شناخت

منظور ملاح  منگل 10 فروری 2015

غالباً 80 کی دہائی تھی ، جب ہمارے ہاں دو ادیبوں کی دھوم مچی ہوئی تھی، جس نے ان کے کتابیں بھی نہ پڑھیں، وہ بھی اپنی تصانیف وتقاریر میں ان کا نام لینے لگا۔ان میں سے ایک ادیب کانام تھا گبریل گارشیا مارکیز،جو حال میں وفات پاچکے ہیں،کولمبیا کے اس رائٹرنےThe Hundred years of Solitude  ” نامی ناول جادوئی حقیقت نگاری کے انداز میں لاطینی امریکی ملکوں کی بدحالی پر لکھا تو ہر طرف واہ واہ ہو گئی ۔

پھر تو ادبی دنیا پر ان کا سکہ چلنے لگا،نوبل پرائز بھی جیتا۔ دوسرے ادیب چیک نسل کے فرانسسی لکھاری میلان کنڈیرا، ہرتصنیف میں نئے رنگ، نئی تیکنیک، ادب اور صحافت کا امتزاج پایاجاتا ہے۔ 1975 سے فرانس میں مقیم ہیں، اس لیے اپنی تصنیفوں کو فرنچ ادب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ان کی اہم کتاب Lightness of Being  The Unbearable  ہے جس پر امریکن ڈائریکٹر فلپ کفمین نے فلم بھی بنائی۔ کنڈیرا کے والد موسیقار تھے اور پیانوں بجاتے تھے، بچیں میں انھوں نے بھی ان سے پیانو بجانا سیکھا ، اس لیے ان کی تصنیفوں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ 1989 تک چیکو سلواکیہ کی حکومت نے ان کی تصنیفوں پر پابندی لگائی،لیکن کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد ان سے پابندی اٹھائی گئی۔

دنیا کے ہر بڑے رائٹرکی طرح اپنی فطرت میں تنہائی پسند اور میڈیا سے کوسوں دور رہنے والے میلان کنڈیرا، پہلے چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے ممبررہے ،1950میں انھیں پارٹی سے نکالا گیا، پھر شامل کر کے 1970 میں دوبارہ نکالا گیا ،وجہ اظہار آزادی کے قائل تھے لیکن کمیونسٹ دور میں ہر ایک کے ہونٹ سیے ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ 1975 میں چیکو سلواکیہ سے دلبرداشتہ ہوکر فرانس میں آکر ڈیرہ ڈالا۔ یہ دنیا کے واحد لکھاری ہیں جو بار بار نوبل پرائز کے لیے نامزد ہوئے لیکن قسمت کی دیوی ان سے روٹھی رہی ، پھر بھی یہ نوبل پرائز سے بڑے لکھاری ہیں۔ 1967 میں ان کا ناول The Joke  شایع ہوا ۔

جس میں انھوں نے چیکو سلواکیہ کے کمیونسٹ راج کی اچھی خاصی خبر لی ہے اور ان کو ملک سے نکال دینے کے واقعے کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے ناولز”Life is Else Where” (1973) “The Book of Laughter & Forgetting” (1978)، “The Unbearable Lightness of Being” (1984)، “Immorality” (1990)، “Slowness” (1995)، “Identity” (1998) اور “Ignorance” (2000) چھپ چکے ہیں۔ ان کی شارٹ اسٹوریز کی کتاب  “Laughable Loves ” 1969 میں چھپی۔ شاعری اور ڈراموں کے علاوہ کئی سیاسی وادبی مضامین لکھ چکے ہیں۔

بہر حال میں یہاں جس ناول کا ذ کرکرنا چاہتا ہوں وہ ہے “Identity” جسے لنڈااشر نے فرنچ سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ناول کی شروعات فرانس کے تفریحی مقام نارمنڈے کوسٹ کے ایک ہوٹل سے ہوتی ہے، جہاں ناول کی ہیروئن چینٹل کواپنے محبوب کے سوا ایک رات گذارنی ہوتی ہے اوراگلے دن ناول کے ہیرو جین مارک نے آکر ان سے ملنا ہے۔ چینٹل جنہوں نے اپنے5 سال کے بچے کی وفات کے بعد اپنے شوہرکو طلاق دی تھی، اسے ہر جگہ بچوں کے باپ صرف پرورش کرنے والے ڈیڈی لگتے ہیں، نہ کہ پیارکرنے والے والد۔ وہ ہوٹل میں ڈائننگ ٹیبل کے سامنے بیٹھے دور ان دو عورت ویٹرز کی گفتگو سنتی ہے۔

جس میں وہ ایک ٹی وی ٹاک شوکا حوالہ دے رہی ہوتی ہیں، جوگمشدہ لوگوں کے متعلق ہوتا ہے۔ان باتوں سے اس کے دل میں وہم اور وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ شاید ان کا محبوب بھی ان سے ملنے سے پہلے کہیں گم نہ ہوجائے۔ کنڈیرا نے اس نفسیاتی کیفیات کو خوبصورت منظر نگاری کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی ٹی وی رپورٹس کا حوالہ دے کر ادب اور میڈیا کو آپس میں جوڑا ہے۔ آگے چل کر چینٹل کے ٹراٹسکیئن باس کو جین مارک کے ڈائیلاگس کے ذریعے طنزکا نشانہ بنایا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کنڈیرا سوشلسٹ نظریے میں موجود فرسودہ خیالوں اورکمیونسٹ راج کے دعوؤں، اظہارآزادی پر پابندیوں کے خلاف قلم اٹھایا ہے، جس کا کچھ وقت وہ خود بھی شکار رہے۔

یہ ناول خارجی اورداخلی انسانی حقیقتوں اور تصورات کی بہتریں طریقے سے عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول میں دونوں کرداروں کے درمیان پیچیدہ تعلق کو قدم بہ قدم پر ان کی باتوں اور خیالوں کے ذریعے قارئین میں عجیب کیفیتیں پیدا کرتا ہے جیسے چینٹل کو ہمیشہ یہ وہم رہتا ہے کہ ان کے اوپر سے جوانی کے سایے اٹھنے کے بعد شاید ہی کوئی اسے پسند کرتا ہو۔ ایسی باتوں کا تذکرہ کئی مواقعے پر جین مارک سے کرتی ہیں جب کہ جین مارک اس کے اس وہم کو دور کرنے کے لیے گمنام عاشق کی طرح اسے خط لکھ کر یہ تاثر دیتا رہتا ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو اور کوئی گمنام بندہ تمہیں پسند کرتا ہے اورہمیشہ تمہارے تعاقب میں رہتا ہے۔

یہ دونوں کردار اپنے پہلے تعلق کو گم کرکے اپنی شناخت بدل کر ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان نفسیاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔کنڈیرا عام زندگی میں بھی ایسے رویوں کی بات کرتا ہے۔ اس کیفیت کے دوران چینٹل جہاں بھی بیٹھتی ہے تو تصور کے دھوئیں ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں مثال کے طور پر اگر کسی جوڑی کو اکٹھا بیٹھا دیکھتی ہے تو اچانک ذہن سے خیال اٹھتا ہے کہ کاش وہ اور جین مارک اسی طرح اکٹھے بیٹھے ہوتے۔ اس طرح کے تصورات تو کوئی دل پھینک پیار کرنیوالاہی کر سکتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مستقبل کی خوفناک تصویر بھی اندر ہی اندر بناتی رہتی ہے کہ اگر جین مارک مرگیا تو ،اس کی دنیا کیسی اداس ہوگی ۔ وہ اپنے ماضی اور حال میں غوطے مارکر اپنے مرحوم بچے اور جین مارک کے نازک رشتوں کا بھی نقشہ کھینچتی رہتی ہے۔

آخر میں یہ دونوں کردار خیالات وتصورات کی دنیا سے باہر نکل کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اکٹھے پیرس سے لندن روانہ ہوتے ہیں، اس وعدے کے ساتھ کہ وہ کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیوفائی نہیں کرینگے۔ اس طرح اس ناول میں کئی انسانی داخلی کیفیات، بیرونی سماجی اثرات، تصورات وخیالات،وہموں وسوسوں کا ایک جہان نظر آتا ہے۔ اس ناول میں کنڈیرا مادی دنیا کی موجودگی میں دوستی اور تعلق کے رشتوں کے تصورات اور ان کے ٹوٹنے کے خدشات پر بحث کرتا ہے۔ ناول کے آخر میں کنڈیرا خود سر ریئلسٹک انداز میں اسی ساری کہانی پر سوال اٹھاتا ہے کہ ان کے یہ کردار کہیں صرف خواب تو نہیں دیکھ رہے تھے اور اگر دیکھ رہے تھے تو کیوں اورکس کے لیے ؟ کہیں وہ ہمارے سماج کا عکس تو نہ تھے؟

ناول میں کہیں کہیں جنسی تعلقات کو رومانٹک انداز میں لکھا گیا ہے ۔ اس ناول کا ہر پیراگراف ’’ شناخت ‘‘ کے سوال پر بحث کرتا ہے، جسے ناول نگار نے بڑی مہارت سے بیان کیا ہے ۔ اس ناول کے ڈائیلاگس مختصر لیکن معنی خیز ہیں ، جس میں تخلیق کا دریا بہتا ہوا نظر آتا ہے جب کہ کہانی، کردار اور ڈکشن نشیب و فراز کی دنیا کے مسافر لگتے ہیں جن کو سمجھنے کے لیے اچھی خاصی سمجھداری کی ضرورت ہے کیوں کہ کنڈایرا نے اپنی تصنیف میں انوکھا موضوع ، منفرد ٹیکنیک اور اسلوب استعمال کیے ہیں ۔ البتہ اس ناول میں کہیں کہیں خوامخواہ کی باتیں بھی شامل ہیں اورکچھ باتوں کو بغیرمقصد کے بار بار دہرایا گیا ہے۔

متحرک کرداروں اور آگے بڑھتی کہانی کی بجائے اس طرح لگتا ہے جیسے کہانی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ گھومتی رہتی ہے یعنی فرانس کے نارمنڈے کوسٹ سے لے کر نارمنڈے کوسٹ کی دنیا تک محدود ہوتی ہے پھر لندن روانگی اور ناول نگارکے پڑھنے والوں سے تیکھے میٹھے سوالات ۔ لیکن پھر بھی ہم اسے عالمی ادب کا ایک معیاری ناول کہہ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔