(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - صلاحیت تک رسائی کا صلہ

رفیق اللہ پراچہ  جمعرات 11 دسمبر 2014
ہم ہربات کو یہ کہہ کرٹال دیتے ہیں کہ قسمت میں جولکھا ہوگا ہوکررہے گا جبکہ تقدیر ہوتی ہی بدلنے کیلئے ہے۔ فوٹو فائل

ہم ہربات کو یہ کہہ کرٹال دیتے ہیں کہ قسمت میں جولکھا ہوگا ہوکررہے گا جبکہ تقدیر ہوتی ہی بدلنے کیلئے ہے۔ فوٹو فائل

سہیل اپنی جماعت کا انتہائی نالائق بچہ تھا،کبھی پڑھ کر نہ دیا۔آئے دن والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور اساتذہ کی نصیحتوں سے عاجز آچکا تھا،پڑھائی اس کا شوق نہیں مجبوری تھی،ہم جماعت بھی اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔میں اکثر بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ انسان کوئی نہ کوئی صلاحیت کے ساتھ دنیائے فانی میں بھیجا جاتا ہے،اس کی زندگی ایک امتحان کے طور پر گزرتی ہے،امتحان یہ ہوتا ہے وہ اپنی صلاحیت تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر رکھ دی ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیت کو پروان چڑھائے،اسی طرح جیسے ایک باغ کے پودے کی دھوپ،پانی،مٹی اور کھاد سے نشونما کرتا ہے۔

جب انسان اپنی اس صلاحیت کو پہچان کر اسے ترقی دیتا ہے تو وہ ترقی کی منازل کو تیزی سے طے کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے،جہاں مال ودولت،عزت وشہرت ،آسائیش اور خوشیوں سے بھرپور زندگی اس کے استقبال کی منتظر ہوتی ہے۔ خدانخواستہ اگر اس کی رسائی اپنی صلاحیت تک نہیں ہوتی تو نتیجہ بلکل برعکس ہوتا ہے،وہ ذہنی انتشار،بے اطمینانی اور سکون قلب سے محروم ہوکر مسائل کے دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے،کوئی رستہ راہ فرار کا نہیں ملتا۔

ایک دن سہیل کو یہ بات کافی سوچ وبیچار کے بعد سمجھ آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سہیل کے ایام زندگی جو کچھ دنوں پہلے انتہائی تلخ اور کٹھن تھے،اب ان کے دن بدلنے لگے،کیونکہ اس نے نہ صرف یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ اپنی جماعت میں اوّل آئے گا ،ہر صورت کامیابی کی دہلیز تک پہنچے گا،اور ایسا ہی ہوا،سہیل اپنی جماعت میں پوزیشن لینے لگا،اس کی جہد مسلسل اور اپنی صلاحیت تک رسائی نے آج اس کو ایک کامیاب انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا کاروباری بنا دیا،آج دولت اس کے گھر کی لونڈی ہے اور عافیت وسکون،خوشیوں بھری زندگی گزار رہا ہے۔

آج وطن عزیز کا ہر بچہ کسی نہ کسی میدان میں حریفوں کو شکست دے رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر قسم کی صلاحیتوں سے بھر پور نوجوان و بچے موجود ہیں، مگر ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرتی ،نا انصافیوں اور گھمبیر صورتحال کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کا ہمیشہ کے لئے جنازہ نکل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری نااہلی یہ بھی ہے کہ ہم تو تقدیر کے مارے لوگ ہیں، لہذا ہم ہر بات کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ قسمت میں جو لکھا ہوگا  وہ ہو کر رہے گا جبکہ تقدیر ہوتی ہی بدلنے کے لئے ہے محنت سے،جہد مسلسل، پختہ یقین اور ارادوں سے۔ بقول شاعر؛

میرے پختہ ارادے خود میری تقدیر بدلیں گے
میری قسمت محتاج نہیں ہاتھوں کی لکیروں کی

آئیے آج ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم زندگی بھر اپنی تقدیر پر ماتم کناں ہونے کے بجائے اپنے پختہ ارادوں سے اپنی تقدیروں کو بدلے،جیسے سہیل کی تقدیر بدلی ۔ہم اسی طرح اپنی صلاحیت تک ہر قیمت پہنچنے کی کوشش کریں گے،خواہ ہمیں مسائل کے سمندر سے اس پار ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ مضبوط عزائم، پختہ ارادے اور مثبت سوچ آپ کو کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔ بقول شاعر؛

ارادے جن کی پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو
طلاتم وہ موج خیزوں سے گھبرایا نہیں کرتے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔