اے حمید صاحب کی یاد میں

اصغر عبداللہ  اتوار 8 مارچ 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

رات کے اس پہر جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، تو کھڑکی سے باہر جاتے جاڑوں کی موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ بجلی کوندتی ہے تو اندھیرے میں بادلوں کی گرج اور بڑھ جاتی ہے۔ایسے میں اے حمید صاحب یاد آتے ہیں، اور ذہن کہیں دور بہت دور، ہرے بھرے جنگلوں میں بھٹکنے لگتا ہے … ان مانوس جنگلوں میں جہاں رات کو جب بارش ہوتی ‘ ہوا چنگھاڑتی‘ بجلی کوندتی ہے اور بادل گرجتے ہیں اور ایکا ایکی کئی درخت دھڑام سے گرتے ہیں، اور ندی نالوں کا شور بڑھ جاتا ہے تو انھی جنگلوں کے کسی ڈاک بنگلے میں آتش دان کے قریب لکڑی کی ایک میز کرسی پر اے حمید صاحب اوورکوٹ پہنے، پسندیدہ برانڈ کا سگریٹ سلگائے، اور چائے پیتے ہوئے کشمیر کی دہقان لڑکی ریشم کی کہانی لکھ رہے ہیں ۔ یہ دلگداز کہانی، جو بہت سال پہلے ’’جنگل روتے ہیں‘‘ کے نام سے شایع ہوئی، اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی، ہنوز لوح دل پر ثبت ہے۔ اے حمید صاحب سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔

اردو کے رومانوی ادب میں اے حمید صاحب کا ہم پلہ کوئی نہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ان کے ناولوں ’’ڈٖربے‘‘ اور ’’جنگل روتے ہیں‘‘ نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ میں لاہور کے ایک قومی روزنامہ میں ایڈیٹر میگزین تھا، جب اے حمید صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی، جو بعد میںمشفقانہ تعلق میں بدل گئی۔ ان کی عمر اس وقت ۸۰ سے اوپر تھی۔ وہ سنڈے میگزین میں ’’بارش، سماوار، خوشبو‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ اس طرح کا کالم ان سے پہلے کسی نے لکھا، نہ ان کے بعد کوئی لکھ سکا ہے۔

ہر دوسرے پیر کو گیارہ بجے کے لگ بھگ میگزین سیکشن کا دروازہ کھلتا اور وہ اندر داخل ہوتے۔ ان کے ہاتھ میں درمیانے سائز کا خاکی لفافہ ہوتا تھا، جس میں اگلے دو ہفتوں کے کالم ہوتے تھے۔ وہ سیدھے میرے پاس آتے اور ابھی بیٹھ ہی رہے ہوتے کہ میگزین سیکشن کا دروازہ دوبارہ کھلتا اور نیاز چائے والا نمودار ہوتا۔ اس کے ہاتھ میں کھڑکھڑاتی ٹرے پر چائے کا ہاف سیٹ ہوتا، جسے وہ یہ کہتے ہوئے میز پر رکھ دیتا، لو جی حمید صاحب۔ چائے سے ان کو والہانہ لگاو تھا۔ گھر میں وہ چائے بڑے ہی اہتمام سے بناتے، پیتے اور پلاتے تھے۔

ایک بار دفتر آئے، تو ان کے ہاتھ میں ٹی بیگز کا پیکٹ تھا۔ کہنے لگے، یہ پیکٹ اشفاق احمد سیلون سے لائے تھے، آدھے میں نے رکھ لیے ہیں، آدھے تمہارے ہیں۔ یہ پیکٹ، جسے اردو کے دو مایہ ناز اور میرے محبوب ادیبوں سے نسبت تھی، کئی مہینے میرے پاس محفوظ رہا تھا۔ چائے کے علاوہ اگر کسی چیز کی ان کو طلب ہوتی تھی، تو وہ سگریٹ تھے۔جب کبھی علی سفیان آفاقی صاحب کے کمرے سے، جو سگریٹ کے دھوئیں سے کوسوں دور بھاگتے تھے، دھویں کے مرغولے اٹھتے نظر آتے، تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ اے حمید صاحب اس وقت دوست علی سفیان آفاقی کے پاس تشریف فرما ہیں۔

پرانے لاہور سے اے حمید صاحب کو عشق تھا۔ پرانے لاہور پر انھوں نے بہت لکھا، جس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ لاہور کی مال روڈ، جو پرانے وقتوں میں ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھی، اس میں گویا ان کی جان تھی۔ مال روڈ کا منظر اب یکسر بدل چکا تھا، اس کے باوجود وہ کبھی کبھار اس کا چکر لگا لیتے تھے۔ یہ ان کی وفات سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ سخت جاڑوں کے دن تھے۔ پیر کی صبح تھی۔ ۹ بج چکے تھے۔ میں نے کھڑی سے باہر دیکھا۔ ہر طرف کہر کی چادر تنی تھی۔ میں دفتر جانے کا پروگرام ملتوی کر چکا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف اے حمید صاحب تھے، ’’عبداللہ، کب تک دفتر پہنچ جاو گے۔‘‘

میں نے کہا، ’’سر، آج تو باہر بہت ہی دھند ہے اور ۔۔۔۔۔ ‘‘ انھوں نے درمیان میں ہی میری بات کاٹ دی، ’’یار، تم جوان آدمی ہو، یہ عذر مجھ جیسے بوڑھے آدمی کو ہونا چاہیے‘‘ اور پھر کہنے لگے، ’’میں ۱۱ بجے آ رہا ہوں، تم بھی پہنچ جاو۔‘‘ گیارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے، جب میں چیئرنگ کراس پر واقع اپنے اخباری دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ دوسری منزل پر میگزین سیکشن میں جانے کے لیے اکاونٹ سیکشن میں سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ میں اکاونٹ سیکشن میں داخل ہوا، تو دیکھا کہ اے حمید صاحب، سامنے کیشیئر اکبر بادشاہ کے پاس بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہی مسکرائے اور ہاتھ میں پکڑے خاکی پیکٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا، آج پورے مہینے کے کالم لے کر آیا ہوں، یہ کالم اپنی دراز میں رکھ کر یہیں آ جاو، ۔ آج جب ان کی یہ شفقت بھری گفتگو یاد آتی ہے تو سینہ سلگ اٹھتا ہے۔

ان کے کالموں کا پیکٹ اپنی الماری میں رکھ کر واپس اکاونٹ سیکشن میں پہنچا تو کہنے لگے ’’آو بھئی‘‘ اور تھوڑی دیر میں ہم چیئرنگ کراس کے فٹ پاتھ پر تھے۔ دھند قدرے کم ہو چکی تھی۔ چیئرنگ کراس پر ان کو ایک قدیمی مکتبہ جانا تھا، لیکن اس طرف جانے سے پیشتر وہ ہمیشہ نیچے فٹ پاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے ریگل چوک پہنچتے۔واپسی پر ٹی اسٹال پر چائے پیتے ہوئے، میں نے ان سے پوچھ ہی لیا ’’سر، یہ آپ نیچے فٹ پاتھ کی طرف کیا دیکھتے ہیں، لگتا ہے یہاں آپ کی کوئی بہت قیمتی چیز گم ہو گئی ہے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے ’’ہاں بھئی، یہاں میری ٹھنڈی سڑک گم ہو گئی ہے، میرے دوست گم ہوگئے ہیں، سر شام جن کے ساتھ یہاں سے پیدل چلتا ہوا میں ٹی ہاوس پہنچتا تھا؛ سڑک کے اُس طرف فٹ پاتھ پر، میں چل رہا ہوتا، اور سڑک کے دوسری فٹ پاتھ پر، ان میں کوئی چل رہا ہوتا، اور ہم ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوتے، اور ہمیں ایکدوسرے کی آواز صاف آ رہی ہوتی۔ اکا دکا کوئی ٹانگہ یا کوئی سائیکل گزر رہا ہوتا۔

میں اس فٹ پاتھ پر چلتا ہوں، تو میں اس شور مچاتی مال روڈ کے نیچے اس خاموش ٹھنڈی سڑک کو دیکھ بھی سکتا ہوں ۔‘‘ پھر سرگوشی کے لہجہ میں کہا ’’زمیں کے نیچے کا حال جاننے کا یہ عمل میں نے سری لنکا کے جنگلوں میں سنیاسی بابا سے سیکھا تھا‘‘ وہ قہقہہ لگا کے زور سے ہنسے لیکن ان کی آنکھوں میں، تیرتا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا۔ آج رات کے اس پہر جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، تو کھڑکی سے باہر جاتے ہوئے جاڑوں کی موسلادھار بارش ہو رہی ہے اور تیز ہوا چنگھاڑ رہی ہے اور بجلی کوند رہی ہے اور بادل گرج رہے ہیں۔ جب بھی جاتے ہوئے جاڑوں کی بارش اس طرح برستی ہے، تو اے حمید صاحب یاد آ جاتے ہیں۔، شاعر نے کہا تھا

دور کہیں اک مدھوبن ہے
اس بن کا ہر پیڑ ہرا ہے
اس بن میں اک موہ بھرا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔