادت کی تھی کہ لخلخہ سُنگھایا تھا کہ مریض فوراً ہی جھرجھری لے کر اٹھ بیٹھا۔

دیکھئے بات یہ ہے کہ روزنامہ ایکسپریس اخبار ’منادی‘ نہیں ہے۔ اور ہم بھی کالم ہی لکھتے ہیں روزنامچہ نہیں لکھتے۔ وہ تو اپنے قارئین کو اپنے احوال سے مطلع کرنا تھا کہ اچھا بھلا کالم ذاتی رونا گانا بن گیا۔ تو یاروں نے جو عیادت کی تھی وہ ہمارے ان کے بیچ ذاتی معاملہ ہے۔ ظفر اقبال ہر چند کہ ذاتیات ہی سے شروع ہوتے ہیں اور ذاتیات ہی پر تمام ہوتے ہیں مگر ان کی ذاتیات میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں پورب پچھم اتر دکھن سب سما جاتے ہیں۔

مگر انھوں نے کونسا ہماری ذات کو موٹا ہونے کے لیے غذا فراہم کی۔ ان کے سارے تحسینی کلمات تو ہماری ٹانگ پر صرف ہو گئے۔ ہمارے حصے میں کیا آیا‘ بس تھوڑی طعن و تشنیع۔ اللہ اللہ ہماری ٹانگ نے چوٹ کیا کھائی‘ ظفر اقبال کے تحسینی کلمات سے اسے چار چاند لگ گئے۔ ورنہ ٹانگیں کس کی نہیں ہوتیں خود خیر سے ظفر اقبال کی ٹانگیں اتنی بلند و بالا ہیں کہ جب ان کا مچھلی کھانے کو جی چاہتا ہے اپنے لمبے ہاتھ سمندر میں  ڈال کر ایک مچھلی پکڑتے ہیں اور انھیں ہاتھوں کو سورج کی طرف بلند کرتے ہیں۔ ایک تو ان کی لگ لگ لمبی ٹانگیں‘ اسی حساب سے ان کے لمبے ہاتھ ،مچھلی سورج کے اتنے قریب پہنچ جاتی ہے کہ میر انیس والی مچھلی بن جاتی ہے کہ ع

مچھلی جو سیخ موج پہ آئی کباب تھی

تو صاحبو ہم کیا ہماری ٹانگ کیا اور ایمان کی پوچھو ہو تو انسانی تاریخ میں ٹانگ ایک ہی گزری ہے اور وہ تھی مہاتما بدھ کی ٹانگ۔ ایسی ٹانگ کہ جس سے بندر جاتی کا نِستارا ہو گیا۔ ورنہ آج اس برصغیر کی دھرتی پر بندروں کا نام نشان نہ ہوتا۔ ہماری اور ظفر اقبال کی بندر بھبکیاں ہوتیں اور بس۔ ویسے تو بندر بانٹ بھی مشہور ہے مگر وہ سب ظفر اقبال کے پکڑے میں چلی گئی۔ وہاں ظفر اقبال کی شاعری نے اسے سنگھوا لیا۔ خیر اس سے تو ہمارا کچھ نہیں بگڑا۔ جتنا بگڑا غالب کا بگڑا۔

خیر یہ تو بات دوسری طرف نکل جائے گی۔ ذکر مہاتما بدھ کی ٹانگ کا تھا۔ ان کی ٹانگ کو بھی یہ شرف اس وقت حاصل ہوا جب انھوں نے بندر کے جنم میں ایک پورا جیون گزارا۔

ظفر اقبال سنو۔ یہ جاتک کتھا جس کا مرکز و محور ایک ٹانگ ہے اس طرح ہے کہ اس دھرتی کے ایک باغ میں اتنے بندر جمع ہو گئے تھے جیسے ساری دھرتی کے بندروں کا ٹھکانا یہی باغ ہے۔ راجہ کو جب پتہ چلا کہ اس کے باغ کو بندر کس طرح اجاڑ رہے ہیں تو اس نے حکم دیا کہ کل اس باغ کی ناکہ بندی کی جائے اس طرح کہ کوئی بندر بچ کر نہ نکلے۔ سب کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ کسی خفیہ والے نے یہ خبر بندروں کو پہنچا دی۔ ان کے اندر تو کھلبلی مچ گئی۔

تب اس بزرگ بندر نے جو ان کے بیچ واحد سمجھدار بندر تھا کہا کہ دھیرج رکھو۔ میں کوئی رستہ نجات کا نکالتا ہوں۔ اور اس نے سارے باغ کا چکر کاٹ کر ایسا موقعہ دریافت کیا جہاں باغ کی فصیل ٹوٹی ہوئی تھی۔ مگر وہاں گنگا بہہ رہی تھی۔ اس نے اوپر درختوں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ باغ کا ایک گھنا درخت شکستہ فصیل کے بیچ کھڑا ہے اور اس کی گھنی شاخیں گنگا کے پاٹ پر دور تک گئی ہیں۔ ادھر سے ایک گھنا درخت اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس کی شاخیں پھیلتے پھیلتے باغ کے درخت کی شاخوں کے قریب آ گئی ہیں۔ مگر دونوں کے درمیان پھر بھی کچھ فاصلہ ہے۔ اس فاصلہ کو کس طرح پاٹا جائے۔

اس بزرگ بندر نے سوچ کر ایک ترکیب نکالی۔ یہ کہ اگر میں ایک ٹانگ اس طرح پھیلائوں کہ یہ ٹانگ ان دو درختوں کے بیچ پل بن جائے اور بندر ایک ایک کر کے اس پل پر ہوتے ہوئے گنگا کے دوسرے کنارے پر جا کر اتریں۔ سو سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ بندر ایک کر کے اس پل پر آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے گنگا کے اس پار اتر گئے اور راجہ کے منصوبے پر پانی پھر گیا۔

مگر بدھ جی کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک شیطان صفت بندر نے جسے بدھ جی سے بیر تھا تاڑ لیا کہ یہ بزرگ بندر اصل میں شاکیہ منی ہیں۔ وہ جان کر اس زور سے ان کی ٹانگ پر کودا کہ مہاتما بدھ کی جان پر آ بنی۔ تب انھوں نے سوچا کہ خیر میں نے جو نیک کام کا بیڑا اٹھایا تھا وہ کام پورا ہو گیا۔ اب اس جنم میں میرا جیون تمام ہوا۔ بہتر ہے کہ میں اب کسی دوسری جون میں چلا جائوں۔ سو انھوں نے ترنت آخری سانس لیا اور بندر کی جون چھوڑ کر راج ہنس کی جون میں آئے اور مانسرور جھیل کی طرف اڑ گئے۔

سو اے شاعر بے بدل‘ اس جاتک کتھا میں ہم دونوں کے لیے بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے۔ زمانہ سدا ایک رنگ پہ نہیں رہتا۔ جون بدلتا رہتا ہے۔ پھر وہ ارد گرد کی مخلوق کو پہچاننے ہی سے انکار کر دیتا ہے۔ تم نے یہ کیا کیا کہ اپنے اور غالب کے قضئے کو پچاس برس آگے پھینک دیا۔ کہا کہ آج نہیں پچاس برس بعد زمانہ فیصلہ کرے گا کہ کون چھوٹا ہے کون بڑا ہے۔ یہ تم نے کیا کیا۔ اپنے اس قضئے کو جو حل ہونے کے قریب تھا مسئلہ کشمیر بنا دیا۔

ارے اگلے پچاس برس کس نے دیکھنے ہیں۔ اگر آج یہ مسئلہ حل ہو جاتا تو تھوڑی خوشی ہمارے حصے میں آ جاتی۔ کیا عجب ہے کہ اگلے پچاس برس بعد کا زمانہ اتنا ظالم و جاہل ہو کہ ہمیں تمہیں پہچاننے ہی سے انکار کر دے۔ کوئی ہمارا بچا کھچا مداح ظفر اقبال کا نام لے تو پوچھنے والا پوچھ بیٹھے کہ یہ حضرت کیا بیچتے تھے۔ اور انتظار حسین کا نام سن کر چونکے اور پوچھ بیٹھے کہ انتظار حسین‘ یہ کس کھیت کی مولی تھی۔

تو اے میری عیادت کرنے والے دوست‘ زمانے سے بیخبری کا مظاہرہ مت کر۔ ظالم زمانے کے بیچ ایک طاق نسیاں بھی ہے۔ کیسا کیسا بڑا لکھنے والا اس طاق نسیاں میں جا کر ایسا گم ہوا کہ اب اس کا نام و نشاں نہیں ملتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔