- امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی روک دی
- فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،چیف جسٹس
- یقین ہے اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ساتھ لائیں گے؛ بابراعظم
- پاکستانی نوجوان سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار شروع کریں گے، وفاقی وزرا
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑا اضافہ
- جنوبی وزیرستان: نابینا شخص کو پانی میں پھینکنے کی ویڈیو وائرل، ٹک ٹاکرز گرفتار
- پنجاب پولیس نے 08 سالہ بچی کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا
- حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئرفورس کے قافلے پر حملہ؛ 1 ہلاک اور 4 زخمی
- پی ٹی آئی کا شیخ وقاص اکرم کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ
- گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے عہدے کا حلف اٹھالیا
- کراچی اور لاہور میں ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ
- پرویز الٰہی کو جیل سے اسپتال یا گھر منتقل کرنے کی درخواست منظور
- کراچی میں منشیات فروشوں کی فائرنگ سے 2 دوست جاں بحق
- سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
- پختونخوا حکومت کاشتکاروں سے 29 ارب روپے کی گندم خریدنے کیلیے تیار
- حماس کی اسرائیلی فورسز پر راکٹوں کی بوچھاڑ، 3 فوجی ہلاک، 11 زخمی
- گندم اسکینڈل؛ کون سی راکٹ سائنس ہے؟
- زہریلے کنکھجورے گردوں کی بیماری کے علاج میں معاون
- ناسا کا چاند پر جدید ریلوے سسٹم بنانے کا منصوبہ
یوٹیوب اور شتر مرغ
یہ جو گستاخانہ فلم کا معاملہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ ابھی ختم نہیں ہوا اور پرنالہ ابھی تک وہیں گر رہا ہے۔ سنیماؤں میں فلم کا ریلیز ہونا اب مسئلہ نہیں۔ یہ ایک بے کار، گھٹیا، غیر دلچسپ اور فنّی لحاظ سے تیسرے درجے کی فلم تھی اس لیے ریلیز ہوئی اور پٹ کے اتر گئی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کچھ حصّے ’یوٹیوب‘ پر ڈالے گئے اور وہاں اب بھی موجود ہیں۔
انھیں وہاں سے ہٹایا نہیں جارہا۔ سارا فساد اسی کا ہے۔ فلم بنانے والوں کی پکڑ دھکڑ اور سزائیں دینا ایک الگ موضوع ہے اور ’یوٹیوب‘ کے ذریعے گستاخی کا سلسلہ بند نہ ہونا ایک دوسری بات ہے۔ آج میں اسی پر بات کررہا ہوں اور میں اپنے ان نوجوان دوستوں کا شکر گزار ہوں، جنھوں نے اس سلسلے میں میری بعض الجھنیں دور کرنے اور اہم تکنیکی معلومات مہیا کرنے میں میری مدد کی ہے۔ ان سب نوجوانوں کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہے۔ یہ نوجوان واقعی ایک طوفان ہیں اور جیسا موڈ ہو ویسا ہی سونامی برپا کردیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمیں ’یوٹیوب‘ کی پوری سروس کو اپنے ہاں خود سے بلاک کیوں کرنا پڑا۔ اس واہیات وڈیو کو بھارت، ملائیشیا اور سعودی عرب کی طرح ’یوٹیوب‘ نے بذاتِ خود پاکستان میں بین کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت گزشتہ دو برس سے MLAT (میوچل لیگل اسٹیٹس ٹریٹی) نامی ایک معاہدے پر دستخط کرنے کا عمل مکمل نہیں کرسکی ہے۔
یہ معاہدہ ایک حکومت کا دوسری حکومت سے ہوتا ہے۔ امریکا سے یہ معاہدہ اگر کیا جاچکا ہوتا تو اس کے تحت ہماری حکومت GOOGLE کمپنی کو جو کہ ’یوٹیوب‘ کی مالک ہے، جوں ہی یہ وڈیو ہٹانے کی درخواست کرتی، اسے پاکستان کی سطح پر چند ہی گھنٹوں میں ہٹادیا جاتا۔ ایسا ہوتا تو ہمیں IP کی سطح پر پوری پاکستانی یوٹیوب کو بلاک نہ کرنا پڑتا۔ اب اس طرح بلاک کرنے کے نتیجے میں ’جی میل‘ اور ’گوگل پلے‘ بھی پھنس پھنس کے کام کررہے ہیں۔
یہاں یہ بات پھر اہم ہے کہ گوگل اور ’گوگل انٹرنیشنل‘ دو الگ الگ چیز ہیں۔ اگر گوگل ہماری درخواست پر اس وڈیو کو ڈیلیٹ کردیتا یا یہ جو ہم نے ان دنوں ’یوٹیوب‘ بلاک کی ہوئی ہے تو یہ بس ایسے ہی ہے جیسے ہم لوگ شتر مرغ ہیں اور ہم نے ریت میں سر دے دیا ہے۔ جب تک ’گوگل انٹرنیشنل‘ اس واہیات وڈیو کو ختم نہیں کرتا یہ ہمیں تو دِکھائی نہیں دے رہی لیکن باقی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہاں۔ شروع شروع میں ایک کام اور ہوگیا تھا کہ جب لیبیا میں امریکی سفیر کو ہلاک کردیا گیا تھا تو سنا ہے۔
لیبیا میں ’یوٹیوب‘ نے فوراً یہ وڈیو غائب کردی تھی حالانکہ لیبیا نے بھی MLAT پر دستخط نہیں کیے ہیں لیکن اس کے بعد سے یہ معاملہ پوری دنیا میں اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اب معاہدے کی پابندی کے بغیر ’گوگل‘ اس وڈیو کو ہٹانے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسے دونوں طرف سے دبائو کا سامنا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دبائو اور معاہدوں کے بہانے ’گوگل‘ اس معاملے میں صریحاً ڈنڈی مار رہا ہے۔ دِکھائے جانے والے مواد کے بارے میں اس کی جو پالیسی ہے۔
اس کے تحت وہ کسی بھی ایسے مواد کو دِکھانے کی اجازت نہیں دیتا جو رنگ، مذہب اور نسل وغیرہ پر حملہ آور ہو یا دل شکنی کا باعث ہو۔ اسی بنیاد پر اس نے امریکی خاتون اوّل مشل اوباما کے بارے میں ایک ایسی ویب سائٹ بلاک کردی تھی جس میں انھیں بندریا سے تشبیہہ دی گئی تھی۔ آئیے ذرا ان کی پالیسی کے ان الفاظ پر نظر ڈالتے ہیں۔
“We encourage free speech and defend everyone’s right to express unpopular points of view. But we don’t permit hate speech (speech which attacks or demeans a group based on race or ethnic origin, religion, disability, gender, age, veteran status, and sexual orientation/gender identity).”
آپ نے دیکھا کہ یہ گستاخانہ وڈیو صاف طور پر ان کی پالیسی کے تحت HATE SPEECH کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ان بدبختوں کو چاہیے کہ کسی مطالبے کے بغیر ہی اسے ’یوٹیوب‘ اور ’گوگل‘ کی تمام ویب سائٹس سے ختم کردیں لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟
میرا خیال ہے کہ جو لوگ پرامن مظاہرے کررہے ہیں، انھیں اس محاذ پر کام کرنے دیں اور وہ لوگ جو انٹرنیٹ سے آشنا ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ ایک اخلاقی دبائو کی شکل میں پوری طرح اپنا حصّہ ڈالیں۔ یہاں میں ’فیس بک‘ کی کچھ ویب سائٹس کے پتے دے رہا ہوں۔
امریکی صدر اوباما: www.facebook.com/barackobama
اسرائیلی صدر شمعون: www.facebook.com/shimonperesint
امریکی صدارتی امیدوار رومنی: www.facebook.com/mittromney
سابق امریکی صدر بل کلنٹن: www.facebook.com/billclinton
یوٹیوب: www.facebook.com/youtube
گوگل: www.facebook.com/google
میں نے یہ سب سائٹس ایک ایک کرکے چیک کی ہوئی ہیں۔ سب درست ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی آواز مدلل انداز میں ٹھیک اس جگہ پہنچائیں، جہاں اسے سنا بھی جائے اور جہاں اس کا وزن بھی محسوس ہو۔ گالی گلوچ سے کام نہیں چلے گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں اپنے دلائل کی بم باری کرنی چاہیے۔ یہ تمام وہ پتے ہیں جہاں ہر آدمی کو رسائی کی اجازت ہے۔
صرف صدر اوباما کی فیس بک کو 28 ملین لوگ Like کرتے ہیں۔ یوں کروڑوں لوگوں تک آپ کی آواز آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔ دھمکی سے زیادہ شائستگی اور دلیل میں اثر ہوتا ہے۔ ہمیں یہ اثر دِکھانے کا کام کر ڈالنا چاہیے۔
باقی رہی یہ بات کہ ہمارے ہاں ’یوٹیوب‘ دوبارہ کب کھلے گی تو اس کے بڑے دلچسپ جوابات ہوسکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب توہین آمیز خاکے شایع ہوئے تھے تو ان دنوں پاکستان نے اپنے طور پر فیس بک اور کچھ دوسری سائٹس کو بلاک کردیا تھا لیکن پھر چند روز کے بعد چپکے چپکے کھول دیا گیا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا اور کسی روز اچانک شتر مرغ ریت سے اپنا سر باہر نکال لے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔