چٹ پٹی تبدیلی

اقبال خورشید  جمعرات 9 اکتوبر 2014

لیجیے جناب، عید آ گئی، اور قربانی سے پہلے قربانی کی پیش گوئی کافور ہوئی۔ شاید لال حویلی کے کسی گوشے میں، سگار کے دھویں میں غم غلط کیا گیا ہو۔ یا شاید شیخ صاحب نے اِس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو کہ پیش گوئیاں ہمارے سیاست دانوں کا محبوب مشغلہ۔ اور مشغلوں کی چادر غم کے پیوند سے پاک رکھنا بھلا۔

نظام کی دُرستی کے لیے انقلابی چورن پیش کرنے والے قادری صاحب، جو بازو پھیلا کر کہا کرتے تھے: چلاؤ گولی، اب الیکشن میں حصہ لینے کی بات کرتے ہیں۔ یعنی جس نظام سے انکاری تھے، اُس پر ایمان لے آئے۔ شاید ڈی چوک کے تعفن نے خیالات میں ترمیم کی ہو۔

خان صاحب، جو انقلابی چکروں میں پھنس گئے تھے، یا پھنسا دیے گئے تھے، اسلام آباد سے نکلے، کراچی اور لاہور کی عوامی فضاؤں میں سانس لیا۔ پھر میانوالی میں رنگ جمایا۔ کچھ بشاشت لوٹی ہو گی۔ سنتے ہیں، لاڑکانہ میں بھی دھمال ہو گا۔ شاید خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ لاڑکانہ انھیں خاطر میں نہیں لانے والا۔ کوئی پروا کیوں کرے۔ مگر یہ کیا، بلاول بھٹو ناراض کارکنوں کو منانے کی کوششوں میں کیوں جُٹ گئے؟ جناب، آپ کو اس ناچ گانوں سے کیا خطرہ؟ سندھ تو آپ کی ریاست۔ ہم آپ کی رعایا۔ ٹھیک ہے قبلہ، اگر آپ جلسہ کرنے پر بضد ہیں، تو شوق سے کریں۔ سرکار آپ کی، بسیں بھی آپ کی، اور بندے بھی۔ ہماری کیا وقعت۔

کہتے ہیں، جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ ذرا انقلاب اور آزادی مارچ کا روشن پہلو دیکھنے کی کوشش کریں۔ اور اگر کوئی روشن پہلو نہ ملے، تو ڈیل کارنیگی کے بہ قول؛ سیاہ حصے ہی کو روغن لگا کر چمکا لیجیے۔ کم از کم یہ تو ہوا ناں کہ اِس مشق سے چوتھے ستون کی لغزش عیاں ہو گئی۔ پھر یہ اندازہ بھی ہوا کہ ہمارے سیاسی شعور کی کشتی ہنوز جذبات کے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ پڑوسی ہمارا چاہے مریخ پر جائے، ہم الزامات کی سیاست میں خوش۔ پھر اوروں سے کیوں جلیں ۔ ہم کسی سے کم ہیں کیا۔ اسلامی قلعہ، ایٹمی طاقت، زندہ قوم وغیرہ وغیرہ۔

ان دھرنوں جلسوں سے پتہ چلا کہ ہمارے سیاست داں، ٹھیک ہماری طرح، ریاضی میں کمزور ہیں۔ نفع گننے کے علاوہ جمع تفریق کے ہر معاملے میں صفر۔ اپنا جلسہ ہو تو شرکاء کی تعداد ڈھائی لاکھ، مخالفین اسٹیج سجائیں، تو شرکاء ڈھائی ہزار۔ خود ناچیں، تو آزادی، دوسرے ناچیں تو فحاشی۔ تو صاحبو، مان لو کہ تبدیلی آ گئی ہے، مگر یہ انقلابی تبدیلی نہیں، کچھ حد تک چٹ پٹی ہے۔ کل تک پُر مزاح بیانات کے لیے ہمیں عمران خان کی طرف دیکھنا پڑتا تھا، اب اور کلاکار بھی میدان میں۔ صبح اخبار اٹھائیں، ہنستے جائیں ۔ کچھ بیانات تو پنجابی فلموں کے مکالموں سے زیادہ مزے دار۔

سوشل میڈیا پر بھی بڑی ’’اوئے اوئے‘‘ ہو رہی ہے۔ ٹوئٹر والے گنے چنے الفاظ میں یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی بھی نشانے پر۔ کل کے باغی، آج داغی۔ اُن کے بیانات بھی ملکی حالات کی طرح بگڑتے جا رہے ہیں۔ اگر مشورہ کرتے، تو ہم یہی کہتے کہ حضور خدا نے آپ کو عزت دی، سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں کہ یہ ’’شریفوں‘‘ کی راہ گزر ہے۔ آپ بھی اِس عمر میں ’’شریف‘‘ ٹھہرائے جائیں گے۔ خیر، ہمارے مشوروں کی حیثیت ہی کیا۔

جب دھرنے نئے نئے تھے، اُس وقت بہت سے داناؤں، راجاؤں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کا زوال ہو چکا، سیاسی اننگز ختم، مقبولبت کی دیوار ڈھے گئی۔ دعویٰ کرنے والوں نے ہمیں تو قائل کر لیا، اور ہم نے یاروں، رشتے داروں، نان بائی، موچی، دھوبی؛ سب سے ایک ایک کپ دودھ پتی کی شرط لگا لی۔ مگر وہ شاید لاہور کو قائل کرنا بھول گئے۔ لوگ بھاری تعداد میں ناچتے گاتے گھروں سے نکل آئے، اور دودھ پتی چائے کا بِل چُکاتے چُکاتے ہماری آدھی تنخواہ کام آ گئی۔

روز کوئی بدبخت دروازہ پیٹ رہا ہوتا ہے۔ خیر، اب یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ عمران کے یہ حامی سارے نوجوان ہیں۔ اور جوانی دیوانی ہوتی ہے، اسی عمر میں تو نادانی ہوتی ہے۔ انھیں کیا پتہ سیاست کا۔ ووٹ کا حق مل گیا، تو خود کو طرم خان سمجھ لیا۔ اقبال نے تو یونہی کہہ دیا تھا کہ جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ اگر ہماری قسمت کا فیصلہ اِن لڑکوں بالوں کے ہاتھ، تو پھر فاتحہ پڑھ لیجیے۔

اور یہ گلوبٹ پر تنقید کا کیا جواز؟ بھلے مانس، انتشار کے دنوں میں اِس غریب نے تمھارے ہنسنے کا ساماں کیا۔ جب کبھی اسکرین پر آیا، مسکراہٹ ساتھ لایا۔ کچھ اس کی مونچھوں ہی کا خیال کر لو۔ دیکھو ذرا، نہا دھو کر کیسا کھلا کھلا لگ رہا ہے۔ ہماری تو خواہش ہے کہ وہ صوبائی وزیر ہو جاوے ۔ پھر سوچتے ہیں، اُسی جیسوں سے تو یہاں وہاں کی کیبنٹ بھری ہے۔ جگہ کدھر ہے۔ چلو، تھوڑا انتظار کر لے گا۔

کل غفور پکوڑے والے کی دکان پر گئے۔ پرانا دوست ہے ہمارا۔ بچپن سے میاں صاحب کا حامی۔ پہنچے، تو کچوری کے بجائے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ خیریت پوچھی، تو آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ کہنے لگا؛ پکوڑے باندھنے کے لیے جتنی ردی خریدی، سب پر ’’گو نواز گو‘‘ لکھا ہے۔ ہم نے سمجھایا؛ بچے ہمارے عہد کے نٹ کھٹ ہیں، غم نہ کر۔ اور پھر عمران کو اس دھرنے ورنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اِس بات پر اپنے پکوڑوں کی طرح تیز ہو گیا۔ کہا، خان کو فائدہ نہیں ہوا، مگر میاں صاحب کا تو نقصان ہو گیا ناں۔ ہیوی مینڈیٹ خاک ہوا چاہتا ہے۔ لگتا ہے، سلطنت ہے، پر شاہ نہیں ہے۔ ابھی تو حضور آئے تھے، ظالم انھیں سانس تو لینے دیتے۔

اس کی قنوطیت ہمیں ناگوار گزری۔ تھال سے ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا، اور گھر لوٹ آئے۔ پکوڑے میں مرچیں تیز۔ گھر آ کر شکر پھانکنی پڑی۔

تھک ہار کر سوچتے ہیں، جالب کی نظمیں پڑھیں۔ پھر خیال آتا ہے، پڑھنے سے بہتر ہے کہ سن لیں، اپنے شہباز شریف ہیں ناں۔ بادشاہ آدمی ہیں۔ ہمارے شاہ صاحب کی طرح تھوڑی کہ وزیر اعلیٰ خود اور صوبہ کوئی اور چلا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔