ابتدا سے انتہا تک

تسنیم پیرزادہ  اتوار 22 مارچ 2015

کہتے ہیں انسانی عادات اور عقل و دانش انسان وراثت ماحول اور اپنی خاندانی خون میں شامل DNA کے خلیے سے حاصل کرتا ہے یعنی انسان کی فطری صلاحیتیں برسہا برس تک ختم ہو نے کا نام نہیں لیتیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے دنیا کے ابتدائی تہذیبی ادوار میں یا اس سے بھی پہلے انسانی حرص و ہوس اور لوٹ مار کے واقعا ت موجودہ دور سے بھی بدتر حالات میں موجود تھے۔

جنگیں قتل و غارت مفاد پرستی طاقتور افراد کا کمزور انسانوں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کا سلسلہ اسی طرح سے رائج تھا۔ اگر ہندوستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو خا ص طور پر بادشاہتوں کے دوران خاصا خون خرابہ ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر ان کا موازنہ ہمارے موجودہ سیاسی نظام سے کیا جائے مقاصد کے اعتبار سے تو یہ وہی منظر نامہ پیش کرتے ہیں سوائے وقت اور ٹیکنالوجی کی تبدیلی کے مثلاً اس دوران جنگی حملے گھوڑوں اور رتھوں پر بیٹھ کر تلواروں اور تیر کمانوں سے کیے جاتے تھے اور آج بغیر پائلٹ کے ڈرون ہوائی حملے، بم دھماکے، خودکش بم دھماکے اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکے جو موبائلز فون کے ذریعے بھی عمل میں لائے جاسکتے ہیں، ان کا رواج عام ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر اس انسانی حیوانی خصلت کی کہانی کب اور کیسے ختم ہوگی؟ ہر نیا دن ان کے دہشت گرد حملوں سے کئی جانوں کا خون بہا دیتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے دہشت گردی کی موجودہ جنگ جن مذہبی نظریات اور تصورات کو آلہ کار بناکر دنیا کو تباہی کی لپیٹ میں لے رہی ہے اس سوچ کا تعلق نہ تو حرص سے ہے نہ بے گناہ افراد کا خون بہانے سے ہے۔

یہاں خودکش حملہ آوروں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ان درندہ صفت انسانوں کے DNA سے ہی ان کی ذہنی بیماری کے علاج کا بخوبی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تو نامعلوم افراد ہیں۔ یہ اپنے ہاتھ کی صفائی سے حملہ کرکے پھرتی سے جائے واردات سے غائب ہو جاتے ہیں اب جب کہ ہمارے ملکی حالات سیاست دانوں کے ہاتھ سے بالکل نکل چکے ہیں لگتا ہے ان حالات کا حل اب ماہر نفسیات کی مدد کے بغیر حل کرنا ممکن نہیں رہا چنانچہ سیا ست دانوں کے لیے ماہر نفسیات کی مدد حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ حملہ آوروں اور سیاست دانوں کے نفسیا تی مرض کا کوئی سنجیدہ حل تلاش کیا جاسکے۔

سیاست دان اب ملکی مسائل حل کرنے کی بجائے خطرناک حد تک مسائل میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں گو سیا سی اور مفاداتی جنگوں اور سیاستوں نے دنیا بھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ لیکن کم ازکم عقل مند قوموں نے بیرون دنیا اثاثوں سے مالا مال ممالک کی لوٹ مار کا کاروبار جاری رکھنے کے لیے اپنی عوامی طاقت کو تمام تر دنیاوی سہولتوں اور آسائشوں سے نواز کر اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے نااہل سیاست دانوں کے قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد دکھائی دینے لگا ہے کہ انھیں ہر قدم پر ذلت اور رسوائی اٹھانی پڑ رہی ہے۔

امریکی سیاسی مافیے نے اچانک اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے نکالا اور ان پر بھاری امریکی فو ج حملہ آور ہوئی۔ اس پر ہمارے حکمرانوں نے خوف کے مارے ایک لفظ بھی کہنے کی جرأت نہ کی۔ اسی طر ح ضیاء الحق نے ملک کے منتخب نمایندے ذوالفقار علی بھٹو کو احمد رضا قصوری کے وا لد کے قتل کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے پھانسی پر چڑھا دیا۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے بھٹو کو ملک میں احمد رضا قصوری کے والد محترم کی بجائے کسی اور سیاسی شخصیت کا سر قلم کروانا چاہیے تھا تاکہ آج اس سرزمین پر سیاسی استحکام اور سکون تو دکھائی دیتا۔

ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان ہی کو دیکھ لیجئے وہاں مودی سرکار کی عزت افزائی ہی ایک معمولی ٹھیلے پر چائے بنانے والے کی ملک کی حکومتی کمان سنبھالنے پر ہوئی ہے۔ اگر یہ واقعہ ہمارے ملک میں ہوا ہوتا تو ہمارے ملک کے تمام بیورو کریٹس ذہنی طور پر اسے قبول نہ کرتے۔قارئین میں موجودہ حالات کے پیش نظر اپنی ایک نظم تحریر کررہی ہوں۔
دہشت کا مو سم
موسم اب اس دھر تی پر
آتے ہوئے گھبراتے ہیں
پرندے بھی دہشت گردوں
کی دہشت سے اُڑ جاتے ہیں
پھول خوف سے تھام کے اپنا
دل باغوں میں کھلتے ہیں
لوگ یہاں دہشت گردوں
کے ہاتھوں روز ہی مرتے ہیں
نفرت کا موسم ہے یہ تو
کسی کو کسی سے پیار نہیں یاں
یپار ہی سے ہر پھول اور پھل
خوشی کا زمین پہ کھلتا ہے
زندگی کا یہ نظا م سارا
اسی سے آگے بڑھتا ہے
پیار نہ ہو گر یہاں تو سب
کچھ ہی فنا ہو جائے گا
زمین پہ کچھ باقی نہ رہے گا
خاک سیاہ ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔