ہماری شکست کی کہانی (حصہ اول)

محمد عارف شاہ  اتوار 14 دسمبر 2014

آنے والے چند دنوں میں پاکستانی تاریخ کے بدترین المیے سقوط ڈھاکا کا وہ تلخ دن 16 دسمبرآرہا ہے، جسے تاریخ کے سیاہ باب سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ جب وطن عزیز کے دوٹکڑے کردیے گئے۔

16دسمبر 1971  ہماری قومی تاریخ کا وہ المناک دن ہے،جب سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا،دنیائے اسلام کا ایک عظیم ملک اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد دشمنوں کی مکارانہ سازشوں اوراپنی بداعمالیوں کی بھینٹ چڑھ کر دولخت ہوگیا، اس دن قائد اعظمؒ واقبالؒ اور دیگر بانیان پاکستان کی روحیںکتنا تڑپی ہوں گی، ان 20لاکھ شہداء کی روحیں کتنی بے چین ہوئی ہوں گی جنھوں نے قیام پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا انمول نذرانہ پیش کیا تھا تب کہیں جاکر اقبالؒ کے خواب اور قائد اعظمؒ کی برس ہا برس کی ریاضتوں کو تعبیرکی منزل ملی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد غیر ملکی میڈیا سے قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ میں نے پاکستان نہیں بنایا بلکہ مسلم ہندوستان نے پاکستان بنا دیا، پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔‘‘

لیکن 16 دسمبر 1971 کو قائد کا پاکستان ٹوٹ گیا، یہ وہ تاریک دن ہے جب ہماری قومی تاریخ کے خلاف دشمن نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی تھی جس پربغلیں بجانا اس کا حق تھا، جبھی تو اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ بنگلہ دیش کی آزادی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہماری کامیابی یہ ہے کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔‘‘ دشمن اس لیے بھی خوش تھا کہ اس نے ہمارے وقار اور ہماری قومی غیرت کو مجروح کیا تھا۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے اس اندوہناک سانحے کو اس طرح بھولتے جارہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، یا جوکچھ ہوا اسے یاد کرنے اور اپنے زخموں کو تازہ کرنے سے کیا حاصل چنانچہ اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کربھلادیا جائے۔آج کا نوجوان ہماری تاریخ کے اس کڑوے سچ سے ناواقف ہے،قوم کے نونہالوں کو اپنے اسلاف کے روشن کارنامے ضروربتائے جائیں لیکن ماضی کے تلخ حقائق جاننا بھی اس کا حق ہے۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر ملک دولخت ہوگیا اور پاکستان کا مشرقی حصہ مشرقی پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش بن گیا؟

بھارت نے نہ تو مغربی پاکستان کو تسلیم کیا تھا، نہ ہی مشرقی پاکستان کو، بھارتیوں نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔ پنڈت نہرو نے پاکستان کو بھارت میں مدغم کرلینے کے عزم کا اظہار واضح الفاظ میں کردیا تھا، لہذا بھارت کی سیاسی اور جنگی پالیسی اسی عزم کے گرد گھومتی رہی، مشرقی پاکستان کے متعلق اس نے صاف الفاظ میں ہدایات جاری کردی تھیں کہ اس خطے کو ثقافتی اور معاشرتی حملوں سے فتح کیا جائے، چنانچہ ان ہدایات پر فوری طور پر عمل شروع کردیا گیا، وہاں کی سرحدوں کا تعین ایسا ہوا کہ سرحدی دیہات اور کھیتیاں گڈمڈ ہوگئیں، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اِدھر اُدھر میل جول عام رہنے کی وجہ سے یہ سرحد ذہنوں میں نقش نہ ہوسکی، سرحد کا تصور پیدا ہی نہ ہوا، اس سے نہ صرف اشیاء کی اسمگلنگ آسان ہوگئی بلکہ ہندو کے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی نظریات بھی اسمگل ہوتے رہے۔

مغربی پاکستان سے تو ہندو1947ء میں بھارت چلے گئے لیکن مشرقی پاکستان سے وہاں کے ہندو باشندے نہ نکلے، تجارتی اور ثقافتی اداروں پر ان کا قبضہ قائم رہا، پھر وہ تعلیمی اداروں میں استادوں، لیکچراروں اور پروفیسروں کی حیثیت سے داخل ہونے لگے، اسکولوں، کالجوں میں آکر انھوں نے بنگالی طلباء میں بنگالی قومیت کا جذبہ بیدار کرنا شروع کردیا، اُدھر آل انڈیا ریڈیو کے کلکتہ اسٹیشن کو اتنا طاقتور بنادیا گیا کہ اس کی آواز مشرقی پاکستان کے دور دراز گوشوں تک پہنچتی تھی۔ وہاں سے پاکستان کے خلاف اور ہندو مسلم بھائی چارے کا پروپیگنڈہ نشر ہونے لگا۔ سرحدی دیہات میں ہی نہیں بلکہ سرحدی اضلاع میں بھارت کے اخبار صبح سویرے سویرے پہنچ جاتے تھے، مشرقی پاکستان کے ہندو باشندوں کو خاص طور پر ہدایت دی گئی تھی کہ وہ بنگالی مسلمانوں کو سینے سے لگائے رکھیں اور انھیں پیارومحبت کی زنجیروں میں باندھ لیں۔

یہ ایک یلغار تھی جسے روکنے کے لیے ہماری طرف سے کوئی مورچہ بندی نہیں کی گئی تھی بلکہ ہمارا رویہ ایسا تھا جس نے بھارتی پروپیگنڈے کو ہی تقویت دی۔ بھارت سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں جا کر آباد ہوئے، ان میں اکثریت بہار کے مسلمانوں کی تھی، ان مسلمانوں نے اپنے آپ کو پاکستانی تو کہلوایا مگر بنگالی ثقافت، معاشرت اور وہاں کے دیگر احوال و کوائف کو قبول نہ کیا، انھوں نے اپنے آپ کو بنگالیوں سے دو ہاتھ دور ہی رکھا اور ان پر اپنی برتری ٹھونستے چلے گئے، بنگالی مسلمان انگریزوں کے دور سے محرومی اور کمتری کے احساس کا شکار چلا آرہا تھا، ان پر فوجی بھرتی کے دروازے بند تھے، انھیں تیتو میر کے جذبہ جہاد کی سزا دی جارہی تھی، انھیں ان اولین مجاہدوں کی حریت پسندی کی سزا دی جارہی تھی جو بنگال سے صوبہ سرحد میں جاکر سید احمد شہیدؒ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر انگریزوں اور سکھوں کے خلاف لڑے تھے، بنگالی مسلمان فطرتاً جنگجو تھے لیکن انگریزوں نے انھیں غیر جنگجو قرار دیکر کسان اور ماہی گیر بنادیا، کسان بھی ایسی کھیتیوں کا جو نشیب میں ہوں تو جھیلیں بن جاتی ہیں اور بلندی پر ہوں تو پانی سے محروم رہتی ہیں۔

مشرقی پاکستان ندیوں، نالوں، دریائوں، دلدلی جنگلوں اور دشوار گزار علاقوں پر مشتمل خطہ ہے، جہاں زندہ رہنے کے لیے جنگلی جانوروں کی طرح جدوجہد کرنی پڑتی ہے، جو کسر رہ جاتی ہے وہ دریائی سیلاب اور سمندری طوفان پوری کردیتے ہیں۔ ان حالات اور ایسی دشوار زندگی نے بنگالی مسلمانوں کو محرومی اورکسمپرسی کا شکار بنادیا، جن کے ہاتھ دولت یا حکومت آئی وہ شہروں میں آباد ہوگئے اور اپنی دنیا دیہاتی باشندوں سے الگ تھلگ بسالی۔ یہ تھی بادشاہوں کی دنیا، اصل قوم قدرت کی صعوبتیں جھیل رہی تھی، چنانچہ مشرقی پاکستان کا معاشرہ دو ایسے حصوں میں تقسیم ہوگیا جس کا تصور مغربی پاکستان والے ذہن میں لاہی نہیں سکتے۔

مغربی پاکستان میں تو لوگ امیر ہیں یا غریب مگر مشرقی پاکستان میں اکثریت تباہ حال تھی اور اقلیت خوشحال، آزادی ملی بھی تو اکثریت کے معیار زندگی کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی، اکثریت بدحال ہی رہی اور اقلیت خوشحال تر ہونے لگی، جھگیاں اور ان کے مکین سیلابوں میں ڈوبتے اور طوفانوں میں تباہ ہوتے رہے اور ڈھاکا میں نئی طرز کی عمارتیں اس غریب سرزمین سے ابھرنے اور اوپر ہی اوپر اٹھنے لگیں۔ اخباری بیان داغے جانے لگے مگر وزیروں کے بیانوں سے نہ سیلابوں کے آگے بند بندھے اور نہ طوفانوں کا زور تھما، سیاسی بازیگروں نے وہاں کے عوام کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمارے ساتھ اِدھر ہوتا ہے۔بھارت سے جو مسلمان ہجرت کرکے وہاں گئے وہ شہروں میں آباد ہوئے، انھوں نے بنگالیوں کو اچھوت سمجھا، تجارتی میدان میں ہندوئوں کو نیچا دکھانے کی بجائے ہندوئوں سے اشتراک کیا اور پیسہ کمایا، پکے مکانوں کی بستیاں بسائیں اور بنگالیوں سے الگ تھلگ رہے۔

پاکستان کی راجدھانی پہلے کراچی میں تھی پھر اسلام آباد بنی، یہاں سے جب صدور اور وزیر اعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر جاتے تھے تو وہ مہاراجوں اور نوابوں کی شان سے جاتے تھے، بڑے شہروں میں پولیس اور حاشیہ برداروں کے جلوس میں سجی سجائے سڑکوں سے گزرتے، پھر ایک دو بیان داغ کر اور دعوتیں اڑا کر واپس آجاتے تھے، وہاں کچھ کارخانے لگائے گئے مگر کسانوں اور ہر وقت سیلابوں کے خطرے میں رہنے والے دیہاتیوں کے لیے کچھ نہ کیا گیا، سوائے اس کے کہ ہر سیلاب کی تباہی کے بعد مرکز سے چند لاکھ روپے خیرات کے انداز سے بھیجے گئے مگر وہ بھی شہروں میں رہے، اس خیرات کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا گیا، قدرتی آفات سے بچائو کے لیے اور سمندی طوفان کو روکنے کے لیے ترقیاتی منصوبے موجود تھے، ان کے نام پر دوسرے ممالک سے قرضے بھی لیے گئے مگر کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔