نصاب تعلیم کی تشکیل نو

جبار قریشی  جمعـء 28 نومبر 2014
waqtkiawaz021@gmail.com

[email protected]

میں اپنے ابتدائی کالموں میں اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ میں نہ کوئی سماجی کارکن ہوں اور نہ ہی کسی سیاسی، مذہبی یا دینی تنظیم سے وابستہ البتہ مطالعے کا شوقین ہوں۔ اس مطالعے کے سبب اللہ تعالیٰ نے مجھے جو تھوڑی بہت علمی بصیرت عطا کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچاؤں اسی خیال سے اخبار میں کالم لکھتا ہوں۔

کالم کے حوالے سے متعدد ای میلز موصول ہوتی ہیں جن میں عموماً پڑھنے والے اپنی نجی مسائل کے ساتھ کالم سے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن گزشتہ دنوں کاشف عمر جو اسلامی فلسفے کے طالب علم ہیں ان کی جانب سے ایک پرشکوہ اور شکایت پر مبنی ای میلز موصول ہوئی، اس ای میلز کو میں تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں، کاشف عمر لکھتے ہیں۔

آپ کا کالم بہ عنوان ’’نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت‘‘ نظر سے گزرا ۔ آپ نے نصاب تعلیم کی تبدیلی کے حوالے سے سیکولر اور دینی طبقے کے مابین جو فکری ٹکراؤ ہے اسے موضوع بحث بنایا۔ آپ نے اپنی تحریر میں سیکولر اور لبرل طبقے کے نقطہ نظر کو بڑے واضح اور بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس کے برعکس دینی طبقے کے نقطہ نظر کو واضح اور ٹھوس دلائل سے پیش کرنے کے بجائے ان کی جانب سے ’’ہم نہیں مانتے‘‘ کا تاثر دے کر بات کو ختم کردیا گیا۔ نصاب تعلیم کی تشکیل نو کے حوالے سے دینی طبقہ بھی ایک واضح اور ٹھوس دلیل رکھتا ہے جسے تفصیل سے تحریر میں لایا جانا چاہیے تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا آپ کا یہ طرز عمل عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔

سیکولر طبقے کی جانب سے اس بات پر زور کہ تعلیم آزادی فکر کے ساتھ دی جانی چاہیے۔ آزادی فکر کے بغیر دی جانے والی تعلیم سے صداقتیں دھندلا جاتی ہیں جس سے صحیح نتائج سامنے نہیں آتے۔ سیکولر طبقے کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دیگر علوم پر یہ فارمولا اپنایا جاسکتا ہے مذہبی اور دینی علوم پر نہیں۔ سائنس میں وہ مذہبی اور دینی معاملات جو خلاف عقل سمجھے جاتے ہیں مذہبی اور دینی نقطہ سے وہ ماورائے عقل تصور کیے جاتے ہیں۔دینی علوم ایمان کے تابع ہوتے ہیں جس طرح سائنس کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول اور پیمانے الگ ہیں اسی طرح دینی علوم کے اصول اور پیمانے بھی الگ ہیں۔ دینی علوم کو ان ہی کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

آپ اپنی تحریر میں سیکولر نقطہ نظر کو بنیاد بناکر لکھتے ہیں ’’ہم سائنس جیسے مضمون کو جو اپنی فطرت میں ہی سیکولر ہے اسے مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائنس کو سائنس کی طرح پڑھنے کی بجائے اس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کر رہے ہیں۔ مذہب کے قوانین اٹل ہوتے ہیں اس کی نفی کی اجازت نہیں ہوتی جب کہ سائنس کے قوانین چند صدیوں بعد تبدیل ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اس طرح مذہب کا تقدس مجروح اور پامال ہوتا ہے۔ اس رویے کے باعث نہ ہم سائنس سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی مذہب سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘

آپ نے سیکولر طبقے کا جو نقطہ نظر پیش کیا ہے وہ دراصل اس طبقے کی دین سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ دینی فکر اور سوچ رکھنے والوں کے نزدیک سائنس کو اسلامی بنانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کی تھیوری اور فارمولوں کو اسلامی بنایا جائے یا اس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کیا جائے۔ سائنس کو اسلامی بنانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ سائنس کو لادینی علم بناکر پیش نہ کیا جائے۔ مثلاً سوڈیم (Na) اور کلورین (cl) دونوں الگ الگ شے ہے مگر جب ان کو ملایا جاتا ہے تو ان کا مرکب سوڈیم کلورائڈ (Nacl) یعنی سادہ نمک بن جاتا ہے۔

طالب علم پوچھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کے جواب میں اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ قوانین فطرت کی وجہ سے ہوا ہے لیکن اس سوال کے جواب میں طالب علم کو بتایا جائے کہ یہ خدا کے حکم سے ہوا ہے۔ تو اس جواب سے طالب علم کا ذہن لادینی نہیں رہے گا۔طالب علم سائنسی حقائق کو خدا کی نشانیاں تصور کرے گا اور اس طرح طالب علم کا ذہن فکری انتشار سے محفوظ ہوجائے گا۔

تاریخ کے مطالعے کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ بحیثیت انسان ہر تہذیب اپنے ارتقا سے گزری ہے۔ بعض تہذیبوں نے عروج بھی حاصل کیا۔ ہم بحیثیت مسلمان تاریخ کا مطالعہ انسانی نقطہ نظر سے کرنے کے بجائے عقائد کی روشنی میں کرتے ہیں۔ تاریخ میں بھی ہم مسلمانوں بالخصوص عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں دوسری قوموں کی تاریخ کو نہ ہی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنے مطالعے میں لاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم تاریخی شعور سے عاری ہیں اور دوسری تہذیبوں کی ترقی سے استفادے سے بھی محروم رہے ہیں۔

تاریخ کے حوالے سے یہ نقطہ نظر دین کے علم سے کم علمی کا نتیجہ ہے۔ اس طرح طرح کا نقطہ نظر رکھنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر تہذیب ایک مخصوص انفرادیت، مخصوص معاشرت اور مخصوص ریاست کو فروغ دیتی ہے اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے اس کا اپنا طرز معاشرت اور طرز سیاست ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبیں نفس پرستی کی علمبردار ہیں اسلامی تہذیب خدائی احکامات کے تابع ہے۔ اس لیے اسلامی تہذیب کسی دوسری تہذیب میں نہ ضم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی دوسری تہذیب کا پیوند لگایا جاسکتا ہے۔

تعلیمی نظام میں نصاب کی حیثیت روح کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیکولر طبقہ نصاب تعلیم میں تبدیلی کے نام پر تعلیمی نصاب سے مذہبی اور نظریاتی مواد نکال کر ایسا نظام تعلیم رائج کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ذریعے مغرب سے مرعوب زدہ، اپنی تاریخ سے شرمندہ، اپنے مذہب سے بے بہرہ دین کے عقائد اور عبادات سے لاعلم نسل کو پروان چڑھانا ہے تاکہ پاکستان میں سیکولر ازم کے نفاذ کو یقینی بنایا جاسکے آخر میں عرض کروں گا:

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

میں کاشف عمر کی جانب سے ارسال کردہ ای میل پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، دینی سوچ اور فکر رکھنے والے نصاب تعلیم کی تشکیل نو کے حوالے سے جو نقطہ نظر رکھتے ہیں وہ اس ای میل کے ذریعے زیادہ واضح ہوا۔ پڑھنے والوں کو اس سے اتفاق یا اختلاف رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ میرے نزدیک تعلیم کی بنیاد جس فکر پر بھی استوار کی جائے اس کی منصوبہ بندی اس طرح کی جائے کہ تعلیم کے نام پر قومی وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ ہمارے ملک کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔

والدین اپنے بچوں کو وسائل کی کمی کی وجہ سے بمشکل ہی تعلیم دلاپاتے ہیں۔ اس لیے نصاب تعلیم کو وہائٹ ہیڈ کے مقولے ’’علم زیادہ ہے زندگی چھوٹی اس لیے زیادہ مضامین مت پڑھائیے جو کچھ بھی پڑھائیے بھرپور پڑھائیں‘‘ کی روشنی میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ایسے مضامین جو بچوں کی نظریاتی تربیت، وطن سے محبت اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں معاون ہوں پرائمری تا میٹرک تک پڑھائے جائیں یعنی میٹرک کی تعلیم کو عمومی تعلیم سے منسوب کیا جائے۔

میٹرک کے بعد کی تعلیم یعنی انٹر کو فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم سے منسلک کیا جائے ایسے تمام مضامین جو طالب علم کے منتخب کیے گئے شعبے سے غیر متعلق ہیں انھیں ان کے نصاب سے نکال دیا جائے۔

انٹر آرٹس کے نصاب پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس میں جغرافیہ عمومی تاریخ، سیاست، عمرانیات، معاشیات، نفسیات وغیرہ یعنی ایسے مضامین جن کا تعلق طالب علم کی عملی زندگی سے ہو انھیں لازمی رکھا جائے باقی مضامین (ایک یا دو) کی حیثیت اختیاری ہونے چاہئیں ۔

تعلیمی نصاب سے بی اے، بی کام اور بی ایس سی کی ڈگری کو ختم کرکے انٹر کے بعد براہ راست طالب علم کو ماسٹر کرنے کا اہل قرار دیا جائے۔ طالب علم اپنے شعبے کے جس مضمون میں امتیازی نمبر حاصل کرے یا جس میں دلچسپی ظاہر کرے اسے اس مضمون میں انٹر پاس کرنے کے بعد ماسٹر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ماسٹر کا دورانیہ دو سال سے بڑھاکر تین سال کردیا جائے۔

اس نظام کی بدولت ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل افراد معاشرے کو فراہم کرسکیں گے۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔