ضیاء محی الدین… اپنے یا بیگانے (دوسرا حصہ)

نادر شاہ عادل  پير 12 جنوری 2015

ضیاء محی الدین کے پبلک فیگر ہونے کا اعتبار ہمیں قارئین کے ان کے بارے میں پرجوش تاثرات اور یادوں کی پسندیدگی سے آیا۔ وہ بلاشبہ مرزا غالب کے اس شعر کی تفسیر ہیں کہ؎

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

ضیاء محی الدین کے طویل اور صبر آزما فنی اور تخلیقی سفر میں بظاہر مشق سخن اگرچہ کہیں نظر نہیں آتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ ادب کی تقریباً ساری اصناف سے آشنا ہیں ، وسیع المطالعہ شخص ہیں، ایذرا پاؤنڈ سے لے کر قدیم وجدید مغربی اور برصغیر پاک و ہند کے شعراء کے کلام اور نثری تاریخ کے شناور ہیں۔ ان کا شاعری اور فکشن کا ذوق سب پر عیاں ہے۔

اس بزم میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ آغا ناصر کا یہ ذاتی رنج و ملال اہل ذوق کا مشترکہ سوال بن کر ابھرتا ہے کہ ’’ملک کو آزادی حاصل کیے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ہم اس تمام عرصے میں صرف ایک ضیاء محی الدین پیدا کرسکے ۔‘‘ یہ دکھ اور درد مشترک پاکستان کے ادبی ، سیاسی ، ثقافتی اور فکری شعبوں میں ہمارے قحط الرجال، فروماندگی اور دیوالیہ پن کا کھلا اعلان ہے ، ہم بطور ایک قوم کے اپنے مشاہیر، اہل قلم اور اکابرین فن و ادب کی کتنی تعظیم و قدر کرتے ہیں اس باب کو نہ کھولا جائے تو بہتر ہے ورنہ جوش کبھی یہ نہ کہتے کہ ؎

ادب کر اس خراباتی کا جس کو جوش کہتے ہیں
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی

تاہم ’’مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات‘‘ کے مصداق کچھ ایسی آرا اور تبصروں کا حوالہ درمیان میں ضرور آئے گا جہاں ضیاء صاحب کی غیر ملکی فلمی زندگی اور تھیٹر کے شب و روز کا جائزہ لیا جائے گا اور ان لوگوں کا ذکر آئے گا جو ضیاء محی الدین کے نامور اور عالمی شہرت یافتہ جینئس فنکار ہونے کا انکار تو نہیں کرتے مگر ان کی خواہش ہے کہ انھیں تحت اللفظ اور محفل شعرونثر کی فردوس گوشی تک محدود نہ رکھا جائے، اور اشرافیہ انھیں اپنی سرپرستی کے شوق میں اتنا نہ اپنالے کہ ان کا عام آدمی سے فکری اور فنی رشتہ ٹوٹ جائے۔

بعض فلمی ناقدوں کے مطابق ضیاء در اصل اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے ہالی ووڈ یا برطانیہ کے تھیٹر اور فلمی صنعت میں لیڈنگ رول حاصل نہ کرسکے، ان کے سارے کردار سپورٹنگ ، مختصر دورانیے کے ہیں، صرف ٹی وی سیریز میں وہ قدرے نمایاں اور ہمہ گیر کرداروں میں جلوہ گر ہوتے رہے ۔ حالانکہ ’’سیمی گوئنگ ساؤتھ‘‘ سیریز ، فلم ’’بی ہولڈ اے پیل ہارس‘‘ میں وہ گریگرری پیک ،عمر شریف اور انتھونی کوئن کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر تھے، اسی طرح ای ایم فورسٹر کے ناول ‘‘اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ میں ڈاکٹر عزیز کا خوبصورت کردارادا کیا۔’’جولیس سیزر‘‘ بنے، فلم Immaculate Conception کے ’’شہزادہ‘‘ کو کون بھول سکتا ہے۔

ایک کالم نگار اور مشہور براڈکاسٹر نے یہ سقراطی طنز بھی کیا تھا کہ ضیاء محی الدین اتنے مصروف اور بڑے اداکار تھے کہ انھوں نے ’’لارنس آف عربیہ‘‘ میں بھی پندرہ بیس منٹ دیے تھے۔‘‘ حقیقتاً یہ شدید ذاتی ریمارک یا ’’ بیلودی بلٹ ‘‘ فقرہ تھا۔ کیونکہ دنیا بھر کی فلمی صنعت میں ایسے ہزاروں اداکار تھے اور اب بھی ہیں جو مختصر یا معاون کرداروں کی ضرورت بڑی خوبی سے پوری کرتے رہے ہیں ۔آپ یاد کریں فلم ’’Judgment at Nuremberg {{‘‘ میں مونٹگمری کلفٹ نے صرف چند منٹس کٹہرے میں کھڑے ایک نیم پاگل گواہ بن کر شاندار اداکاری کی جب کہ مقابل میں برٹ لنکاسٹر ، سپنسر ٹریسی اور جرمن اداکار میکسیملین شیل جیسے آسکر کے لیے نامزد اداکار موجود تھے ۔ ضیاء نے دنیا کے بلند پایہ اداکاروں کی رفاقت میں اداکاری کی ، برطانیہ میں تو سر لارنس اولیویئر ، جان گیل گڈ سے ہاتھ ملانا بھی اعزاز سمجھا جاتا تھا، فلم ’’خرطوم‘‘ میں ضیاء نے چارلٹن ہسٹن ، لارنس اولیویئر، رچرڈ جونسن، رالف رچرڈسن اور الیگزینڈر ناکس کے ہمراہ کام کیا، پاکستان میں اس فلم پر پابندی لگی ۔

’’لارنس آف عریبیہ‘‘ سے پیٹر او ٹول نے اپنا فلمی کیریئر شروع کیا تھا، مصری اسٹار عمر شریف بھی اسی کے ذریعے دنیائے فلم سے متعارف ہوئے، ناقدین کا کہنا ہے کہ پیٹراوٹول ہدایتکار ڈیوڈ لین سے کہہ سکتے تھے کہ بھارتی اداکار آئی ایس جوہر کے بجائے ضیاء محی الدین کو ان کا رول دیا جاتا بجائے عرب بدو گائیڈ ’’طفاس‘‘ کے۔ اسی طرح ان کا اصرار تھا کہ ’’لارڈ جم‘‘ میں بھی پیٹر اوٹول ضیاء کو جیمز میسن جیسے بڑے رول کے لیے ہدایتکار کو مشورہ دے سکتے تھے،اگر ان کی ضیاء سے دوستی تھی۔لیکن یہ سب مفروضے ہیں، مغرب میں کاسٹنگ کا الگ شعبہ ہے ، وہ پاکستان نہیں کہ جہاں پرچی چل جائے۔

ٹھیک ہے کہ ہالی وڈ کے 20 سے زائد سپر اسٹار چھوٹے قد کے ہیں، الپچینو اور بریڈ پٹ کو ہی لے لیں، فلم ’’کاسابلانکا‘‘ میں تو ہیرو ہمفرے بوگارٹ ہیروئن انگرڈ برگمان سے چھوٹے نظر آئے، بعض فلموں میں ایلن لیڈ ہیروئن سے کسی تختے پر کھڑے ہوکر مکالمے کہتے تھے، پوری انڈین انڈسٹری اور ہالی وڈ و بالی وڈ کا منظر نامہ بتاتا ہے کہ کتنے بڑے اداکار مہینوں ایکسٹرا رول یا ضیا کی طرح مختصر کردار کرتے رہے۔ سٹیفن بائڈ جیسے ولن اور ہیرو کو اپنا لوہا منوانے کے لیے انتظار کرنا پڑا، جیفری ہنٹر خوبرو اور نیلی آنکھوں والے کاؤ بوائے ہیرو ہی تھے مگر ’’کنگ آف کنگز‘‘ میں یسوع مسیح کا ٹائٹل رول کر کے ہی عروج حاصل کرگئے ۔ کئی اداکار تھیٹر کی مستقل تربیت سے کندن بن کر نہیں نکلے تھے، بعض پر تو ڈائریکٹر کی نگاہ پڑی اور ان کا ستارہ چمکا ۔ضیاء نے اس چیز کا انتظار کیے بغیر شیکسپئیر ڈراموں اور دیگر ٹی وی سیریز اور ٹیلی فلمز میں بھرپور اداکاری کی ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ضیاء صاحب کس اسکول آف ایکٹنگ سے منسلک ہیں تاہم ایک اکیڈمی کی سربراہی اور لندن کے تھیٹریکل تجربات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ میتھڈ اسکول کے آدمی ہیں ، جب کہ رشین اسکول آف ایکٹنگ کے ایک بڑے ہدایتکار اور رائیٹر رچرڈ بولس لیفسکی نے اپنی شاہکار کتاب ’’ACTING‘‘ میں واضح طور کہا ہے Art cannot be taught.To creat talent means to possess talent.، یعنی فن سکھایا نہیں جاسکتا ۔ صلاحیت یا مہارت کی تخلیق کا مطلب ہے کہ آپ میں صلاحیت پہلے سے موجود ہونی چاہیے۔ میری اپنے نئی نسل کے اداکاروں سے درخواست ہے کہ وہ اس نایاب کتاب کو ضرور پڑھیں، یہ اداکاری پر چشم کشا دستاویز ہے ۔ ناپا سے وابستہ افراد اور جواں سال اداکاروں اور فن کاروں سے پتا چلا ہے کہ ضیاء اپنی کامیاب اکیڈمی میں اسی اصول کے تحت کام لے رہے ہونگے ۔ابھی حال ہی میں ضیاء صاحب نے ایکسپریس کے معروف کالم نگار وسعت اﷲ خان کے اندرکا اداکار ڈھونڈ نکالا ۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنے طویل عرصے بعد ، جس میں ضیاء دیار غیر میں کام کرتے رہے ، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کی سربراہی انھیں دی گئی کیا اس میں سرکاری سطح پرکچھ احساس زیاں بھی شامل ہے۔

اس کا جواب دینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ملک میں تھیٹر اور فلم انڈسٹری کو کس حکومت نے اس قابل سمجھا، فنون لطیفہ تو ہمیشہ سے قابل گردن زنی ٹھہرے ۔ ضیا محی الدین کو اپنا مقبول ترین ’’ شو ‘‘ ختم کیے ہوئے کتنا زمانہ گزرا ہے لیکن کیا ان سے دوسرا ایسا کلر فل شو پیش کرنے کی کسی چینل یا پی ٹی وی نے پیش رفت کی، ضیاء محی الدین شو 70 کی دہائی میں ختم ہوا تو کچھ عرصے بعد ضیاء برطانیہ چلے گئے۔

کوئی ان دنوں کے پی ٹی وی پائینئر ایک اہم شخصیت اسلم اظہر کا ذکر نہیں کرتا ۔ ضیاء کو دریافت کرنے کا سہرا آغا ناصر اور اسلم اظہر کے سر تھا ۔ ضیاء شو کے پروڈیوسر رشید عمر تھانوی اور عشرت انصاری بھی کسی کو یاد نہیں ۔ ضیاء محی الدین کی فلم ’’رہگزر‘‘ کا بھی صرف ذکر ملتا ہے وہ شرطیہ آخری پرنٹ بھی شاید گم ہوگیا، پھر جس طرح ’’مجرم کون‘‘ لاہور میں بنی ، ضیاء کی پہلی اور آخری ملکی فلم ثابت ہوئی اسی طرح کئی پروگرام کرنے کے بعد بھی ان کے ماضی والے شو کی تسکین نہیں ہوتی ، جب کہ ضیاء جیسے باکمال اور ہمہ صفت فلم ایکٹر کا ملکی فلم اسکرین سے واپسی ایک المیہ ہے اسی طرح ان کا غیر ملکی تھیٹر اور فلم انڈسٹری میں سرخرو ہونا ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔

کچھ نقاد یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ جب اظہار قاضی،غلام محی الدین ، اسماعیل شاہ ، ہمایوں سعید اور معمر رانا بڑے اسکرین پر سروایؤکرسکتے ہیں تو ورسٹائل ضیاء کیوں نہیں۔کسی نے یہ عذر پیش کیا کہ ضیاء کو ہدایتکار اسلم ڈار کے سپرد کیا گیا تھا ۔جب کہ انھیں ضیاء محی الدین سمیت طلعت حسین ، عثمان پیرزادہ، شہناز شیخ ، مرینہ خان ، روحی بانو ، خالدہ ریاست ، زیبا بختیار ، شجاعت ہاشمی، فردوس جمال ، انور اقبال ، اسد ، شکیل ، عجب خان اوردرجنوں دیگر باصلاحیت مگر دل برداشتہ اداکاروں اور ادا کاراؤں کی فلم نگر سے گریز یا واپسی کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اگلی اور آخری قسط میں ضیاء محی الدین کی تحریر ،کالموں اور افکار و مشاہدات کا ذکر ہوگا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔